سوڈان میں سیاسی عدم استحکام،
خانہ جنگی اور ممکنہ حل
گزشتہ کئی برسوں سے مشرق وسطیٰ اور افریقہ خصوصاً شمالی افریقہ کے ممالک کو جس طرح آگ کے شعلوں میں جلایا گیا اور جلایا جا رہا ہے، وہ آگ رکنے اور تھمنے کی بجائے مسلسل پھیل رہی ہے- بلکہ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے- آج افریقہ کا اہم ملک سوڈان، ماضی قریب میں جو امن و استحکام اور ترقی کا منظر پیش کرتا تھا، عالمی سطح پر بڑی طاقتوں کے اپنے اپنے مفادات کی حفاظت اور اندرونی طور پر طاقت اور اقتدار کے حصول کی لالچ کی وجہ سے آگ میں سلگ رہا ہے-
حالیہ سوڈان میں کشیدگی اور خانہ جنگی اس وقت عروج پر پہنچ چکی، جب رواں برس 15 اپریل کو سوڈان کی مسلح افواج (ایس اے ایف) جنرل عبد الفتاح البرہان اور لیفٹیننٹ جنرل محمد حمدان ڈیگالو کی سربراہی میں ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے درمیان طاقت کے حصول کے لئے لڑائی چھڑ گئی- جس میں سینکڑوں سوڈانی افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہو گئے-
اگر آج سوڈان میں پیدا ہونے والی صورتحال کے پس منظر کا ذکر کیا جائے تو سوڈان میں کشیدگی اور خانہ جنگی، اس وقت پیدا ہوئی جب 2019ء میں جمہوریت بحالی کے نام پر طویل عرصے تک حکومت کرنے والے صدر عمر البشیر کی حکومت کو گرایا گیا- اسی طرح عمر البشیر کی حکومت کے خاتمے کے بعد، سوڈانی فوج اور سیاسی رہنماؤں کی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس کا مقصد ملک میں ایک سال بعد انتخابات کرا کے سیاسی اقتدار جماعتوں کے حوالے کرنا تھا- مگر اس معاہدے پر عمل نہیں ہو سکا کیونکہ ایک طرف حریف سیاسی گروہ پاور شئیرنگ فارمولے پر متفق نہیں تھے جبکہ دوسری طرف فوج میں بھی طاقت کے حصول کے لئے تقسیم موجود تھی-
اسی طرح، حالیہ لڑائی سے قبل 2021ء میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں سوڈان میں نئی حکومت تشکیل دی گئی تھی جس میں فوجی جنرل ایک کونسل کے تحت ملک کا نظام چلاتے تھے- حالیہ خانہ جنگی اور افراتفری کے اس ماحول میں سوڈان کے ہزاروں شہری ملک چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور اندورنی طور پر در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں- میڈیا اطلاعات کے مطابق، حالیہ لڑائی میں 400 افراد جاں بحق اور 3700 کے قریب زخمی ہو چکے ہیں- اس کے علاوہ ملک میں مقیم افراد پانی، خوراک، ادویات اور ایندھن کے ساتھ ساتھ بجلی اور انٹرنیٹ کی بندش کے سبب مشکلات کا شکار ہیں-
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اس حوالے سے خبردار کر چکے ہیں کہ :
’’سوڈان تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، ان پُرتشدد کارروائیوں کے اثرات پورے خطے اور اس سے آگے تک پھیل سکتے ہیں‘‘-
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق، اس سال 15.8 ملین لوگ یا ملک کی ایک تہائی آبادی کو انسانی امداد کی ضرورت ہے- ہزاروں غیر ملکی افراد بشمول سفارتکار اور عملہ سوڈان چھوڑ کر جا چکے ہیں- آج چونکہ سوڈان میں جمہوری عمل کے تحت عوامی سطح پر منتخب اور مضبوط حکومت نہ ہونے کی وجہ سے ایک Power vacuum پیدا ہوچکا ہے- اس لئے ملک خانہ جنگی کا شکار ہے- اس بحران کو روکنے اور اس سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ مقامی سطح پر یا عالمی برادری کے توسط سے سوڈان میں جمہوری عمل کے تحت ایک عوامی حکومت کا قیام عمل میں لا کر ملک کو استحکام کی جانب گامزن کیا جائے- اس کے علاوہ چند افراد کی انا، مفاد پرستی اور لالچ کے باعث پورا ملک آگ میں جھلس رہا ہے- اندورنی طور پر مختلف دھڑوں کو قومی یکجہتی کی سوچ اپنا کر ملک کے وسیع مفاد میں فیصلے کرنے ہونگے ورنہ سوڈان کاجاری بحران رُکنے کی بجائے مزید تباہی پھیلائے گا -