سُلطان الفقرؒکی فکر وتحریک
اورعصری معنویت
انسان کی تخلیق ’’لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ‘‘کے مرتبہ پہ ہوئی اور اس کو خلافتِ الٰہیہ کا تاج پہنایاگیا- انسان کی عظمت اسی میں ہے کہ وہ اپنے مقام ومرتبے کو پہچانے-اللہ عزوجل نے نباتات وجمادات کی طرح انسان کو مجبور ِ محض یا ایک نکتہ کا پابند نہیں بنایا بلکہ ’’وَ هَدَیْنٰهُ النَّجْدَیْنِ‘‘(اور ہم نے اسے دونوں راستوں کی راہ بتائی) کے تحت اسے دونوں راستوں سے آگاہی بخشی- یعنی وہ اپنی اصلاح کرکے فرشتوں سے افضل بھی ہوسکتا ہے اور اگر خدانخواستہ اپنی اصلاح کو پس ِ پشت ڈال دےتو ’’اُولٰٓىٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلّ‘‘(وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بڑھ کر گمراہ)بھی اس کا مقدر بن سکتا ہے-
اللہ عزوجل نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رسل (علیھم السلام) مبعوث فرمائے جنہوں نے اپنے اپنے دور میں انسان کو انسانیت، روحانیت اور تزکیۂ نفس کا درس دیا اور سلسلۂ نبوت کا باب بند ہونے کے بعد امام سخاوی کی ایک روایت کے مطابق ’’بے شک اللہ تعالیٰ اس امت کے لئے ہر صدی کے آخر میں ایسے بندے پیدا فرمائے گا جو اس کیلئے اس کے دین کو تازہ کرتے رہیں گے‘‘(المقاصد الحسنۃ)- سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ کی نویں پشت میں سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علیؒ اس روایت مبارکہ کے صحیح مصداق ہیں آپؒ نے جس وقت عملی میدان میں سعی کا آغازفرمایا ،اس وقت بھی معاشرے کو مادیت پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی اور انسان اپنی عظمت کردار کا غازی بننے کی بجائے محض گفتارکا غازی بننے میں تلاش کر رہا تھا-
سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علیؒ نے شاعرِمشرق کی اس فکر ’’نکل کر خانقاہوں سے اداکررسمِ شبیریؓ‘‘ کوعملی جامہ پہناتے ہوئے 1987ء میں اصلاحی جماعت کی بنیاد رکھی - اُس وقت لوگوں کی اکثریت تصوف و روحانیت کو ماضی کے قصے اور اس کا موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا بعید از قیاس اور ناممکن سمجھتے تھے لیکن آپؒ نے بڑے احسن اورسہل انداز میں بیک وقت عام آدمی کو شریعت و طریقت سے جس انداز میں روشناس کروایاوہ اپنی مثال آپ ہے-یاد رہے! ولی اللہ یاصوفی نہ ہی ترکِ دنیا (رہبانیت)کا درس دیتا ہے اورنہ اس کے تقاضوں کو پس ِ پشت ڈالنے کی تعلیم دیتا ہے بلکہ اُس کی تعلیم کا مرکز و محور یہ ہوتا ہے کہ دنیا محض چندروز کی نہیں بلکہ اس سے پہلے کاروان زندگی رواں دواں رہا اور اس سے آگے بھی زندگی محوِ سفر ہے -بقول علامہ محمد اقبالؒ :
تو اسے پیمانہ ٔ امروز و فردا سے نہ ناپ |
|
جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی |
جب زندگی کئی ادوار پہ مشتمل ہےتو محض چند روز ہ لمحا ت کو سب کچھ تصور کرلینا نہ صرف خام خیالی ہے بلکہ سرا سر گھاٹے کاسودا ہے -ان کے نزدیک اصلاحِ نفس کے بغیر اچھا فرد تیار نہیں ہوتا اور اچھے افراد کے بغیر ایک اچھے سماج کی تشکیل ممکن نہیں، اس لئے اعلیٰ سماجی تشکیل کیلئے نفس کی پہچان اور اصلاح ایک ضروری عمل ہے-جیساکہ حضرت سلطان باھوؒنے اپنی تعلیمات میں ارشادفرماتے ہیں :
’’اگر کوئی سیاہ ناگ تیر ی آستین میں گھس آئے تو یہ اُس نفس سے کہیں بہتر ہے جو اِس وقت تیرا ہم نشین ہے- نفس پرور آدمی ہرگز فلاح نہیں پا سکتا- اس نفس کو اسمِ اللہ ذات کی تلوار سے قتل کر دے کہ جو اُسے قتل کرتا ہے وہ نجات پاجاتا ہے‘‘-(عین الفقر)
سلطان الفقرحضرت سلطان محمد اصغر علیؒ نےاپنی نگاہ کرم، تعلیم وتلقین اورگفتاروکردارسے نوعِ انسانی کوحضوررسالت مآب (ﷺ) کا دیاہواپیغام یاد دلا کر ’’فَفِرُّوْا اِلَی اللہِ‘‘ کہ ’’پس دوڑو اللہ کی طرف‘‘ کا درس دیا- بالخصوص اپنی صحبت میں بیٹھنے کاشرف حاصل کرنے والوں پہ واضح کیا کہ انسان کی ذات امانتِ الہٰیہ کی حامل ہے- اگر وہ اپنی حقیقت کو جان کر اپنے مقام کو پالے تو معلوم ہوگاکہ اس کی عظمت و حرمت کیا ہے-گو کہ انسان اپنے وجودکے اعتبارسے محدود ہے لیکن اللہ پاک نے انسان میں صحراؤں کی سی وسعت رکھی ہے- بقو ل علامہ محمد اقبالؒ:
اپنی اصلیّت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تُو |
|
قطرہ ہے، لیکن مثالِ بحرِ بے پایاں بھی ہے |
سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علیؒ نےہمیشہ ا س بات پر زور دیا کہ اصلاح اپنی ذات سے شروع کی جائے-ہر انسان پہلے اپنےآپ پر قرآن وسنت کا نفاذ کرکے ’’اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً ‘‘کہ ’’اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ‘‘کا عملی مظہر بنے پھر دوسروں کو اس کی تبلیغ کر ے- آپؒ عالمگیر امن کے داعی تھے اور ہمیشہ تفرقہ بازی، لسانیت اور نسل پرستی سے گریز کا درس دیا کرتے تھے-آپؒ ملت کے افرادمیں اتحاد و یگانگت پیدا فرما کر اُن کو جسدِ واحدکی مانند دیکھنا چاہتے تھے- آپؒ نے ہمیشہ دین ِ متین کی خدمت کے ساتھ ساتھ اتحادِ ملتِ اسلامیہ اور پاکستان کے معاشرہ کی روحانی و اخلاقی تعمیر ونظریاتی استحکام کادرس دیا- پاکستان کے اسلامی و روحانی تشخص کے پاسبان سلطان الفقرؒ کی تحریک مادی ترقی و روحانی تنزّلی کے موجودہ دور میں بالخصوص پاکستان اور بالعموم پوری اُمت مسلمہ کی روحانی ونظریاتی بقاء کی ضامن ہے بشرطیکہ اِس تحریک کے پیغام اور فکر کو سمجھ کر عمل پیرا ہوا جائے - آپؒ کی عطا کردہ روحانی فکر اور سوچ ہمیں اسلام اور پاکستان سے محبت کا درس دیتی ہے کہ کیسے ہم نے پاکستان کو اپنی ترجیح بناتے ہوئے اس کی بنیادوں کو مضبوط سے مضبوط تر کرنا ہے اور اس ملک میں عشقِ مصطفٰے(ﷺ) کے فروغ کیلئے ہمہ وقت اپنا کردار ادا کرتے رہنا ہے-
مزید برآں! ہم آپؒ کے آفاقی و روحانی پیغام سے عملی وابستگی اختیا ر کرکے پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلام کا قلعہ اور اولیاء اللہ کے فیضان کا سرچشمہ بنا سکتے ہیں جو عصری تقاضوں کے پیشِ نظر ملکی و ملی یکجہتی واتحاد اور استحکام پاکستان کی ناگزیر ضرورت ہے- آج ضرورت اس امر کی ہے کہ صوفیائے کرام کی فکرکو سمجھاجائے ، عام کیا جائے اور کسی کامل کی صحبت اختیار کی جائے کیونکہ اس میں نہ صرف انسانیت کی بقاء ہے بلکہ پاکستان اورعالم ِ اسلام کی ترقی وخوشحالی بھی اس میں مضمر ہے-