موسمیاتی تبدیلی، غذائی بحران اور پاکستان
غذائی بحران سے مراد ہے کہ جب تمام لوگوں کو مناسب مقدار میں ایسی صحت مند غذا جس سے وہ ایک توانا زندگی گزار سکتے ہوں اس غذا کو حاصل کرنے کے لیے مالی اور دیگر مادی وسائل کی عدم دستیابی ہو-
دنیا میں اس وقت 8کروڑ سے زائد افراد غذائی قلت کا شکار ہیں- انسانی تاریخ کے گزشتہ ادوار میں بھی انسانوں کو خشک سالی و قحط کا سامنا رہا ہے لیکن آج کے دور میں ایک نیا عفریت نمودار ہوا ہے جس نے انسانیت کو غذائی قلت کا خدشہ لاحق کر دیا ہےجبکہ یہ مسئلہ ماحولیاتی تبدیلی ہے جو کافی حد تک انسان کا اپنا پیدا کردہ ہے-
ماحولیاتی تبدیلیو ں سے مراد انسانی سرگرمیوں کے باعث فضاء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ و دیگر گرین ہاوس گیسز کا اضافہ ہے جس کے باعث کرۂ ارض کے درجہ حرارت و قدرتی موسم میں تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں- ہم گزشتہ برسوں میں اس کے اثرات خوفناک سیلاب،طوفان، بے وقت کی بارشوں اور اوسط درجہ حرارت میں اضافہ کی صورت میں بھگت چکے ہیں- اس کا ایک بھیانک پہلو غذائی قلت بھی ہے- کاشت کاری، ربیع و خریف کی فصلیں ایک مخصوص موسم اور بارشوں کے ایک مخصوص دورانیے سے متصل ہیں - اگر ان قدرتی عوامل کو تبدیل کر دیا جائے مثلاً کس ماہ میں کتنا درجہ حرارت ہے اور کتنی بارش ہوتی ہے اس کا فصلوں کی پیداوار پہ بہت برا اثر پڑ تا ہے-
پاکستان کی 60فیصد آبادی بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پہ موسمی بارشوں پہ منحصر زراعت سے منسلک ہے - پاکستان میں گندم، چاول، گنا، کپاس اور دیگر فصلیں بوئی جاتی ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کے باعث متاثر ہوتی ہیں- موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے زراعت کے نقصا ن میں پاکستان دنیا میں بارہویں نمبر پرہے- دوسری جانب پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے سبب آنے والی قدرتی آفات میں سیلاب سب سے بڑا خطرہ ہے- 2022ء کے سیلاب کو گزشتہ عشروں میں بدترین سیلاب قرار دیا گیا ہے- اس سیلاب سے 2 ملین ایکڑ زرعی رقبہ زیر آب آیا اس کے علاوہ سڑکیں اور مشینری بھی تباہ ہوئی-
یہ بات یاد رکھنی چاہیےکہ موسمی تبدیلی ایک یا دو تباہ کن واقعات کا نام نہیں ہے بلکہ یہ موجودہ نظام پر ان واقعات کےمجموعی دباؤ کا نام ہے- بلاواسطہ اثرات کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلی کے با عث طلب اور رسد اور نقل و حمل پہ بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو نتیجتا ً غذائی بحران کا باعث بنتے ہیں- اس کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث جڑی بوٹیوں کی پیداوار میں اضافہ بھی فصلوں کی پیداوار پہ منفی اثرات مرتب کرے گا- فضا ء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اضافے سے فصلوں کی پیداوار پہ مثبت اثر تو پڑے گا مگر ان میں موجود اہم غذائی اجزاء جیسا کے پروٹین، فولاد اور زنک کی مقدار میں کمی واقع ہو سکتی ہے-
علاوہ ازیں، افسوس ناک بات یہ ہے کہ دنیا میں خوراک کی پیداوار کا 25سے 30فیصد حصہ ضائع ہو جاتا ہے - جس کی روک تھام سے غذائی قلت پہ قابو پایا جا سکتا ہے- جس کے لیے خوارک کو بہتر طریقے سے ذخیرہ و منتقل کرنے اور صارفین میں مناسب استعمال کےشعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے - پاکستان میں کسی موسمیاتی آفت کے آنے کی پیشن گوئی کو جدید تر کرنے کی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ متاثر ہونے والے لوگوں تک اطلاع بر وقت پہنچ سکے-
کاشتکاروں میں موسمیاتی تبدیلی اور اس سے نمٹنے کیلیے شعور بیدار کرنے کیلیے حکومتی سطح پہ مواصلات کے تمام ذرائع اپنانے کی ضرورت ہے- زراعت کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے مثلاً کاشت کار ایسے بیجوں کا استعمال کریں جو موسمی پیشن گوئی کے مطابق زیادہ پیداوار دے سکیں اور موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کو بھی برداشت کر سکتے ہوں- اس مقصد کے لیے نئے تحقیقی مراکز کا قیام عمل میں لانا سود مند ثابت ہوگا- کاشتکاورں تک موسمی پیشن گوئی جیسا کہ بارشوں کے دورانیہ سے متعلق بر وقت اطلاع اور اس کے اندازے سے فصلوں کی کاشت سے بہتر پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے- زرعی اجناس کی درآمدات محتاط تخمینے کے تحت ہونی چاہیے ورنہ مصنوعی بحران کے باعث کسانوں کو بڑا دھچکا لگ سکتا ہے جس کا خمیازہ آخر کار غریب اور کم آمدن والا طبقہ ہی بھگتے گا-