اب عالم اسلام کے اُٹھنے کی ضرورت ہے
اقوام متحدہ کی فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق شام میں 2011ئ کے وسط سے جاری خانہ جنگی کے بعد گھر بار چھوڑ کربیرونِ ملک جانے والے شامیوں کی تعداد چالیس لاکھ سے متجاوز ہوگئی ہے اوریہ گزشتہ پچیس سال میں کسی ملک میں بحران کے نتیجے میں بے گھر ہونے والوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے -اقوامِ متحدہ کے تخت پناہ گزینوں کے ادارے UNHCRنے ترکی سے فراہم ہونے والے تازہ اعدادوشمار کے بعد شامی مہاجرین کی اس تعداد کی تصدیق کی ہے - ادارے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بیرون ملک مقیم شامی مہاجرین کے علاوہ 76لاکھ سے زیادہ افراد شام کے اندر دربدر ہیں وہ اپنے گھر بار کوچھوڑ کرپناہ گزین کیمپوں یاسرکاری عمارتوں میں مقیم ہیں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کے بارے مہاجرین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کسی ایک تنازعے میں ایک نسل میں مہاجرآبادی کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے -اس آبادی کودُنیا کی مدد کی ضرورت ہے یہ لوگ انتہائی نامساعد حالات میں پِس رہے ہیں -UNHCRکے مطابق اس وقت چارملین سے زیادہ صرف شامی مہاجرین میں سے ایک ملین نو ہزار ترکی میں ،ایک ملین لبنان میں ،چھ لاکھ تیس ہزار اُردن میں ،دولاکھ پچاس ہزار عراق میں اورایک لاکھ تیس ہزار مصر میں مقیم ہیں -مختلف ممالک میں مقیم شامی مہاجرین ماسویٰ چند جگہوں کے ان کو درپیش مسائل میں عمومی اشتراک پایا جاتاہے -﴿۱﴾اکثرجگہوں پہ انہیں بنیادی انسانی حقوق میّسرنہیں خاص کرتعلیم وصحت وغیرہ جیسی بنیادی سہولتیں بھی ضرورت کے مطابق نہیں ہیں - ﴿۲﴾بین الاقوامی امداد شامی مہاجرین تک پہنچتے پہنچتے ’’اونٹ کے منہ میں زیرہ‘‘ کے برابر رہ جاتی ہے -امدادی رقوم زیادہ تر انتظامی امور میں خرچ کردی جاتیں ہیں - ﴿۳﴾جنگ زدہ عراق میں مقیم شامی مہاجرین کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیںہیں اور یہاں انہیں مسلکی تعصب کابھی سامناکرنا پڑتا ہے -﴿۴﴾انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والے بین الاقوامی ادارے ہیومن رائیٹس واچ نے خبردار کیا ہے کہ لبنان کی جانب سے شامی مہاجرین کے رہائشی اجازت ناموں کی تجدید نہ کرنے سے ان تارکین وطن کے ساتھ شدید زیادتی ہوگی کیونکہ لبنانی حکومت نے شامی تارکین وطن کے لیے رہائشی اجازت ناموں کی تجدید کے لیے دوسو ڈالر فیس مقرر کررکھی ہے یہ رقم امداد پہ زندگی گزارنے والے بیشتر شامی تارکین وطن کے لیے بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے کثیرتعداد میں اجازت ناموں کی تجدید نہیں ہوپارہی اوراس فیس کے باعث مہاجرین کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہو رہاہے اوریہ ان کی مجموعی صورتحال کوخراب ترکرنے کے مترادف ہے - قانونی دستاویز اورشناخت کے بغیر لبنان میں رہنے والے شامی مہاجرین کوشدید استحصال کاخطرہ ہوسکتا ہے-اس ادارے کایہ بھی کہناہے کہ قانونی حیثیت نہ ہونے کی وجہ سے شامی پناہ گزین کسی بھی استحصالی کی صورت میں لبنانی حکومت سے قانونی معاونت حاصل نہیں کرسکتے -
شامی مہاجرین کے بعد اُمت مسلمہ کو برماکے بے گھر مسلمانوں کاسنگین مسئلہ درپیش ہے-روہنگیابنگلہ دیش کی سرحد سے ملے ہوئے ملک برما کاحصہ ہے - یہاں پہ رہنے والوں کوروہنگیا مسلمان کہاجاتاہے-یہ صدیوں سے اس خطے کے باسی چلے آرہے ہیں- اُمت کے انتشار اور بعض ممالک میں مسلمان اقلیت پہ کسی مرکزی توجہ کے نہ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بدھ مت کے شدت پسند اور شر پسند عناصر نے یہاں پہ نسلی فسادات بھڑکاناشروع کردئیے -روہنگیا مسلمانوں کے دکھ کااندازہ کیسے کیاجاسکتا ہے کہ اب میانمار﴿برما﴾کے قانون کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کوبرما کاشہری ہی تسلیم نہیں کیاجاتا -شہری حقوق سے محرومی کے سبب وہ ملازمت ،کاروبار،تعلیم اوردیگر سماجی سہولیات کاحق نہیں رکھتے ،شادی سے پہلے حکومت سے اجازت لینا ضروری ہے ،دوسے زیادہ بچے پیداکرنے پہ پابندی ہے - اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں کودُنیا کی مظلوم ترین اقلیت قرار دیا ہے-پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے کمیشن UNHCRکے مطابق برما کی ریاست راکھائن میں اَسی ہزار روہنگیا برادری رہتی ہے لیکن حقیقی اعدادوشمار اس سے کہیں زیادہ ہیں کیونکہ 2012ئ کے نسلی فسادات کے بعد قریباً ایک لاکھ روہنگیامسلمان اپنے مویشی ، زیورات اورسامان بیچ کرکشتیوں میں سوار ہوکر نقل مکانی کرچکے ہیں -ان قسمت کے ماروں کوکوئی ملک بھی پناہ دینے کے لیے تیار نہیں اب تک یہ مظلوم کشتیوں میں سفر کرتے ہوئے کبھی ایک ملک میں قسمت آزماتے ہیں توکبھی کسی دوسرے ملک میں پناگزین ہوتے ہیں-
اب سوال ہے کہ مظلوم مسلمان مہاجرین کاپرسان حال کون ہے ؟بقول رئیس امروھی:
اب عالم اسلام کے اُٹھنے کی ضرورت بیشک ہے ، مگر عالمِ اسلام کہاں ہے؟
یمن جل رہا ہے ، عراق ، افغانستان ، لیبیا ، تیونس اور کئی شمالی افریقی مسلم ممالک میں شدید ترین خانہ جنگیاں جاری ہیں اِس سب سے بچاؤ کیلئے ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو ملت سے مخلص ہو اور ملی مقاصد کو سمجھتی ہو - اگر سیاسی قیادت سے ایسا ہونا ممکن نہیں دکھتا تو کم از کم ہر فرد کو اپنے اندر یہ تہیّا کر لینا چاہئے کہ ’’حفاظتِ وحدتِ مِلّت‘‘ کیلئے اپنی حیثیت و استطاعت کے مطابق میں جو کچھ کر سکا وہ کروں گا - اور خاص کر اِس وقت ضرورت ہے کہ ایک دوسرے کو کافر کافر کہنے اور حل نہ ہو سکنے والے فرقہ وارانہ مباحث کی بجائے دینِ اسلام کے پرچم کی محافظت کی جائے اور نبیٔ رحمت ﷺ کے امتی اور دینِ رحمت کے ماننے والے طور پہ اپنے عمل اور کردار سے سراپا رحمت بن کے دکھانا ہے -
اب عالم اسلام کے اُٹھنے کی ضرورت ہے
اقوام متحدہ کی فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق شام میں 2011ئ کے وسط سے جاری خانہ جنگی کے بعد گھر بار چھوڑ کربیرونِ ملک جانے والے شامیوں کی تعداد چالیس لاکھ سے متجاوز ہوگئی ہے اوریہ گزشتہ پچیس سال میں کسی ملک میں بحران کے نتیجے میں بے گھر ہونے والوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے -اقوامِ متحدہ کے تخت پناہ گزینوں کے ادارے UNHCRنے ترکی سے فراہم ہونے والے تازہ اعدادوشمار کے بعد شامی مہاجرین کی اس تعداد کی تصدیق کی ہے - ادارے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بیرون ملک مقیم شامی مہاجرین کے علاوہ 76لاکھ سے زیادہ افراد شام کے اندر دربدر ہیں وہ اپنے گھر بار کوچھوڑ کرپناہ گزین کیمپوں یاسرکاری عمارتوں میں مقیم ہیں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کے بارے مہاجرین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کسی ایک تنازعے میں ایک نسل میں مہاجرآبادی کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے -اس آبادی کودُنیا کی مدد کی ضرورت ہے یہ لوگ انتہائی نامساعد حالات میں پِس رہے ہیں -UNHCRکے مطابق اس وقت چارملین سے زیادہ صرف شامی مہاجرین میں سے ایک ملین نو ہزار ترکی میں ،ایک ملین لبنان میں ،چھ لاکھ تیس ہزار اُردن میں ،دولاکھ پچاس ہزار عراق میں اورایک لاکھ تیس ہزار مصر میں مقیم ہیں -مختلف ممالک میں مقیم شامی مہاجرین ماسویٰ چند جگہوں کے ان کو درپیش مسائل میں عمومی اشتراک پایا جاتاہے -﴿۱﴾اکثرجگہوں پہ انہیں بنیادی انسانی حقوق میّسرنہیں خاص کرتعلیم وصحت وغیرہ جیسی بنیادی سہولتیں بھی ضرورت کے مطابق نہیں ہیں - ﴿۲﴾بین الاقوامی امداد شامی مہاجرین تک پہنچتے پہنچتے ’’اونٹ کے منہ میں زیرہ‘‘ کے برابر رہ جاتی ہے -امدادی رقوم زیادہ تر انتظامی امور میں خرچ کردی جاتیں ہیں - ﴿۳﴾جنگ زدہ عراق میں مقیم شامی مہاجرین کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیںہیں اور یہاں انہیں مسلکی تعصب کابھی سامناکرنا پڑتا ہے -﴿۴﴾انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والے بین الاقوامی ادارے ہیومن رائیٹس واچ نے خبردار کیا ہے کہ لبنان کی جانب سے شامی مہاجرین کے رہائشی اجازت ناموں کی تجدید نہ کرنے سے ان تارکین وطن کے ساتھ شدید زیادتی ہوگی کیونکہ لبنانی حکومت نے شامی تارکین وطن کے لیے رہائشی اجازت ناموں کی تجدید کے لیے دوسو ڈالر فیس مقرر کررکھی ہے یہ رقم امداد پہ زندگی گزارنے والے بیشتر شامی تارکین وطن کے لیے بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے کثیرتعداد میں اجازت ناموں کی تجدید نہیں ہوپارہی اوراس فیس کے باعث مہاجرین کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہو رہاہے اوریہ ان کی مجموعی صورتحال کوخراب ترکرنے کے مترادف ہے - قانونی دستاویز اورشناخت کے بغیر لبنان میں رہنے والے شامی مہاجرین کوشدید استحصال کاخطرہ ہوسکتا ہے-اس ادارے کایہ بھی کہناہے کہ قانونی حیثیت نہ ہونے کی وجہ سے شامی پناہ گزین کسی بھی استحصالی کی صورت میں لبنانی حکومت سے قانونی معاونت حاصل نہیں کرسکتے -
شامی مہاجرین کے بعد اُمت مسلمہ کو برماکے بے گھر مسلمانوں کاسنگین مسئلہ درپیش ہے-روہنگیابنگلہ دیش کی سرحد سے ملے ہوئے ملک برما کاحصہ ہے - یہاں پہ رہنے والوں کوروہنگیا مسلمان کہاجاتاہے-یہ صدیوں سے اس خطے کے باسی چلے آرہے ہیں- اُمت کے انتشار اور بعض ممالک میں مسلمان اقلیت پہ کسی مرکزی توجہ کے نہ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بدھ مت کے شدت پسند اور شر پسند عناصر نے یہاں پہ نسلی فسادات بھڑکاناشروع کردئیے -روہنگیا مسلمانوں کے دکھ کااندازہ کیسے کیاجاسکتا ہے کہ اب میانمار﴿برما﴾کے قانون کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کوبرما کاشہری ہی تسلیم نہیں کیاجاتا -شہری حقوق سے محرومی کے سبب وہ ملازمت ،کاروبار،تعلیم اوردیگر سماجی سہولیات کاحق نہیں رکھتے ،شادی سے پہلے حکومت سے اجازت لینا ضروری ہے ،دوسے زیادہ بچے پیداکرنے پہ پابندی ہے - اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں کودُنیا کی مظلوم ترین اقلیت قرار دیا ہے-پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے کمیشن UNHCRکے مطابق برما کی ریاست راکھائن میں اَسی ہزار روہنگیا برادری رہتی ہے لیکن حقیقی اعدادوشمار اس سے کہیں زیادہ ہیں کیونکہ 2012ئ کے نسلی فسادات کے بعد قریباً ایک لاکھ روہنگیامسلمان اپنے مویشی ، زیورات اورسامان بیچ کرکشتیوں میں سوار ہوکر نقل مکانی کرچکے ہیں -ان قسمت کے ماروں کوکوئی ملک بھی پناہ دینے کے لیے تیار نہیں اب تک یہ مظلوم کشتیوں میں سفر کرتے ہوئے کبھی ایک ملک میں قسمت آزماتے ہیں توکبھی کسی دوسرے ملک میں پناگزین ہوتے ہیں-
اب سوال ہے کہ مظلوم مسلمان مہاجرین کاپرسان حال کون ہے ؟بقول رئیس امروھی:
اب عالم اسلام کے اُٹھنے کی ضرورت بیشک ہے ، مگر عالمِ اسلام کہاں ہے؟
یمن جل رہا ہے ، عراق ، افغانستان ، لیبیا ، تیونس اور کئی شمالی افریقی مسلم ممالک میں شدید ترین خانہ جنگیاں جاری ہیں اِس سب سے بچاؤ کیلئے ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو ملت سے مخلص ہو اور ملی مقاصد کو سمجھتی ہو - اگر سیاسی قیادت سے ایسا ہونا ممکن نہیں دکھتا تو کم از کم ہر فرد کو اپنے اندر یہ تہیّا کر لینا چاہئے کہ ’’حفاظتِ وحدتِ مِلّت‘‘ کیلئے اپنی حیثیت و استطاعت کے مطابق میں جو کچھ کر سکا وہ کروں گا - اور خاص کر اِس وقت ضرورت ہے کہ ایک دوسرے کو کافر کافر کہنے اور حل نہ ہو سکنے والے فرقہ وارانہ مباحث کی بجائے دینِ اسلام کے پرچم کی محافظت کی جائے اور نبیٔ رحمت
ö کے امتی اور دینِ رحمت کے ماننے والے طور پہ اپنے عمل اور کردار سے سراپا رحمت بن کے دکھانا ہے -