فرمان باری تعالیٰ :
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اﷲَ وَابْتَغُوْآ اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَجَاہِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٰ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن
’’ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میںجہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پائو‘‘ - ﴿المائدہ:۵۳﴾
فرمان رسول اللہ ﷺ :
مَنْ خَلَعَ یَدًا مِنْ طَاعَۃٍ لَقِیَ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَا حُجَّۃَ لَہُ وَمَنْ مَاتَ وَلَیْسَ فِیْ عُنُقِہٰ بَیْعَۃٌ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً
’’ جس نے اطاعت سے ہاتھ کھینچا تو وہ کل قیامت کے دن اللہ سے اس حالت میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہو گی اور جو شخص اس حالت میں فوت ہوا کہ اس نے کسی کی بیعت نہیں کی تھی تووہ جاہلیت کی موت مر ا‘‘ - ﴿مسلم، کتاب الامارۃ، باب الامربلزوم الجماعۃ عند ظہور الفتن﴾
فرمان سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی (رض) :
گو کلمے کے الفاظ ایک ہی ہیں لیکن معنی میں بہت فرق ہے کہ توحید کا بیج اگر کسی زندہ دل مرشد سے اخذ کیا جائے تو دل زندہ ہو جاتا ہے کہ وہ بیج نہایت عمدہ و کامل ہوتا ہے - اِس کے بر عکس خام و ناقص بیج اُگنے کے قابل نہیں ہوتا - یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں کلمہ ٔ توحید کا نزول دو مقامات پر ہوا ہے ، ایک کا اطلاق قولِ ظاہر پر ہوتا ہے جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے ’’جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ کہو ’’ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ تو تکبّر کرنے لگتے ہیں ‘‘- یہ کلمات عوام کے حق میں نازل ہوئے ہیں - دوسرے کا اطلاق علمِ حقیقی پر ہوتا ہے - فرمانِ حق تعالیٰ ہے -: ’’ پس جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور استغفار کرو اپنے لئے اور مومن مردوں اور عورتوں کے لئے ‘‘ - اِس آیت ِ مبارکہ کا نزول خواص کی تلقین کے لئے ہوا ہے - ﴿سرالاسرار:۹۶﴾
فرمان سلطان العارفین حضرت سخی سلطان حق باھوؒ :
ناں رب عرش معلی اُتے ناں رب خانے کعبے ھُو
ناں رب علم کتابیں لبھا ناں رب وچ محرابے ھُو
گنگا تیرتھ مول نہ ملیا مارے پینڈے بے حسابے ھُو
جد دا مرشد پھڑیا باھُو چھٹے سب عذابے ھُو
فرمان قائداعظم محمد علی جناح ؒ:
ایمان ، اتحاد، تنظیم
اسلامی حکومت کے تصور کایہ امتیاز پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ ا س میں اطاعت اور وفا کیشی کامرجع خدا کی ذات ہے جس کی تکمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں - ﴿کراچی -1948ئ﴾
فرمان علامہ محمد اقبال ؒ :
دمِ عارف نسیمِ صبحدم ہے
اسی سے ریشۂ معنی میں نم ہے
اگر کوئی شعیب(رض) آئے میّسر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے ﴿بالِ جبریل﴾
فرمان باری تعالیٰ :
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اﷲَ وَابْتَغُوْآ اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَجَاہِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٰ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن
’’ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میںجہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پائو‘‘ - ﴿المائدہ:۵۳﴾
فرمان رسول اللہ ﷺ :
مَنْ خَلَعَ یَدًا مِنْ طَاعَۃٍ لَقِیَ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَا حُجَّۃَ لَہُ وَمَنْ مَاتَ وَلَیْسَ فِیْ عُنُقِہٰ بَیْعَۃٌ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً
’’ جس نے اطاعت سے ہاتھ کھینچا تو وہ کل قیامت کے دن اللہ سے اس حالت میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہو گی اور جو شخص اس حالت میں فوت ہوا کہ اس نے کسی کی بیعت نہیں کی تھی تووہ جاہلیت کی موت مر ا‘‘ - ﴿مسلم، کتاب الامارۃ، باب الامربلزوم الجماعۃ عند ظہور الفتن﴾
فرمان سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی (رض) :
گو کلمے کے الفاظ ایک ہی ہیں لیکن معنی میں بہت فرق ہے کہ توحید کا بیج اگر کسی زندہ دل مرشد سے اخذ کیا جائے تو دل زندہ ہو جاتا ہے کہ وہ بیج نہایت عمدہ و کامل ہوتا ہے - اِس کے بر عکس خام و ناقص بیج اُگنے کے قابل نہیں ہوتا - یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں کلمہ ٔ توحید کا نزول دو مقامات پر ہوا ہے ، ایک کا اطلاق قولِ ظاہر پر ہوتا ہے جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے ’’جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ کہو ’’ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ تو تکبّر کرنے لگتے ہیں ‘‘- یہ کلمات عوام کے حق میں نازل ہوئے ہیں - دوسرے کا اطلاق علمِ حقیقی پر ہوتا ہے - فرمانِ حق تعالیٰ ہے -: ’’ پس جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور استغفار کرو اپنے لئے اور مومن مردوں اور عورتوں کے لئے ‘‘ - اِس آیت ِ مبارکہ کا نزول خواص کی تلقین کے لئے ہوا ہے - ﴿سرالاسرار:۹۶﴾
فرمان سلطان العارفین حضرت سخی سلطان حق باھوؒ :
ناں رب عرش معلی اُتے ناں رب خانے کعبے ھُو
ناں رب علم کتابیں لبھا ناں رب وچ محرابے ھُو
گنگا تیرتھ مول نہ ملیا مارے پینڈے بے حسابے ھُو
جد دا مرشد پھڑیا باھُو چھٹے سب عذابے ھُو
فرمان قائداعظم محمد علی جناح ؒ :
ایمان ، اتحاد، تنظیم
اسلامی حکومت کے تصور کایہ امتیاز پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ ا س میں اطاعت اور وفا کیشی کامرجع خدا کی ذات ہے جس کی تکمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں - ﴿کراچی -1948ئ﴾
فرمان علامہ محمد اقبال ؒ :
دمِ عارف نسیمِ صبحدم ہے
اسی سے ریشۂ معنی میں نم ہے
اگر کوئی شعیب(رض) آئے میّسر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے ﴿بالِ جبریل﴾