بدلتی دنیا، ورلڈ آرڈر اور پاکستان کی پالیسی
گزشتہ چند برسوں سے بین الاقوامی منظر نامے پر تیزی سے وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیاں، ترقی پذیر ممالک پر گہرے اثرات مرتب کر رہی ہیں- حالیہ برسوں میں عالمی سطح پر چند ایسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن کے اقوام عالم پر ناقابل فراموش اثرات مرتب ہو رہے ہیں- عالمی وبائی مرض کورونا وائرس نے جہاں ایک طرف عالمی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے وہیں ایک عام فرد کی روز مرہ کی زندگی کو بھی یکسر بدل کر رکھ دیا ہے- دوسری طرف روس یوکرین تنازعہ نے نہ صرف عالمی سیاسی سطح پر تقسیم پیدا کی بلکہ اس جنگ کے منفی معاشی و معاشرتی اثرات کا بھی دنیا کو سامنا ہے - عالمی سطح پر ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہو چکا ہے جس میں امریکہ، چائنہ، روس سمیت دیگر اہم ممالک پیش پیش ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کے لیے فارن پالیسی آپشنز کم سے کم ہوتے چلے جا رہے ہیں جبکہ ان ممالک کے درمیان معاشی جنگ کے اثرات (trickledown effect)بھی غریب ممالک پر پڑھ رہا ہے، حتیٰ کہ بعض ممالک کے اندرونی سیاسی منظر نامے پر شدید اثرات دیکھنے کو ملےہیں- اس بحرانی کیفیت، تقسیم شدہ دنیا اور عالمی سطح پر طاقت کی کشمکش کے پیش نظر، ترقی پذیرممالک کواپنے اندرونی اور بیرونی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے کافی مشکلات کا سامنا ہے-
حالیہ عالمی سیاسی کشمکش میں ہمیشہ کی طرح پاکستان کی جغرافیائی اہمیت اور جیو سٹریٹیجک کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا -حال ہی میں شائع ہونے والی امریکہ قومی سلامتی کی حکمت عملی میں چائنہ کو موجودہ عالمی نظام کے لیے روس سے زیادہ بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے- اگر امریکہ کی انڈو پیسیفک حکمت عملی کا بغور مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اس خطے میں امریکہ کا واحد ہدف چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ختم کرنا ہے- اس کے علاوہ چار ممالک امریکہ، جاپان، بھارت اور آسٹریلیا کے مابین کواڈ کے نام سے اتحاد بھی اس سلسلے کی اہم کڑی ہے- چین کے خلاف عالمی طاقتوں کی جانب سے بڑھتے ہوئے اتحاد میں کئی ترقی پذیر ممالک کے لئے اپنی خارجہ پالیسی تشکیل دینے میں کسی ایک طرف مکمل جھکاؤ مشکلات پیدا کر سکتا ہے - پاکستان بھی کچھ ایسی ہی مشکلات کا شکا ر ہے-موجودہ حالات میں پاکستان کسی بھی بلاک پالیٹکس کا متحمل نہیں ہو سکتا-پاکستان کے چین کے ساتھ نہایت اہم تعلقات ہیں- دوسری طرف پاکستان کو مغربی ممالک کے ساتھ بھی برابری کے سطح پر تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے-
کورونا وائرس کی وباء کے بعد دنیا کے اکثر ممالک معاشی عدم استحکام کا شکار ہوئے- اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کامیاب حکمت عملی کے تحت پاکستان اس وباء سےنمٹنے میں کامیاب ہوا لیکن دیگر ممالک کی طرح اس کے منفی معاشی اثرات بھی پاکستان پر مرتب ہوئے- پاکستان میں حالیہ افراط زر، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ معاشی عدم استحکام کا سبب ہیں- غیر ملکی افواج کے انخلاء اور طالبان کی بننے والی حکومت کے بعدافغانستان سیاسی، معاشی اور سلامتی اعتبار سے عدم استحکام کا شکار ہے- بین الاقوامی برادری کا طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرنا، افغانستان میں ابھرنے والے مسائل کو مزید سنگین کر رہا ہے- اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ افغانستان میں ہونے والے حالات و واقعات کا پاکستان پر براہ راست اثر پڑتا ہے- افغانستان کی قیادت کو درپیش مسائل کی وجہ سے پاکستان بھی متاثر ہو رہا ہے-
بھارت خطے میں امریکہ کا ایک اہم اسٹریٹجک شراکت دار بن چکا ہے- 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد بھارت جغرافیائی تبدیلیاں کر کے آبادی کے تناسب کو تبدیل کر رہا ہے- پاکستان اور بھارت کے مابین اس واقعے کے بعد بات چیت کا عمل معطل ہے- اس خطے میں بھارت کے چین کے مدمقابل بڑھتے ہوئے کردار نے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر اثرات ڈالے ہیں- پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ سیکورٹی کے دائرے میں مرکوز رہے ہیں- افغانستان سے انخلاء کے بعد پاکستان کو امریکہ کے ساتھ تعلقات کو ازسرنومختلف جہتوں میں بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ بھارت کے علاقائی اثر و رسوخ کو کم کیا جا سکے اور پاکستان اپنے قومی مفاد کے تحفظ کو یقینی بنا سکے -پچھلے برس پاکستان کی قومی سلامتی کی پالیسی میں کسی بلاکس پالیٹکس کا حصہ نہ بننے کا اعادہ اس بات کی عکاسی ہے کہ پاکستان عالمی برادری کے تمام ممالک سے باہمی احترام اور برابری کی بنیاد پر اپنے تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے- البتہ ضرورت اس امر کی ہے پاکستان کو اندرونی طور پر مضبوط کیا جائے-جب تک پاکستان کے داخلی معاملات میں بہتری نہیں آتی ، سیاست اور معیشت میں استحکام نہیں آتا، پاکستان خارجی معاملات میں خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کر سکتا- ملک میں تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر چند معاملات پر قومی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ حکومت کے بدلنے سے ملکی پالیسی پر کوئی تبدیلی نہ آئے- تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کو مل کر معیشت اور فارن پالیسی پر نیشنل پالیسیزبنانی ہوں گی تاکہ ملک و ملت کی بقا اور ترقی کو ممکن بنایا جا سکے –