مسجدِ اقصی کی بے حرمتی اور فلسطینیوں کی نسل کشی :
اُمتِ مسلمہ کی ذمہ داریاں
گزشتہ چند برسوں سے مسلسل قابض اسرائیلی افواج کی جانب سے بالخصوص ماہ مقدس رمضان المبارک میں قبلہ اوّل مسجد اقصٰی کی بے حرمتی اور فلسطینیوں کی نسل کشی انتہائی افسوناک اور باعث تشویش ہے- ایک محتاط اندازے کے مطابق اسرائیلی فورسز کی جانب سے صرف 2023ء میں جنوری سے مارچ تک 84 فلسطینیوں کو ہلاک کیا گیا- موجودہ صورتحا ل کی بات کی جائے تو قومی و بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے سامنےآنے والےحالیہ مناظر انتہائی اندوہناک اور کربناک ہیں- جن سے عیاں ہےکہ کس طرح جابر اسرائیلی فوج نہتے لوگوں کو مسجد اقصیٰ کے احاطے میں ظلم و بربریت کا نشانہ بنا کر مسجد ِ اقصیٰ کا تقدس پامال کررہی ہے - اطلاعات کے مطابق حال ہی میں صیہونی فورسز نے مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر بہیمانہ تشدد کیااور اسٹنڈ گرنیڈز سے حملہ کرتے ہوئے آنسو گیس شیلنگ کی-اس کے علاوہ تقریباً 450 کے قریب افراد کو گرفتار اور 100 کو زخمی بھی کیا گیا-اس حالیہ پُرتشدد دراندازی کے دوران فورسز نے مسجد کے احاطے میں موجود بزرگوں اور خواتین کے ساتھ بھی انتہائی ناروا سلوک کیا اور بے دردی سے انہیں مسجد کے احاطہ سے بے دخل کردیا- اسی طرح زیادہ تر افراد کو لاٹھیوں اور رائفل کے بٹوں سے نشانہ بنایا گیا اور ہتھکڑیاں لگا کر انہیں مسجد کے احاطے سے باہر لے جایا گیا- ستم ظریفی یہ ہے کہ اِس دوران پیرا میڈیکس کو زخمیوں کو طبی امداد فراہم کرنے سے روک دیا گیا- یہ غیرانسانی اقدامات مکروہ صیہونی عزائم اور سازشوں سے پردہ اٹھاتے ہیں- مزید ا نسانیت سوزی اور مذہبی متعصب و منافرت پہ مبنی یہ صیہونی اقدامات اور مذہبی عبادت گاہوں پر حملہ نہ صرف عالمی اقدار و قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے بلکہ اس کا مقصد مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے اور ان میں نفرت و اشتعال انگیزی کو پھیلانا ہے -
فلسطین میں طویل عرصے سے جاری انسانی حقوق کی سنگین پامالی اور مسلمانوں کی مقدس میراث (مسجد اقصیٰ) کی بے حرمتی پر کوئی ایکشن نہ لینا عالمی انصاف پر سوالیہ نشان اور مسلمانوں کے مسائل کے حل کیلئے دنیا کے دوہرےمعیارات کا منہ بولتا ثبوت ہے -مزید فلسطین میں جاری موجودہ صورتحال سے ایسا لگتا ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی نظر میں خونِ مسلم کی کوئی وقعت نہیں رہی- مسلم دنیا کواب یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ مسلمانوں کے مسائل کے حل کیلئے عالمی انصاف پر تکیہ کرنا بے سود ہے-
اب وقت آگیا ہے کہ فلسطین میں ظلم و جبر کاخاتمہ اور مسجدِ اقصیٰ کے تقدس و تحفظ کو یقینی بنایا جائے جس کیلئے ترکیہ، پاکستان، ملائشیا اور دیگر اسلامی ممالک کو متحد ہوکر مشترکہ لائحہ عمل اپنانے اور مسئلہ فلسطین پر روایتی و جذباتی انداز اپنانے کی بجائے مستقل سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس کیلئے اسلامی دنیا کو بطور اُمت یک جان و یک زبان ہوکر اقوام متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی تنظیموں اور بین الاقوامی برادری پر دباؤ بڑھانا ہوگا- حال ہی میں دو برادر اسلامی ممالک ایران اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کی بحالی مسئلہ فلسطین کو عالمی سطح پر اٹھانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے- اسی طرح اسلامی دنیا کے اہم ممالک اس بدلتی ہوئی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم و تشدد اور قبلہ اول کی بے حرمتی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور مسئلہ فلسطین پرایک متفقہ پالیسی بناسکتے ہیں جو اس مسئلے کے حل کی طرف ایک مؤثر قدم ہوگا-
یاد رکھیے! قبلہ اوّل (مسجد اقصیٰ) کی حیثیت مسلمانوں کیلئے مسلّم ہے اور مسجدِ اقصیٰ سے مسلمانوں کا قلبی و روحانی تعلق و نسبت قائم ہے جس کی بنیاد قرآن مجید کی اس آیت پہ استوار ہے :
’’سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا ط اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ‘‘ |
|
’’پاکی ہے اسے جوراتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے گرداگرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے‘‘-(الاسراء:1) |
آج عالمِ اسلام کو اپنے اس بنیادی ودینی و ثقافتی ورثے کی عظیم علامت (بیت المقدس) کے تحفظ کیلئے جذباتی وروایتی انداز اپنانے کی بجائے سنجیدگی و دور اندیشی سےاس پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے- مزید برآں! تمام مسلم مالک کو چاہیے کہ وہ بالخصوص اپنی آئندہ نسل میں اس دعوے کا شعور اجا گر کرے اور اپنے تعلیمی اداروں میں اسے باقاعدہ نصاب کا حصہ بنائے کہ’’مسجد اقصٰی ہماری ہے‘‘جس کے تحفظ و تقدس پر نہ ہم کبھی سمجھو تہ کرنے کا سوچ سکتے ہیں اور نہ ہی کبھی اس دعوے سے دستبردار ہوسکتے ہیں-