خلوص و صداقت پہ نسلِ نو کی سیرت سازی
تعلیماتِ غوثیہ کا احیاء: وقت کی اہم ضرورت
اگرچہ عصر ِحاضر کا انسان سائنسی و مادی ترقی کے لحاظ سے بامِ عروج پر ہے جس کی بدولت دنیا ایک عالمی گاؤ ں( Global Village) کی صورت اختیار کرچکی ہے -لیکن اس تمام تر ترقی کے باجود آج معاشرہ احترامِ آدمیت ،وحدتِ نوعِ انسانی، امن و آشتی،پر امن بقائے باہمی،برداشت اور رواداری جیسی انسانی و اخلاقی اقدار سے محروم ہوچکا ہے -بالفاظِ دیگر معاشرے سے روحانی الذہن افراد نا پید ہوچکے ہیں اور معاشرہ بدترین روحانی ضعف و بے یقینی اور فکری پسماندگی سے دوچار ہے جس کی ایک بنیادی وجہ انسانیت کا صداقت و خلوص جیسے شیریں چشموں سے سیراب نہ ہونا ہے -
تاریخ شاہد ہے کہ جب انسانی معاشرے میں سماجی وروحانی خرابیاں واقع ہوئیں تو اللہ تعالیٰ نے ہردور میں انسانی اصلاح و تربیت کیلئے انبیائے کرام (ع) مبعوث فرمائے تاکہ خلقِ خدا کو راہِ حق کی جانب گامزن کیا جائے- خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفٰے(ﷺ)کی ذاتِ گرا می پر باب ِ نبوت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہوا تو انسانیت کی فلاح و اِصلاح کا بیڑا اکابرین امت ،آئمہ عظام اور صوفیائے کرام (رح)نے اٹھایا - اولیاء و صوفیاء کی پوری جماعت میں محبوب ِ سُبحانی ،شہبازِلامکانی سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی (رح)کی شخصیت سرِفہرست ہے - آپؒ کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو خلوص و صداقت کا معیار پتہ چلتا ہے -
سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی (رح) کی سیرت و تعلیمات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؒ نے جس دور میں آنکھ کھولی، اُس دور میں مسلمانوں بالخصوص دین پہ چاروں طرف سے مختلف طریقوں سے یلغار کی جا رہی تھی ،جس میں اپنے پرائے سب شریک تھے -یہ سخت اور کاری حملے دین ِاسلام کی بنیادوں پر تھے - ان حالات میں حضرت محی الدین (رح) نے سب سے پہلے آقا کریم سیّدالمرسلین(ﷺ) کی سنت مبارک (ترک ماسوی اللہ اور توکل علی اللہ ) کو اپناتے ہوئے خود کو علمِ دین کے لیے وقف فرمایا اور خلوص و صداقت کی بنیاد پہ لوگوں کی تربیت فرمائی ۔
حصول ِ علم اورتکمیل ِ علم کے بعد آپؒ مجاہد ہ ِ نفس اور تزکیہ نفس کی طرف متوجہ ہوئے جس کے متعلق آپؒ ارشادفرماتے ہیں :
’’ 40سال تک مَیں عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتا رہا-مَیں عشاء کے بعد کھڑا ہو کر قرآن مجید شروع کرتااور نیند کے خوف سے اپنا ایک ہاتھ کھونٹی سے باندھ دیتا اورا خیررات تک قرآن مجید کو ختم کر دیتا-(نزہۃ الخاطر الفاطر فی مناقب سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی ؓ)
المختصر!حضرت والیِ بغداد(رح) کی سیرت و تعلیمات کا بنظرِ عمیق مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ(رح) نے سب سے پہلے اپنے آپ کوعلم وعمل کے سانچے میں ڈھالا- جب اللہ عزوجل نے آپؒ کوعلم وعمل کا پیکر بنایا-توآپؒ نے اللہ عزوجل اور اس کے حبیب مکرم (ﷺ) کے حکم مبار ک اور اجازت سے اُمت مسلمہ کی اصلاح کا بیڑہ اُٹھایا-آپؒ نے جہاں درس وتدریس کے ذریعے امت مسلمہ کو بیدار فرمایا وہاں اپنے دست ِ اقدس سے کئی کتب مبارکہ رقم فرمائیں -عصر حاضر میں آپؒ کی روحانی تعلیمات ماضی کی نسبت کہیں زیادہ اہم ہوگئی ہیں جو خلوص و صداقت کا مرقع ہونے کے سبب سماجی و روحانی برائیوں کے تدارک و سدباب کیلئے تریاق کی حیثیت رکھتی ہیں -لہذا!آج آپؒ کی تعلیمات کے احیاء کی بہت ضرورت ہے جس کے لئے نہ صرف عام قاری کو آپؒ کی کتب کا مطالعہ کرنا چاہیے بلکہ بالخصوص نوجوان نسل میں آپ کے تربیتی طریقہ کار کا شعور بیدارکرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ معاشرے کے ایک پاکیزہ ، روحانی الذہن اور کارآمد فرد کے طور پر سماجی فلاح اور تعمیر و ترقی میں اپنا کرادار ادا کرسکیں -اسی طرح اگرآج مسلم اُمہ حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی(رح) کی سیرت مبارکہ اور آپؒ کی تعلیمات کو اپنالے جو قرآن و حدیث کے صحیح فہم پر مبنی ہیں توعالم اسلام اپنی تمام محرومیوں سے نجات حاصل کرسکتا ہے-
مزید برآں! عصر حاضر میں ضرور ت اس امر کی ہے کہ حضرت محی الدین (رح) کی تصانیف کو عام کر کے نہ صر ف مدارس میں سبقاً پڑھایا جائےبلکہ سرکاری سطح تک سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کے نصاب میں ان کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے کیونکہ روحانی تعلیماتِ ہی موجود دور میں انسانیت کی سماجی ، سیاسی ،علمی اور اخلاقی و روحانی بقاء کی ضامن ہیں -بقول حکیم الاُمت علامہ محمد اقبالؒ انسانیت کو آج تین چیزوں کی ضرورت ہے:
(1)کائنات کی روحانی تعبیر (2) فرد کا روحانی استخلاص اور (3) ایسے عالمگیر نوعیت کے بنیادی اُصول جو روحانی بنیادوں پر انسانی سماج کی نشو و نما میں رہنما ہوں-