اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
"انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ع یطھرکم تطھیرا"
’’بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول (ﷺ) کے) اَہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے)‘‘-(الاحزاب:33)
رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’حضرت زید بن ثابت (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ سیدی رسول اللہ ( ﷺ )نے ارشاد فرمایا : بے شک میں اپنے بعد تم میں دو نائب چھوڑ کر جا رہا ہوں، ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب اور(دوسری) اپنی عترت یعنی میرے اہل بیت اور یہ کہ یہ دونوں اس وقت تک ہرگز جدا نہیں ہوں گے جب تک یہ میرے پاس حوض کوثر پر نہیں پہنچ جاتے‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ ، باب ما اعطی اللہ تعالی محمدا ﷺ )
فرمان سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ :
’’پس عیسائی (مباہلے کیلیے ) رسول اللہ(ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئےاس حال میں کہ آپ (ﷺ) صبح کے وقت حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)کو گود میں لئے ہوئے، حضرت امام حسن (رضی اللہ عنہ)کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، سیدہ فاطمۃ الزہراء(رضی اللہ عنہا) آپ(ﷺ) کے پیچھے چل رہی تھیں اور حضرت علی المرتضی ٰ (رضی اللہ عنہ) بھی آپ(ﷺ) کے پیچھے تھے-آپ(ﷺ) فرمارہے تھے کہ جب میں دعا کروں تو تم آمین کہنا-اس پراُن کے بڑے پادری نے کہا: اے جماعت نصاری ! میں یقیناً ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں اگر انہوں نے اللہ سے درخواست کی کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائے تو وہ لازماً ٹل جائے گا- لہٰذا تم مباہلہ نہ کرو ورنہ تم ہلاک ہو جاؤ گے-بالآخر انہوں نے رسول کریم(ﷺ) سے عرض کیا کہ مباہلہ کرنے کی ہماری رائے نہیں -انہوں نے جزیہ دینا قبول کر لیا جو دوہزار سرخ رنگ کی پوشاکیں، تیس زرہیں لوہے کی بنی ہوئی تھیں-آقا کریم(ﷺ) نےارشاد فرمایا:’’اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر وہ مباہلہ کرتے تو ان کی شکلیں مسخ کر دی جاتیں اور وہ بندر اور خنزیر ہو جاتے اور وادی ان پر آگ برساتی اور اللہ عزوجل نجران اور اس کے باسیوں کی جڑیں کاٹ دیتا حتیٰ کہ درخت پر کوئی پرندہ باقی نہ رہتا‘‘- (تفسیر جیلانی)
فرمان سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ:
ج: جے کر دین عِلم وِچ ہوندا سر نیزے کیوں چَڑھدے ھو
اَٹھاراں ہَزار جو عَالم آہا اوہ اگے حسینؑ دے مَردے ھو
جے کجھ مُلاحظہ سرور (ﷺ) دا کر دے تاں خیمے تمبو کیوں سڑدے ھو
جے کر مَندے بیعت رَسُولیؐ پانی کیوں بندے کردے ھو
پر صادق دین تنہاں دے باھوؒ جو سِر قُربانی کردے ھو (ابیاتِ باھو)
فرمان قائداعظم محمد علی جناح ؒ :
ایمان ، اتحاد، تنظیم
’’دنیا کا حُلیہ نہایت تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہا ہے اور ہر قوم کی طرح سے ہمیں بھی ان مہیب خطرات کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے جو ہمارے وجود کو للکار رہے ہیں۔ لہذا ہمیں حوصلے ، سکون، خود اعتمادی اور تحمل کے ساتھ وقت کی ان جو جملہ نزاکتوں اور سنگین حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح سے تیار ہونا چاہئے جو وقتاًفوقتاً پیش آئیں یا رونما ہوں‘- (سرمایہ کے لئے اپیل ،نیو دہلی، 21 مارچ 1942ء)
فرمان علامہ محمد اقبالؒ:
حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کر
کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا
تقدیر امم کیا ہے، کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا (ارمغانِ حجاز)