سیرت نبوی (ﷺ)اور سماجی اقدار
حضور نبی کریم(ﷺ) نے ارشادفرمایا:’’ میں نے تم کو ایسی روشن راہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی اس کے دن کی طرح ہے‘‘-فخر کائنات سید الانبیاء محمد عربی(ﷺ) کی مثل تو آپ (ﷺ) سے پہلے نہ کوئی آیا اور نہ آئندہ ایسی جامعیت و کاملیت کے اوصاف کسی انسانی وجود کو نصیب ہوسکیں گے-سیاسی زندگی ہو یا معاشی، انفرادی ہو یا اجتماعی، سماجی ہو یا زندگی کا کوئی اور پہلو،رسول کریم (ﷺ) کی پاکیزہ حیات مبارکہ انسانی سماج کے لیے بہترین اسوۂ حسنہ ہے- ہمارا سماج آج کئی چیلنجز کا سامنا کررہا ہے،یہاں قتل وغارت کو بہادری وغیرت کا نام، رشوت و اقرباء پروری کو دانائی اور بے حیائی وبے پردگی کوترقی کی علامت قرار دیا گیا -الغرض! معاشرے کی ترجیحات یکسر بدل چکی ہیں اور آج کا نوجوان مغر بی معاشر ے میں پناہ لینے ہی میں اپنی عافیت سمجھتا ہے -
لیکن اگر ہم ان مسائل کی نشاندہی کرکے ہر مسئلہ پر رسول اللہ(ﷺ) کی حیات طیبہ سے روشنی لینا چاہیں تو یہ بات بلا خوف تردید کہی جائے گی کہ محسن انسانیت کی جامع سماجی زندگی نے اپنے وسیع دامن میں ان تمام مسائل کا حل سمیٹ رکھا ہے- حل بھی ایسا عادلانہ، منصفانہ، معقول ومعتدل کہ اس سے بہتر کوئی دوسرا حل سامنے نہیں آسکتا-غورفرمائیے! کہ سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے خود غرضی اورہوا پرستی کا خاتمہ فرماتے ہوئے ارشادفرمایا:’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ لوگوں کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘-مزید ارشاد فرمایا:’’تم میں سے بہتر انسان وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے‘‘- سرکار دوعالم(ﷺ) نے خیر خواہی اور انسانی فلاح وبہبو د کو سراپا دین قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’خیرخواہی کرو، اور دین خیرخواہی کا نام ہے‘‘اور کسی سے دو میٹھے بول کہہ دینا بھی صدقہ قراردیا-مزید آپس میں مہربانی اورشفقت کی تلقین فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’بندوں پر رحم کرو،جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیاجاتا، تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا‘‘-
رحمت عالم(ﷺ) کی یہ شانِ رحمت صرف انسان تک محدود نہیں تھی، بلکہ انسانی سماج میں انسانوں کے ساتھ رہنے والے ہر جاندار کے لیے عام تھی اور حضور نبی کریم (ﷺ) نےجانوروں پر ظلم کرنے سے سختی سے منع فرمایا اور بلاوجہ جانوروں کو پیٹنے، ستانے اور ٹھیک سے کھانا پانی نہ دینے پر سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے سخت تنبیہ فرمائی- ایک بار آپ (ﷺ) نے ایک اونٹ کو دیکھا تو اس کے مالک کو بلاکر فرمایا کہ اس جانور کے بارے میں خدا سے ڈرو، جس کا خدا نے تم کو مالک بنایا ہے- ایک دفعہ ایک صحابی(رضی اللہ عنہ) نے چڑیا کے دو بچوں کو پکڑلیا، چڑیا اوپر منڈلانے لگی اور آپ(ﷺ( کی بارگاہ ِ اقدس میں بچوں کے چھن جانے کی شکایت عرض کی تو آپ (ﷺ) نےارشاد فرمایا کہ اس کے بچوں کو پکڑ کر کس نے اس کو بیقرار کیا، اس کے بچوں کو چھوڑ دو- ایک عورت کے بارے میں آپ (ﷺ)نےارشاد فرمایا کہ اس کو صرف اس لیے عذاب ہوا کہ اس نے بلی کو باندھ کر بھوکا رکھا تھا-
رحمت عالم(ﷺ)نے نہ صرف انسانوں کی بلکہ جانوروں کو بھی تکلیف پہنچانے کو گناہ قرار دیا-انسانی سماج کا ایک اہم حساس اور تشویشناک مسئلہ ماحولیاتی آلودگی کا ہے اور اس کی تباہ کاریوں سے انسانی معاشرہ لرز رہا ہے، رسول اللہ(ﷺ) کی حیات طیبہ میں اس سے متعلق اصولی ہدایت کیسی روشن ہے- رسول اللہ (ﷺ) نےارشاد فرمایا کہ جو مسلمان درخت لگائے گا اس سے جوانسان یا پرندہ بھی کچھ کھائے گا تو اس کا ثواب درخت لگانے والے کو ملے گا- ہرے بھرے درختوں کو کاٹنے سے رسول اللہ(ﷺ) نے دوران جنگ بھی منع فرمایا ہے- بازار کی اشیاء خوردنی میں ملاوٹ اور نفع خوری کے لیے دھوکا دہی آج عام شیوہ ہوتا جارہا ہے، رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا: جو دھوکا دہی سے کام لے وہ ہم میں سے نہیں ہے-آج ہمارے معاشرے کا سنگین مسئلہ تشدد او ر عدم برداشت ہے-حضور نبی کریم (ﷺ) نے اس کا خاتمہ فرماتے ہوئے ارشادفرمایا : مسلمان تو وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں- اسی طرح کسی کو دہشت زدہ کرنا اور خوف میں مبتلا کردینا قطعاً ممنوع ہے- حتیٰ کہ کسی کے سامنے بلاوجہ تلوار لہرانے کو بھی غلط قرار دیاگیا ہے- کسی کے مال کا ذرا سا حصہ بھی اگر کسی انسان نے دبالیا ہے تو اسے واپس کرنا ہوگا، ورنہ اللہ عزوجل کے نزدیک اسے جواب دہ ہونا اور حقدار کا حق واپس کرنا ہوگا-
سماجی زندگی میں ایک اہم مسئلہ مختلف مذاہب کے احترام اور ان کے درمیان بقائے باہم کا ہے- سیرت طیبہ میں اس بارے میں بہت واضح ہدایات موجود ہیں-میثاق مدینہ میں تمام مذاہب والوں کے لیے اپنے اپنے مذہب پر عمل کی آزادی کی ضمانت تاریخ میں محفوظ ہے، مذہبی اصولوں میں اپنی شناخت کے ساتھ باقی رہتے ہوئے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کا احترام اور عمل کی آزادی سیرت طیبہ نے دی ہے - اس نے بتایا کہ دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں ہے -
رسول اللہ(ﷺ) کی سماجی زندگی بڑی ہمہ گیر، وسیع اورہر زمانہ کی سماجی ضروریات میں رہنمائی رکھنے والی ہے، سیرت طیبہ کا موضوع ایسے نقوش روشن سے مالامال ہے جس کی روشنی سے ہم اپنے اپنے سماج کی کسی بھی نوع کی تاریکی کا خاتمہ کرسکتے ہیں-کیونکہ سیرت طیبہ کا سماجی پہلو آج بھی ایک روشن قندیل ہے، ایک منبع فیض اور بہترین اسوۂ حسنہ ہے-