نسل نو کی کردار سازی: حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی جدو جہد سے اسباق
رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ’’افضل جہاد ظالم سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے‘‘-(نسائی)
تاریخ کا کوئی بھی بڑا واقعہ ہو جس میں کسی غیر معمولی شخصیت کی عظیم جد و جہد ہو وہ اپنے دامن میں کثیر الجہات اسباقی مفہوم رکھتا ہے، جسے متعدد زاویہ ہائے نظر سے دیکھا جانا ضروری ہے - سانحہ کربلا نہ صرف اسلامی تاریخ بلکہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ ہے جس میں محسنِ انسانیت و انسانِ کامل و اکمل حضرت محمدمصطفےٰ (ﷺ) کے نواسے حضرت حسین بن علی (رض اللہ عنہ) نے ایک عدیم النظیر استقامت کا مظاہرہ کیا اور اپنے نظریے کی صداقت پہ قربانیوں کی لازوال شہادت پیش کی- سقراط نے اپنے سچ کی پہریداری میں بڑی ہمت دکھائی اور اپنی جان زہر کا پیالہ پی کر قربان کر ڈالی مگر حسین ابن علی (رض اللہ عنہ) سے اس کا کیا موازنہ کیا جائے اور نہ کیا جا سکتاہے کیونکہ یہاں تو سچ کی پہریداری کیلئے ایک جان نہیں، ایک عمر کے ایک دستے کی جانیں نہیں بلکہ عمر کے ہر حصے سے تعلق رکھنے والے 72 لوگوں نے حق و صداقت کی پہریداری کیلئے جانیں قربان کر دیں - پہلا سبق تو یہ اخذ ہوتا ہے کہ دنیا کے ہر عظیم انسان کے نزدیک سب سے قیمتی چیز ’’سچ‘‘ ہے ، تو سچ کے حصول اور اس کی حفاظت کیلئے کچھ بھی قربان کیا جا سکتا ہے مگر کسی بھی چیز کے عوض ’’سچ‘‘ کو قربان نہیں کرنا چاہئے -
حضرت امام حسین (رض اللہ عنہ) کی جد و جہد سے اسلامی تہذیب کے بنیادی اصول بھی سیکھنے کو ملتے ہیں اور یہ بھی کہ اپنی تہذیب کی حفاظت ہر قیمت پہ کرنی چاہئے - مشہور مؤرخ ابن جریر طبری نے آپؓ کا ایک خطبہ لکھا ہے جس میں حضرت امام حسین (رض اللہ عنہ) نے اپنی جد و جہد کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’(یزید کے) ان غیر شرعی اقدامات کے ظاہر ہو جانے کے بعد اگر کوئی شخص قولاً یا فعلاً اس کی مخالفت نہیں کرے گا تو ضرور اللہ تعالیٰ اس کو بھی اُسی کے اعمال میں شامل کرے گا‘‘ - مذکورہ خطبے کے مطابق ان میں سے چند ایک اقدامات و اعمال یہ ہیں :1-مخلوقِ خدا پہ ظلم کرنا ، 2- اللہ کی حرام کی ہوئی چیز کو حلال سمجھنا اور شرعی حدود کو معطّل کرنا ، 3- اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑنا (حکمران کے اللہ سے کئی عہد ہیں جیسے ہر حال میں عدل و انصاف ، تقویٰ کو عزت کا معیار بنانا ، مساوات کا قیام ، مشکل وقت میں رعایا کا ساتھی جیسے حضرت یوسف (رض اللہ عنہ) بنے ، ظلم و فساد کے خلاف جہاد فی سبیل اللہ ، رعایا کی جان مال اور آبرو کی حفاظت کرنا ) ، 4- خلافِ سنت راستہ اختیار کرنا (مثلاً سنت میں حکمران کیلئے اقربا پروری ، رشوت، عدل میں جانبداری ، نسلی تفاخر ، وسائل و غنیمت کی غیر منصفانہ تقسیم ، اللہ و رسول سے زیادہ اپنی وفاداری کو معیار بنانا اور خود کو احتساب سے مستثنیٰ سمجھنا وغیرہم جیسے امور منع ہیں ) ، اور 5- فساد برپا کرنا وغیرہ- امام حسین (رض اللہ عنہ) کی قربانی ہمیں اپنے بلند پایہ تہذیبی عناصر کی حفاظت سکھاتی ہے -
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ تاریخ کے اس نازک موڑ پر اگر سیّدنا امام حسین(رض اللہ عنہ)عَلم ِحق بلند نہ فرماتے تو آج تک حقیقت مشتبہ ہی رہتی اور ملوکیت کو سندِ جواز مل جاتا جیسے کلیم اللہ اگرفرعون کے خلاف قیام نہ فرماتے تو فرعونیت قائم رہتی-اگر سیدنا امام حسین(رض اللہ عنہ) کا اسوہ ہمارے سامنے نہ ہوتو جبر و استبداد کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھ سکتا -
سیّدنا امام حسین(رض اللہ عنہ) کی قربانی ہمیں غیرت و حمیّت کے ساتھ آزادی اور خود مختاری کی قدر کرنے کا درس بھی دیتی ہے۔ آپؓ نے کبھی بھی ظلم اور جبر کے آگے سر نہیں جھکایا- نسل نو کو یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ وہ اپنی آزادی اور خود مختاری کی حفاظت کریں اور کبھی بھی ظلم و جبر کے سامنے نہ جھکیں- امام حسین (رض اللہ عنہ) کی شخصیت جہاں اخلاق اور حسنِ سلوک کا اعلیٰ معیار پیش کرتی ہے وہاں آپؓ کی علم وحکمت اورمنطقی استدلال بھی اس نوجوان نسل کےلئے باعث تقلید ہیں کیونکہ آپؓ نے اتنے مشکل وقت میں بھی منطق و حکمت کو نظر انداز نہیں فرمایا -آپؓ کے خطوط وخطبات اس کی واضح مثا ل ہیں - سیدنا امام حسین ( رض اللہ عنہ)کی زندگی ہمیں خود احتسابی اور خود شناسی کا سبق بھی دیتی ہے-مختصر !آپؓ کی زندگی مبارک قرآن کریم کی عملی تفسیر اور دین ا سلام کی ترجمان ہے -بقول علامہ محمدا قبال (رض اللہ عنہ) :
رمز قرآن از حسین آموختیم |
|
زا آتش اُو شعلہ ہا اندوختیم |
درحقیقت ہم نے قرآن کریم کے حقیقی معانی اور منشا کو حسینؓ سے سیکھا ہے، جو اس کے ضابطہ سچائی اور اصولوں کے مطابق زندگی گزارتے تھے- آج جو ہمارے دلوں میں سچائی کے شعلے اور خدا کی محبت جل رہی ہے ان کی گرمی حسینؓ کی جلائی ہوئی آتشِ عشق کی مرہون منت ہے- سیدنا امام حسین (رض اللہ عنہ) نے جو اُمت کے لئے کرب و بلا کے تپتے صحرا کے صفحات پر ہماری نجات کا جو عنوان رقم کیا ہے ، ہمیں ہر حال میں اُسے فالو کرنے کی ضرورت ہے-