اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
’’ ثم دنا فتدلی لا فکان قاب قوسین او ادنی ج فاوحی الی عبدہ ما اوحی‘‘
’’پھر وہ جلوہ (اللہ تعالیٰ اپنے حبیب مکریم (ﷺ) سے) نزدیک ہوا- پھر خوب اُتر آیا تو اس جلوے اور اس محبوب میں دو ہاتھ کا فاصلہ رہا بلکہ اس سے بھی کم- اب وحی فرمائی اپنے بندے کو جو وحی فرمائی ‘‘-(النجم:8-10)
رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’حضرت جریر بن عبد اللہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ تھے- پس آپ (ﷺ) نے چودھویں کے چاند کی طرف دیکھا اور ارشاد فرمایا:عنقریب تم اپنے رب کو اعلانیہ دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھتے ہو‘‘- (سنن الترمذی ، باب فی التوکل علی اللہ)
فرمان سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ :
’’پس ولی کامل سیّدی رسول اللہ (ﷺ) کی اُس ولایت کا حامل ہوتا ہے جو آپ (ﷺ) کی نبوت و باطن کا جزو ہے اور آپ (ﷺ) کی طرف سے اُس ولی کامل کے پاس امانت ہوتی ہے-اس سے مُراد وہ علماء ہرگز نہیں جنہوں نے محض علمِ ظاہر حاصل کررکھا ہے کیونکہ اگر وہ ورثاء نبوی (ﷺ) میں داخل ہوں بھی تو اُن کا رشتہ ذوی الارحام کا سا ہے- پس وارثِ کامل وہ ہوتا ہے جوحقیقی اولاد ہو کیونکہ باپ سے اُس کا رشتہ تمام عصبی رشتہ داروں سے زیادہ قریب ہوتا ہے،پس بیٹا ظاہر باطن میں باپ کے اوصاف کا سِرّ(وارث) ہوتا ہے اسی لیے توسیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :’’علم کا ایک حصہ مخفی رکھاگیا ہے جسے علماء ربّانی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا‘‘- (سر الاسرار)
فرمان سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ :
احدّ جد دتی وکھالی از خود ہویا فانی ھو
قرب وصال مقام نہ منزل ناں اوتھے جسم نہ جانی ھو
نہ اوتھے عشق محبت کائی نہ اوتھے کون مکانی ھو
عینوں عین تھیوسے باھوؔؒ سرّ وحدت سبحانی ھو (ابیاتِ باھو)
فرمان قائداعظم محمد علی جناحؒ :
ایمان ، اتحاد، تنظیم
’’مَیں سمجھتا ہوں کہ طلباء کی بڑی کثیر تعداد میں رائے دہندگان بھی ہیں اگر آپ اپنا یہ حق درست اشخاص اورجماعتوں کے لیے استعمال کریں تو آپ اپنے ملک کے مستقبل کو ڈھالنے میں عظیم کردار ادا کرسکتے ہیں-تاہم آپؒ نے طلباء کو تنبیہ کی کہ وہ مثالی باتوں کی رو میں نہ بہہ جائیں-وہ فوری مستقبل کو اپنے ذہن میں رکھیں‘ ‘- (نیند سے بیدار ہو جائیے اور اپنی تنظیم کیجئے، جلسہ عام میں طلباء کو مشورہ، لاہور، 14اکتوبر 1936ء)
فرمان علامہ محمد اقبالؒ :
دے ولولہ شوق جسے لذت پرواز
کر سکتا ہے وہ ذرہ مہ و مہر کو تاراج
تو معنی و النجم، نہ سمجھا تو عجب کیا
ہے تیرا مد و جزر ابھی چاند کا محتاج (ضربِ کلیم)