تصوف ،تعلیماتِ غوثیہ اور عصری تقاضے
ہردور میں تصوف اسلامی تہذیب کا مستقل شعبہ اور علومِ دینیہ کا اہم ترین موضوع رہا ہے -تما م آئمہ ومجتہدین کااس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ عزوجل کے ہاں کامیابی کا معیار صرف اور صرف تزکیہ ہے اور انبیاء و رسل (علیہ السلام)کی بعثت کا اولین مقصد بھی یہی ہے کہ اپنی اُمت کو مجاہدۂ نفس اور ریاضت کے مختلف مراحل سے گزار کر اُن کےنفوس کا تزکیہ کیا جائے جیساکہ اللہ عزوجل نے اپنے محبوب کریم سیدی رسول اللہ (ﷺ) کے بارے میں ارشادفرمایا :’’ خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا‘‘ (التوبہ:103)
’’اے محبوب (ﷺ)ان کے مال میں سے زکوٰۃ تحصیل کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو ‘‘-
مختصر یہ کہ اگر تمام علوم وفنون اور دیگر عبادات وریاضت میں سے ان کی غایت اولیٰ یعنی تزکیہ کو نکال دیا جائے تو علم ،محض رسمی علم اور عبادت و ریاضت،محض رسمی عبادت و ریاضت ہی رہ جاتی ہے- تزکیہ اور مجاہدہ ٔ نفس کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث مبارک سے بخوبی لگا یا جا سکتا ہے کہ:
’’ایک مرتبہ آقا کریم(ﷺ) جہادسے واپس تشریف لائےتو آپ(ﷺ)نے اپنے صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم) سے ارشادفرمایا:
’’ أَتَيْتُمْ مِّنَ الْجِهَاد ِالْأَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الْأَكْبَرِ‘‘ ’’تم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف آ ئے ہو-
’’ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے عرض کی یارسول اللہ(ﷺ)! جہادِ اکبر کیا چیز ہے؟توآقا کریم(ﷺ)نے ارشادفرمایا:
’’مُجَاهَدَةُ النَّفْسِ‘‘، (وہ)نفس کا مجاہدہ کرنا ہے‘‘-
’’مرقاۃ المفاتیح ‘‘میں اسی چیز کی وضاحت ’’ملاعلی قاریؒ یوں فرماتے ہیں:
’’اورحقیقی مجاہد وہ ہوتاہے جواللہ عزوجل کی اطاعت میں اپنے نفس سے جہاد کرتاہے‘‘ -
صوفیاءکرام کے ہاں مجاہدۂ نفس و ریاضت کو ترجیح اس لیے دی جاتی ہے کیونکہ یہ سب تزکیہ نفس کے ذرائع ہیں-جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی‘‘ ’’بے شک مراد کو پہنچا جو ستھرا ہوا‘‘- (اعلیٰ:14)
قرآن کریم میں تصوف کو’ تزکیہ‘، احادیث صحیحہ میں ’ احسان‘ اور زمانہ تابعین تک’زُہد‘ کہا گیا ہے- جلیل القدر شخصیات نےتصوف کو تبلیغ دین کے لیے نہایت لازم قراردیا ہے کیونکہ جب تک انسان کوتعلیماتِ تصوف یعنی تزکیہ، احسان اور زہد نصیب نہ ہو تب تک انسان صحیح معنوں میں دین کی خدمت نہیں کر سکتا-جس کی سب سے بڑی مثال آئمہ فقہاءو آئمہ اجتہاد ہیں -مثلاً امام اعظم ابو حنیفہؒ نے امام جعفر صادقؒ ،امام مالکؒ نے حضرت محمد بن منکدر التابعیؒ ،امام شافعی ؒ نے حضرت شیبان الراعیؒ اور امام احمد ابن حنبلؒ نے اما م بشر حافیؒ کی صحبت سے تربیت اختیار کی-اس کے بعد بھی مفسرین ،محدثین اور بالخصوص اہل حق میں جتنے بھی متکلمین تھے وہ سبھی عرفاء اولیاء کی مجلس میں شریک ہونا اپنے لیے اعزاز سمجھتے تھے اور یہ اولیاء کرام کی صحبت کا فیض تھا کہ وہ نہ صرف اخلاص ومروّت کے پیکر بنتے بلکہ ان کا کردار قابل تقلید اور مثالی ہوتا اور ان کی زبان سے صرف حق نکلتا تھا-
ا سی تناظر میں سیدنا حضرت شیخ عبد القادر جیلانی(رضی اللہ عنہ) کی ذات گرامی بھی ہے- آپ(رضی اللہ عنہ) ایسے صوفیاء کے قبیل سے ہیں جو علم شریعت اورطریقت میں اپنی مثال آپ ہیں، آپؒ معرفت و طریقت میں سلسلسۂ قادریہ کے بانی ہیں ، تمام سلاسلِ تصوف آپ(رضی اللہ عنہ) سے فیض یافتہ ہیں –آپؒ سے فیض یافتگان کی تعداد لاکھوں کروڑوں میں ہے اور جتنےاکابر وجلیل القدر اولیاء کرام ہیں وہ سبھی آپؒ کی نسبت اور فیض کا دم بھرتے ہیں-اپنی علمی معراج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشادفرمایا:’’میں علم پڑھتا رہا یہاں تک کہ میں قطبیت کے مرتبہ پہ فائز کردیاگیا‘‘-معرفت اور تزکیہ نفس کے ثمرات کو آپؒ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا :’’مَیں نے اللہ عزوجل کے سب کے سب شہر ایسے دیکھے ہیں جیساکہ رائی کے دانے ہتھیلی پر ہوں ‘‘-
اس وقت دنیا میں روحانی اضطراب کی کیفیت ، معاشرے میں اخلاقی بحران و کمزوریوں کا تیزی سے جنم لینا، فکر و عمل کا اکھاڑ پچھاڑ ،بالخصوص مسلمانوں کا علم وعمل کے میدان میں پیچھے رہ جانا اور اولیاء کرام کے طریق تربیت سے دوری اختیار کرتے ہوئے ان سے محض عقیدت کی حدتک خود کو محدود کردینا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم عملی طور پران کی تعلیمات سے بہت دور ہوچکے ہیں- عصری تقاضوں کو بھانپتےہوئے اگر ہم علم، عمل اور اخلاق میں ترقی و کمال حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان برگزیدہ شخصیات سے عملی فیض حاصل کرنا چاہیے -آج سیدنا حضرت شیخ عبد القادر جیلانی(رضی اللہ عنہ) کی تعلیمات کا احیاء وقت کی ضرورت ہے، ہر ایک کو چاہیےکہ وہ آپؒ کی کتب کا مطالعہ کرے اور بالخصوص ہماری نوجوان نسل کے لئے لازم ہے کہ آپؒ کی تعلیمات سے روشناس ہو اور ان تعلیمات کے بنیادی مقصد یعنی تزکیہ نفس و تصفیہ قلب کو کبھی نظر انداز نہ کرے-