سفارش: ایک دیمک اور میرٹ کی نفی
قوم اور معاشرے میں بطور ایک فرد، جب ہم اپنے اردگرد نظر دوڑاتے ہیں تو ایک چیز واضح نظر آتی ہے کہ جب حقدار کو حق نہیں ملتا تواس کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتاہے- حقدار کو حق اس وقت نہیں ملتا جب معاشرے عدل و انصاف اور قانون کی حکمرانی کی بجائے ذاتی خواہشات اور اپنی مرضی سے چلائے جائیں- معاشرے میں عدل و انصاف کی آواز کو دبانا اور سفارش و رشوت کا بول بالاہونا ایک ایسے کلچر کو فروغ دیتا ہے جو معاشرے کی بنیادوں کو دیمک کی طرح کھا جاتا ہے اورسماج کو موذی مرض لاحق ہو جاتی ہے- بدقسمتی سے یہ مرض ہمارے معاشرے میں بہ صورت سفارش، رشوت، اقربا پروری اور اثر و رسوخ کی صورت میں موجود ہے-
آقا کریم (ﷺ) کے دور میں سفارشی ثقافت(culture) کے خلاف ہمیں ایک واضح مثال ملتی ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ(رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)کے زمانے میں ایک عورت نے چوری کی، ان لوگوں نے کہا: اس سلسلے میں ہم آپ (ﷺ)سے بات نہیں کر سکتے، آپ (ﷺ)سے صرف آپ کے محبوب حضرت اسامہ (رض)ہی بات کر سکتے ہیں- چنانچہ انہوں نے آپ (ﷺ)سے اس سلسلے میں عرض کیا تو آپ (ﷺ)نے فرمایا: ”اسامہ! ٹھہرو، بنی اسرائیل انہی جیسی چیزوں سے ہلاک ہوئے، جب ان میں کوئی اونچے طبقے کا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر ان میں کوئی نچلے طبقے کا آدمی چوری کرتا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیتے-اگر اس جگہ فاطمہ بنت محمد (ﷺ)بھی ہوتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا“(بخاری)- ریاست مدینہ اگر آج ہمارے لئے بطور رول ماڈل اور نمونہ ہے تو اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ وہاں عدل و انصاف کاایک منظم،مربوط اورجامع نظام قائم تھاجو کسی بھی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے-
بعین اگر دیکھا جائے تو بانیٔ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح نے 11 اگست 1947ء کی قانون ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر میں سب سے بڑا مسئلہ کرپشن کو قرار دیا تھا- آپ نے اس وقت فرمایا تھا کہ اس وقت ہندوستان جس بڑی لعنت میں مبتلا ہے وہ رشوت ستانی اور بد عنوانی ہے- آپ نے اس کو زہر سے تشبیہ دی- آپ نے قانون ساز اسمبلی کے اراکین کو واضح ہدایات دیں کہ نہایت سختی سے اس کا قلع قمع کر دینا چاہیے اور آپ نے امید ظاہر کی کہ ’’ اراکین اس سلسلہ میں مناسب اقدامات کریں گے، جتنی جلد اس اسمبلی کے لیے ایسا کرنا ممکن ہو‘‘-
اس کے علاوہ آپ نے اقربا پروری اور احباب نوازی کا ذکر کرتے ہوئے اسے کچل دینے کا فرمایا- آپ نے کہا کہ’’میں یہ واضح کردوں کہ میں نہ احباب پروری اور اقربا نوازی کو برداشت کروں گا اور نہ ہی کسی اثر و رسوخ کو جو مجھ پر بالواسطہ یا بلاواسطہ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی ، قبول کروں گا- جہاں کہیں مجھے معلوم ہوا کہ یہ طریقہ کار رائج ہے خواہ یہ اعلیٰ سطح پر ہو یا ادنیٰ سطح پر یقینی طور پر میں اس کو گوارا نہیں کروں گا‘‘-
بد قسمتی سے جس زہر اور لعنت کا ذکر بانیٔ پاکستان نے کیا تھا وہ آج ہمارے چاروں طرف پھیل چکی ہے- رشوت اور سفارش کے بغیر جائز کام کروانا بھی ناممکن ہوچکاہے- وطن عزیز پاکستان میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، مہنگائی اور غربت کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ایک سفارش کا کلچر ہے- جب نا اہل شخص کسی اہل اور قابل شخص کا حق مار کر سفارش کے زور پر بیٹھے گا تو یہی حال ہوگا جو بطور قوم ہم دیکھ رہے ہیں-
آج ہماری مجموعی آبادی کا 60 فیصد سے زائد حصہ نوجوان پر مشتمل ہے-یہی نوجوان جب محنت اور لگن کے ساتھ تگ و دو کر کے آگے آتے ہیں سفارشی کلچران کی راہ میں حائل ہوجاتا ہے-ایسے نوجوان اپنے ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی صلاحیتوں سے اس طرح استفادہ نہیں کیاجاتا - انتہائی قابل اور ذہین نوجوانوں کا ملک سے باہر چلے جانے کی زیادہ تر یہی وجوہات ہیں- آج بطور قوم ہمیں اپنے ہاں رائج سفارش اور رشوت کے کلچر کو قلع قمع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قابل، اہل اور باصلاحیت نوجوان نسل سامنے آئے اور اپنی خداداد صلاحیتوں سے اپنے وطن عزیزکی صحیح معنوں میں خدمت کرسکیں-
قومیں عروج و زوال کا لمبا سفر طے کرتی ہیں- قوموں کی ترقی اور خوشحالی کے لئے وسائل اور پوٹینشل کی ضرورت ہوتی ہے- الحمد للہ! ان دونوں چیزوں کی مملکت خداداد پاکستان میں کوئی کمی نہیں ہے- کمی صرف عدل و انصاف پر مبنی نظام اور قانون کی حکمرانی ہے- یہ نظام اس وقت ہی رائج ہوگا جب ہم حقدار کو اس کا صحیح معنوں میں حق ملنا شروع ہوگا اورسفارشی کلچر کا خاتمہ ہوگا-