فقہ حنفی کا طرق استنباط، انفرادیت و جامعیت اور عصری تقاضے

فقہ حنفی کا طرق استنباط، انفرادیت و جامعیت اور عصری تقاضے

فقہ حنفی کا طرق استنباط، انفرادیت و جامعیت اور عصری تقاضے

مصنف: جون 2023

فقہ حنفی کی طرق استنباط،  انفرادیت و جامعیت اور  عصری تقاضے

نورِ مجسم،شفیعِ معظم سیدنا رسول اللہ (ﷺ)نے جب حضرت معاذ بن جبل (رضی اللہ عنہ) کو یمن میں امیر بناکر بھیجا تو آپ (ﷺ) نے حضرت معاذ (رض) کو ارشادفرمایا:’’جب تم کو کوئی فیصلہ درپیش ہو توتم کیسے فیصلہ کرو گے؟ آپ (رضی اللہ عنہ) نے عرض کی (سب سے پہلے) کتاب اللہ سے فیصلہ کروں گا-آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: اگرتم کو کتاب اللہ سے نہ ملے؟عرض کی،تو سنت رسول اللہ(ﷺ) سے-حضورنبی کریم(ﷺ) نے ارشاد فرمایا: اگر سنتِ رسول (ﷺ)میں نہ ملے اور نہ کتاب اللہ میں (توکیسے فیصلہ کروگے )؟آپ (رضی اللہ عنہ) نے عرض کی،پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی گنجائش نہیں چھوڑوں گا-(یہ سن کر) آپ (ﷺ)نے آپ کے سینہ پہ دستِ اقدس رکھا اور ارشاد فرمایا:’’اللہ تعالیٰ کا شکرہے کہ رسول اللہ (ﷺ) کے قاصدکو اس بات کی توفیق عطافرمائی جوبات رسول اللہ (ﷺ) کو خوش کرتی ہے‘‘- ( سنن ابی داؤد،كِتَاب الْأَقْضِيَةِ)

امام اعظم(رضی اللہ عنہ) کا ملت اسلامیہ پر یہ احسان عظیم ہے کہ آپؒ نے  قرآن وسنت کا بنظر عمیق مطالعہ کیا اور  قرآن و سنت   میں غوطہ زن ہوکر خطیب خوارزمی کے  مطابق  ’’امام ابوحنیفہؒ نے 3 لاکھ مسائل وضع کیے-38ہزار مسائل عبادات میں اور باقی معاملات میں‘‘-آپؒ کو یہ بھی اعزار حاصل ہے کہ آپؒ نے سب سے پہلے فقہ کو مرتب کیا آپؒ نے فقہ اسلامی کی ترتیب و تدوین میں جو عظیم الشان اور قابل فخر خدمات انجام دیں وہ محتاج بیان نہیں-آپؒ نے فقہ کی تدوین کے لیے ایک مجلس علمی یا مجلس شوریٰ ترتیب دی جو 40 نامور علماء پر مشتمل تھی-جس میں آپؒ نے اپنے ہزاروں شاگردوں میں سے 40 ماہر فن منتخب فرمائے اور یہ سب وہ تھے جو درجہ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے اور پھر ایک خصوصی مجلس بھی قائم کی جو عمومی مجلس کے کام کو دوبارہ جانچتی-اس خصوصی مجلس کے اراکین میں امام ابو یوسفؒ ، امام محمدؒ ، داؤد طائیؒ ، امام زفرؒ، یحییٰ بن زائدہؒ ، حضرت فضیل بن عیاضؒ، عبداﷲ بن مبارک ؒ  وغیرہ اور خود امام اعظمؒ زیادہ ممتاز ہیں-آپؒ کے شاگردوں کی کاوش اور صلاحیتوں کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ صر ف امام محمدؒ کی کم وبیش ایک ہزار تصانیف ہیں جن میں مؤطاامام محمدؒ ،المبسوط،الجامع الصغیر ،الجامع الکبیر، السیر الصغیر، السیر الکبیر، الزیادات اور کتاب النوادر وغیرہ قابل ذکر ہیں، اسی طرح آپؒ کے شاگردوں  میں علامہ  سرخسیؒ کی قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ آپؒ نےاپنی مشہور زمانہ کتاب’’المبسوط‘‘ کنویں میں بیٹھ کرتحریرفرمائی(جب آپؒ کو خودساختہ  جرم میں قید کردیاگیاتھا-

امام ابوحنیفہؒ کی پر مغزعلمی اور فکری شخصیت نے مستقبل کے مسائل کو بھانپ کر اپنی حیات ہی میں ایک مجموعۂ قوانین مرتب کر لیا تھا، جس میں عبادات کے علاوہ دیوانی ، فوج داری، تعزیرات، لگان، مال گزاری، شہادت ، معاہدات، وراثت و وصیت اور بہت سے دیگر قوانین موجود تھے-اس کے علاوہ آپؒ نے ایسے اصول الفقہ، قواعدفقیہ اور ضوابط و نظریات دیےکہ نئےمسائل کو ان کی روشنی میں مستنبط کیا جائےجیسے سیاستہ الشرعیہ وغیرہ- عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے دور اقتدار میں اسلامی حکومت ایشیائے کوچک سے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی اور اس میں فقہ حنفی اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ نافذ و جاری تھا-اسی طرح خلافت ِ عثمانیہ اور ہندوستان کی مغلیہ حکومت میں بھی فقہ حنفی ملکی قانون کے طور پر رائج تھا-اسی طرح عرب، عراق، شام، مصر، لیبیا، ترکستان، ایران، ماوراء النہر، افغانستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں کئی سال تک فقہ حنفی ملکی قانون کے طور جاری پر رہا اور یہ اعزاز فقہ حنفی کو حاصل ہے-

اکثریت کا آپ کی فقہ کی پیروی کرنا اور آ پ کے علمی فیضان کا مقبولِ عام ہونا دراصل یہ اُس صحبت کا فیضان ہے جو آپؒ کو صحابہ اور تابعین کرام(رضی اللہ عنھم) کی صورت میں میسر رہی- حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ نے اسی صحبت کے فیضان کو یوں بیان فرمایا ہےکہ:

اگر کوئی شعیب آئے میسر

 

شبانی سے کلیمی دو قدم ہے

اس لئے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو  اولیاء اور صالحین کی  صحبت اور سنگت اختیار کرنے کا حکم فرمایا ہے-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘            اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہوجاؤ-(التوبہ:119)

کیونکہ  صالحین کی صحبت  اور سنگت کے فیضان سے ہی آدمی کے وجود میں فراستِ مومنانہ پیدا ہوتی ہے جس سے وہ پیچیدگیوں اور باریکیوں کو احسن انداز میں بیان کرتا ہے-جبکہ صالحین کی دوری باعثِ غفلت و خطرات ہو تی ہے-اس لئے  اللہ تعالیٰ نے غافل کی پیروی کرنے سے یوں منع فرمایا ہے:

’’وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا ‘‘              ’’اور اس کا کہا نہ مانو جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا‘‘-(الکہف :28)

اسی تناظر میں علامہ محمد اقبال ؒ فرماتے ہیں:

از اجتہادِ عالمانِ کم نظر

 

اقتدا بر رفتگان محفوظ تر

’’کوتاہ نظر (بے بصیرت) عالموں کے اجتہاد کی بجائے اسلاف کی پیروی (تقلید) خطرات سے زیادہ محفوظ ہے‘‘-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر