دستک

دستک

قرآن اک کتاب ہے اسرارِ سرمدی 

رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:اللہ تعالیٰ اس کتاب ( قرآن مجید) کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو سربلند فرمائے گا اور دوسروں کو ذلیل کرے گا “-(صحیح مسلم)یعنی جولوگ قرآن پاک کی فہم حاصل کرتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں اللہ عزجل انہیں دونوں جہانوں میں کامیاب وکامران فرماتا ہے جو اس کی تعلیمات سے منہ موڑتے ہیں ذلت ورسوائی اُن کا مقدر بن جاتی ہے-قرآن پا ک کی وسعت کا اندازہ اس روایت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ سیدناحضرت علی المرتضیٰ (رض)سے کسی نے عرض کی کہ حضرت موسیٰ (ع) کی کتاب کی اتنی بڑی شرح تھی کہ اس کو چالیس اونٹ اٹھاتے تھے ،توآپ (رض)نے ارشاد فرمایا: اگراللہ تعالیٰ مجھ کو اجازت فرمائے اورصرف سورہ فاتحہ کی تفسیر شروع کروں تو وہ بھی اتنی بھاری ہو جائے-

قرآن پاک کو اللہ عزوجل نے تمام علوم کا جامع بنا کر قلبِ مصطفٰے (ﷺ)پر اس کا نزول فرمایا جیساکہ اما م جلال الدین سیوطی (رح) فرماتے ہیں: ’’میں کہتاہوں کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہرچیز پر مشتمل ہے اورجہاں تک انواع ِ علوم کی بات ہے تو کسی علم کا کوئی باب اورکو ئی مسئلہ ایسانہیں ہے جس کی طرف قرآن مجیدنے اشارہ نہ فرمایا ہو‘‘-(تاریخ الخلفاء ) صحابہ کرام (رض) کی قرآن پاک سے محبت کا اندازہ اس بات سےلگایاجاسکتا ہے کہ حضرت عمرفاروق (باوجود خود عربی زبان میں مہارت تامہ رکھتے تھے ) کے بارے میں حضر ت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے:’’حضرت عمر(رض) نے 12سال سورہ بقرہ سیکھی -جب آپ(رض) نے سورہ بقرہ مکمل فرمائی تو ایک اونٹ ذبح فرمایا ‘‘-

(شرح الزرقانی على موطأ الإمام مالك)

مزید یہ کہ صحابہ کرام (رض) کا اپنے تمام پیش آمدہ مسائل کے حل کا اولین مآخذ وذریعہ سیّدی رسول اللہ (ﷺ)پہ نازل ہونے والا لاریب کلام قرآن مجید ہی تھا جیسا کہ سیدنا عبد اللہ ابن ِ عباس (رض)فرمایا کرتے تھے: ’’اگر میرے لئے کسی اونٹ کی رسی (بھی )گم ہوجائے تو میں اسے کتاب اللہ میں پالوں گا‘‘-(التفسیروالمفسرون للذہبی)

حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض)سے ہی روایت ہے:’’تمام علوم قرآن میں موجود ہیں لیکن لوگوں کی سمجھ کی ان تک رسائی نہیں ‘‘-(مرقاة المفاتيح) لیکن افسو س آج ہم نے قرآنی تعلیمات کو اپنا اوڑھنابچھونابنانے اور’’پیکرِ کردارسے قرآن مجسم ہونے ‘‘کی بجائے اس کو صرف ثواب تک محدود کرلیا ہے اور قرآن پاک کی فہم سے کوسوں سے دور ہوگئے- بلاشبہ اس کے ایک ایک حرف پردس دس نیکیوں کی بشارت ہے لیکن قرآن کے نزول کا اصل مقصد ہدایت و  رہنمائی ہے جو صرف قرآن کریم کو سمجھنے اور اس کے معانی و مطالب کی آگاہی سے حاصل ہوتی ہے-

ہمارے اسلاف کی ترقی کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ انہوں نے اپنی تمام تر توجہ قرآن مقدس کے درس و مطالعہ اور اس کے بحر معانی میں غواصی کرنے کی جانب مبذول کی- اسی ضمن میں انہوں نے اپنی فطری صلاحیتوں اور خالص عربی آداب و اطوار سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور الله عزوجل اور اس کے رسول مکّرم (ﷺ) کی بندگی و غلامی میں رہ کر اطاعت واتباع کے معیار کو عروج کمال تک پہنچایا اور آنے والی نسلوں کو درس دیا کہ اگر دارین میں کامیاب ہوناہےتو قرآن مقدس جیسی عظیم کتاب کی فہم و عمل کو اپنے اوپر لازم کرلو - آج قرآن کریم پڑھنے والے تو لاکھوں ہیں لیکن اس میں بیان کردہ اصول و ضوابط اور تعلیمات و ہدایات کو سمجھنے والے بہت کم ہیں- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَلَقَد یَسَّرنَا القُراٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَل مِنْ مُّدَّکِرٍ‘‘

 

’’ہم نے قرآن کو آسان کیا ہے نصیحت حاصل کرنے کے لیے، کیا پس کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا‘‘-(القمر:17)

یہ ایک بدیہی امر ہے کہ قرآنی تعلیمات کی تعمیل قرآن کے فہم و تدبر کے بعد ہی ممکن ہے-قرآن پا ک جو رشد و ہدایت اورجمیع حکمتوں کا ایک بحربیکراں ہے جب تک ان سے آگاہی حاصل نہ کی جائے تب تک اس کی پیروی کا کوئی امکان نہیں- یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب ہم قرآنی الفاظ کے معانی و مطالب کو سمجھنے کی کوشش کریں- علم تفسیر اسی سلسلہ میں معاون ثابت ہوتی ہے-قرآن مقدس کو جب تک ہم اپنی زبان اردو میں ترجمہ و تفسیر کی صورت میں نہ سمجھیں گے تب تک ہمیں قرآن مقدس کی حقیقی معانی و مطالب سے آگاہی مشکل امر ہے، اس لئے آج قرآن پا ک سے استفادے کے لیے مستند تر جمہ و تفسیر ازحد ضرورت ہے-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر