غزہ لہو لہو
غزہ پر حالیہ اسرائیلی وحشیانہ جارحیت اور بمباری کے نتیجے میں معصوم بچوں، عورتوں اور بزرگوں سمیت بسنے والی انسانیت پر ڈھائے جانے والےمظالم کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے- غزہ کی پٹی جو ایک تنگ سی زمینی پٹی ہے جس کو ہر طرف سے اسرائیل نے گھیرا ہوا ہے کھلی انسانی جیل کا منظر پیش کر رہی ہے جس میں بلا تقسیم انسانی جانوں کا خون ہی خون سر عام بہہ رہا ہے-
اگر غزہ کی جیو گرافک لوکیشن کی بات کی جائے تو 365 مربع میل کی پٹی میں تقریباً 2.3 ملین افراد آباد ہیں- اتنی تنگ سی پٹی میں ہسپتالوں، سکولوں، کالجوں، عبادت گاہوں اور رہائشی مراکز پر شدید بمباری انسانیت سوز سلوک کی ایک جھلک ہے اور موجودہ عالمی نظام کے منہ پر ایک طمانچہ بھی ہے-
اگر 8 اکتوبر سے 23 نومبر 2023ء تک اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں پید ہونے والی اس وقت خوفناک صورتحال کا جائزہ لیا جائے توگورنمنٹ میڈیا آفس کے تازہ ترین اعدادوشمار غزہ کی پٹی کو ہونے والے وسیع نقصان کو ظاہر کرتے ہیں- اس وقت 14854 سے زیادہ افراد بشمول 6500 سے زیادہ معصوم بچے اور 4000 خواتین کی اموات، 3600 زخمی اور 1500000 افراد بے گھر ہوئے ہیں- بمباری کے نتیجے میں غزہ میں 46000 سے زیادہ رہائشی گھر تباہ اور 23400 کو نقصان پہنچا- اس کے علاوہ 7000 کے قریب افراد لاپتہ ہیں جن میں 4 ہزار سے زائد بچے بھی شامل ہیں-
تعلیمی اداروں کو دیکھا جائےتو 67 سکول مکمل بند جبکہ 266 کو نقصان پہنچا ہے- فضائی کارروائی میں غزہ میں103 سرکاری عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے- اس کے علاوہ 88 مساجد تباہ اور 3 گرجا گھروں کو نقصان پہنچا- یوکرین میں ہونے والی جنگ میں بات کرنے والی عالمی دنیا غزہ پر اسرائیلی جارحیت پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے- جہاں ایک اندازے کے مطابق 2ماہ سے بھی کم عرصے میں غزہ میں 2 سال کی جنگ کے بعد یوکرین کے مقابلے میں 2گنا سے زیادہ خواتین اور بچےشہید ہو چکے ہیں-
غزہ میں اسرائیلی جارحیت اور معصوم انسانوں کے قتل عام پر محض اپنے مفادات کی خاطر امریکہ سمیت دنیا بھر کے متعدد ممالک کا اسرائیلی اقدامات کی حمایت فراہم کرنا انسانیت سوز مظالم کا باعث ہے- حکومتی مؤقف کے برعکس ان ممالک کی عوام کا فلسطینیوں کے حق میں دنیا بھر کےدارلحکومتوں اور بڑے بڑے شہروں میں عوامی احتجاجی مظاہرے اس بات کا اظہار ہے کہ حکومتی پالیسیاں جو بھی ہوں عوام ظالم اور مظلوم کا فرق جانتی ہے-
آج دنیا میں ہم جس Rule Based International Order کے تحت رہ رہے ہیں یہ نظام رائج اصولوں اور قاعد و ضوابط کو نفاذ کرنے میں خود ہی ناکام ثابت ہو رہا ہے- حالیہ اسرائیلی جارحیت پر اقوام متحدہ کے طاقتور ترین ادارے سلامتی کونسل میں اسرائیلی جارحیت کو رکوانے کے لئے محض ایک قرارداد منظور نہ ہو سکی- فلسطین کے مسئلہ پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد نہ ہونا ہی مسئلے کو دوبارہ شدت پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے-
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری بشمول تمام مسلم ممالک متفقہ فلسطین پالیسی بنائیں جس میں اسرائیل پر دباؤ ڈالا جائے تاکہ انہیں اس بات کا ادراک ہو کہ غزہ میں بسنے والے انسانوں کی زندگیاں بھی اتنی ہی اہم ہیں جتنی باقی دنیا کے انسانوں کی ہیں- مسلم دنیا پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ کسی صورت القدس شریف پر اپنے حق سے دستبردار نہ ہوں- ساتھ ہی ساتھ نئی نسل کو القدس شریف کے ساتھ اپنے روحانی تعلق کے متعلق آگاہ کیا جاتا رہنا چاہئے تاکہ کسی بھی میڈیا وار یا ڈِس انفارمیشن کا شکار ہو کر وہ اپنے حق کے متعلق غیر یقینی کا شکار نہ ہو سکیں-