خانوادہ اہلِ بیت (رضی اللہ عنھم)میں امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ)کا طُرہ امتیاز
سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :’’میرے اہل بیت کی مثال نوح (علیہ السلام) کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوارہوگیا،وہ نجات پاگیااورجواس سے رہ گیاوہ غرق ہوگیا‘‘-(فضائل الصحابۃ)
اہل بیت اطہار (رضی اللہ عنھم)وہ اعلیٰ و ارفع ہستیاں ہیں جن کے فضائل و مناقب سے قرآن مجید و کتبِ احادیث لبریز ہیں- سیّدنا امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ)کا سب سے بڑا شرف خانوادہ اہلِ بیت نبوت سے نسبت ہے- یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دینِ اسلام کی سربلندی اور احیائے دین کے لیے سب سے زیادہ قربانیان جن نفوسِ قدسیہ نے دیں ہیں اُن میں خانوادۂ اہلِ بیت سرِ فہرست ہے-
آپ کا پدری سلسلہ چھٹی پشت میں سیدی رسول اللہ(ﷺ) تک پہنچتا ہے جبکہ مادری سلسلہ نسب پانچویں پشت میں سیدنا حضرت ابوبکر صدیق سے جاملتا ہے- آپ کا شمار کبائر آئمہ اہلِ بیت میں ہوتا ہے-گفتار و کردار میں صداقت کی وجہ سے آپ کو ’’صادق‘‘ لقب دیا گیا - سیدنا حضرت امام جعفر صادق کی شخصیت اسلامی تاریخ میں منفرد و ممتاز مقام رکھتی ہے- اللہ عزوجل نے آپ کو ہمہ جہت شخصیت بنایا،یوں کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ آپ کی ذاتِ اقدس ہیرے کی مثل ہے جس کو جس طرف سے دیکھیں آنکھوں کو تازگی اور چمک نصیب ہوتی ہے- آپؓ کے معمولات ِزندگی سے آباؤ اجداد کے اَوصاف جھلکتے تھے،آپؓ کےرویے میں حضور نبی کریم (ﷺ)کی معاف کردینے والی کریمانہ شان دیکھنے میں ملتی، گُفتار سےصدیقِ اکبر کی حق گوئی کا اظہار ہوتا اور کردارمیں شجاعتِ حیدریؓ کی جھلک نظر آتی، خوش اَخلاقی آپ کی طبیعت کا حصہ تھی مگر جب کبھی ذکرِ مصطفےٰ ہوتا تو ( حضور نبی کریم (ﷺ) کی ہیبت وتعظیم کے سبب)رنگ زَرد ہوجاتا،کبھی بھی بے وضو حدیث بیان نہ فرماتے ، نمازاور تلاوت میں مشغول رہتےیا خاموش رہتے -
اللہ عزوجل آپ کو تقوٰی میں بلند پایہ مقام عطافرمایا تھا ، ایک روز آپ نے اپنے غلاموں سےارشاد فرمایا : ’’آؤ تم سب مجھ سے عہد کرو کہ تم میں سے جس کی بھی بخشش ہو جائے وہ قیامت کے دن اللہ کے حضور میری بخشش کے لئے شفاعت کرے گا سب عرض کرنے لگے کہ اے ابن رسول آپ کے تو جد امجد تاجدارکائنات (ﷺ) خود ساری مخلوق کے شفیع ہیں، اس پر آپ نے فرمایا : میں اپنے اعمال سے شرمندہ ہوں، قیامت کے دن اپنے جد امجد کے روبرو کھڑا ہونے کی طاقت نہیں رکھتا‘‘-(تذکرۃ الاولیاء)
آپؓ نے اُمت کی بھلائی کے لیے کئی علوم و فنون میں کارہائے نمایاں سر انجام دیے – آپؓ کی شخصیت علوم ِ ظاہریہ و باطنیہ کا بحرِ بیکراں اور وسعتِ فکر و نظر سے مزین تھی- امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ)کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ امام اعظم امام ابوحنیفہ اور حضرت سفیان ثوریؒ جیسی بلند پایہ شخصیات آپ کی شاگرد ہیں -
امام جعفر (رضی اللہ عنہ) اپنے زمانے میں فکری طاقت تھے، انہوں نے صرف اسلامی دروس، علومِ قرآن، سنتِ نبوی اور عقاید کی تدریس پہ اکتفا نہ کیا بلکہ انہوں نے کائنات کے علوم و اسرار کی تعلیم و تدریس کی طرف رُخ کیا اور اپنی ہر چیز پر دسترس رکھنے والی عقل کے ذریعے افلاک کے ڈھانچے و ڈیزائن اور سورج، چاند اور ستاروں کے مداروں کو کھرید ڈالا- اسی طرح انہوں نے انسانی جسم و روح کے حوالے سے علوم کی تدریس پہ بھی خاص توجہ دی-
کسی بھی عظیم شخصیت سے محبت کا مطلب ہوتا ہے کہ ا س کی تعلیمات کو دل وجان سے تسلیم کرکے اس پہ عمل کیا جائے اس لیےبطور مسلمان اکتسابِ فیض اور دنیوی و اخروی کامیابی کے حصول کے لیے ہمیں سرورِ دوعالم نور مجسم (ﷺ) کے اہلِ بیت اطہار(رضی اللہ عنھم)سے محبت اور تعلیماتِ اہلِ بیت کو اپنی زندگی کا عملی حصہ بنانا ہوگا- خانوادۂ اہلِ بیت میں امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) جیسی جلیل القدر شخصیات کے افکار و تعلیمات عالمِ اسلام کے عصری مسائل کے حل کے لیے بہترین سرمایہ ہیں - اس لیے آج تعلیمی،تحقیقی اور مباحثی سطح پر آپ کی شخصیت اور خدمات پر تحقیق کی ضرورت ہے- مزید برآں! نسلِ نو جدید دور میں آپ کی تعلیمات سے رہنمائی لے کر کامیاب زندگی بسرکرسکتی ہے بشرطیکہ تنگ نظری اور فرقہ ورانہ تعصب سے بچتے ہوئے مثبت نقطہ نظر سےآپؓ کی تعلیمات کا مطالعہ کیاجائے-