دستک : نسلِ نوکافکری جمود: تدارک و سدّباب

دستک : نسلِ نوکافکری جمود: تدارک و سدّباب

دستک : نسلِ نوکافکری جمود: تدارک و سدّباب

مصنف: اگست 2024

نسلِ نو کا فکری جمود: تدارک و سدّباب

یہ حقیقت ہے کہ انسانی زندگی میں ٹھہراؤ ناکامی جبکہ جہدِ مسلسل کا میابی کا زینہ ہے- بالخصوص اگر انسانی فکر جمود و انحطاط کا شکار ہوجائے تو انسان کی شعوری قوت ناکارہ اور زندگی بے مقصد ہوجاتی ہے کیونکہ فکر عمل کا سر چشمہ ہوتی ہے جو انسان کو ہمہ وقت متحرک رکھتی ہے -گویا انسان کا ہر عمل اس کی فکر کا عکاس ہوتا ہے- فکر ی جمود سے نہ صرف انسان علمی، اخلاقی اور تعلیمی وتحقیقی طور پر پسماندہ ہو جاتا ہے،بلکہ معاشرہ بحیثیت مجموعی معاشی، تہذیبی، ادبی، سیاسی اور آئینی و اقتصادی زبوں حالی کا شکار ہو جاتا ہے- اس کے برعکس فکری تحرک و تازگی اور ندرت فکر و خیال قوموں کی اجتماعی حیات کی بقاء اور جہانِ نو کی تخلیق کے لیے ناگزیر ہے -ہردور میں ترقی یافتہ قومیں اپنی تاریخی، علمی، تحقیقی، ثقافتی، سماجی اور تخلیقی بقاء کے لیے نت نئے افکار و خیالات کی جستجو میں رہی ہیں -تاریخ انسانی میں جتنی بھی جدت اور انقلاب آئے ان کے پیچھے افراد کی فکر ہی کارفرما رہی ہے -اس کے برعکس اگر کسی قوم کے افراد فکری طور پر مغلوب اور فکری تساہل پسندی کا شکار ہوجائیں تو وہ قومیں تبا ہ ہوجایا کرتی ہیں-اگر دیکھاجائے تو عصر حاضر میں مسلم اُمہ کی نسلِ نو بدترین فکری جمود و زوال کا شکار ہے جس کی وجہ سے علم و فن،تخلیق و تحقیق غرضیکہ زندگی کے ہر شعبے میں بہت پیچھے ہے- جس کا اندازہ اس بات لگایا جاسکتا ہے کہ 50بہترین عالمی جامعات کی حالیہ درجہ بندی مسلم ممالک کی ایک یونیورسٹی بھی شامل نہیں -

موجودہ صدی سائنٹیفک ریسر چ کی صدی کہلاتی ہے-سائنٹیفک ریسرچ کی بات کریں تو اس وقت دنیا میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سیکٹر میں جو 24 ممالک آتے ہیں اس میں ایک بھی مسلم ملک شامل نہیں جبکہ پاکستان کا اس میں 42 واں نمبر ہے –اس کے علاوہ سائنٹیفک پبلیکیشز کے لحاظ سے دنیا کے 10 بڑے ممالک کی فہرست میں کوئی مسلم ملک شامل نہیں ہے- اسی طرح نوبل پرائز کی 122 سالہ تاریخ میں سائنس کے شعبہ میں اب تک صرف 3 مسلم سائنسدانوں نے نوبل انعام جیتا ہے- مزید یہ کہ گزشتہ 200 برس میں مُسلم امّہ نے کوئی ایسی ایجاد نہیں کی جس نے مسلم دنیا پر بالعموم اور اورپوری دنیا پہ بالخصوص گہرے اثرات مرتب کیے ہوں -اس کے برعکس صنعتی انقلاب (Industrial Revolution) مغرب کی ایک انقلابی پیش رفت تھی جس نے مسلم تہذیب پر بھی گہرا اثر ڈالا- موجودہ دور میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس جیسی مغربی ایجادات بھی ہمارے سامنے ہیں- دوسری طرف مسلم دنیا اس وقت پوری دنیا کا 25 فیصد اور ہر طرح کے وسائل سے مالامال ہونے کے باجود معاشی و سیاسی عدم استحکام سے دو چار ہے کیونکہ مسلمانوں کے پاس ایسی فکری اور آئیڈیل قیادت ناپید ہوچکی ہے جو ان مسائل سے نکال سکے-

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی تقریباً 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے لیکن بدقسمتی سے نسلِ نو میں تعلیم و تربیت اور یقین و اعتماد کے فقدان کے ساتھ ساتھ فکری پستی بھی پائی جاتی ہے -پاکستان میں تحقیقی ادارے تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں اور نہ ہی ملک کے تعلیمی اداروں میں معیاری تحقیق پر کوئی خاص توجہ دی جاتی ہے -اس کے علاوہ ہمارے ہاں لائبریریز اور کتب بینی (جو فکری نمو کا بنیادی جزو ہے) کا کلچرناپید ہے جس کی وجہ سے نئی نسل میں تحقیق کی دلچسپی نہیں اور وہ فکری و تحقیقی تنگدستی کا شکار ہے حالانکہ کتاب سے دوستی اور لائبریریز(کتب خانوں ) کے قیام سے شغف مسلمانوں کے سنہری دور کی شاندار روایت رہی ہے - فکر و دانش کو پروان چڑھانے میں لائبریری کلچر انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو بدقسمتی سے اس وقت باقی دنیا کی نسبت دنیائے اسلام میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص زبوں حالی کا شکار ہے – پاکستان میں کتب خانے نہ ہونے کے برابر ہیں - جب سے ہم نے کتابوں سے دوستی ترک کی ہم ہر میدان میں ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں - خاص طور پر ہماری نئی نسل ( جسے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی لت پڑ گئی ہے) کتاب پڑھنے کی بجائے شارٹ کٹ تلاش کرکے آگے نکلنا چاہتی ہے جو محض خام خیالی کے سوا کچھ نہیں – کتب بینی کا شوق نہ ہونے اور زحمتِ فکر و تدبّر گوارا نہ کرنے کی وجہ سے نسلِ نو کی تخلیقی و فکری صلاحیت دم توڑ چکی ہے- اسی طرح اُردو پاکستان کی قومی زبان ہے لیکن آج اردو میں اچھی اور معیاری کتب نایاب ہیں - اگر بمشکل کوئی تھوڑی بہت کتابیں مارکیٹ میں آ جائیں تو ان میں بھی غیر جانبدارانہ تحقیق کی بجائے فرقہ ورانہ افکار ونظریات کا غلبہ ہوتا ہے- اس کے علاوہ ہمارے ہاں سرقہ شدہ تصنیفی کلچر یعنی کاپی پیسٹ کا رواج عام ہوگیا ہے جو بالخصوص پاکستان کے تعلیمی اداروں میں بہت زیادہ ہے جس سے ہماری علمی و تحقیقی میدان میں قحط الر جال کی عکاسی ہوتی ہے - مزید ہماری نئی نسل کا فکری المیہ ہے کہ وہ کما حقہ آشنا ہی نہیں ہے کہ بطور قومی و ملیّ فرد کے ہماری ترجیحات اور ذمہ ذاریا ں کیا ہونی چاہییں ؟ ہم کیسے بہتر انداز میں ملک وقوم کی خدمت کرسکتے ہیں؟ جدید دور میں آگے بڑھنے اور بدلتے تقاضوں کا مقابلہ کرنے کےلیے از حد ضروری ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کی علمی اور تحقیقی و فکری آبیاری کریں جس کے لیے جدید دور کے تقاضوں سےہم آہنگ اجتہادی، فکری ،تحقیقی اور تخلیقی اداروں کا قیام عمل میں لانا چاہیے -

مزید برآں ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی اداروں میں ایسا نصاب تشکیل دیا جائے جو ان کی فکری آبیاری اور فکری صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے مفید و مؤثر ہو جس کے لیے بچوں میں فلسفہ و منطق اور طبیعات و ریاضی جیسے مضامین میں اوائل عمری (بنیادی تعلیم)  سے مطالعہ کا شوق پیدا کیا جائے - یاد رہے اگر ہم نے اپنی نئی نسل کو فکری جمود و تنزلی سے نہ بچایا اور ان میں جدتِ کردار کے ساتھ ساتھ جدتِ افکار کی روح نہ پھونکی تو ہمارا مستقل تاریک ہوجائے گا- بقولِ حکیم الاُمت:

جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود

 

کہ سنگ و خِشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

عرضِ مُدیر: ماہنامہ مرآۃ العارفین انٹرنیشنل کو ایک طویل عرصہ سے یہ اعزاز حاصل ہے کہ مختلف مواقع پہ پاکستان کی نظریاتی اَساس اور تاریخ پہ خاص اشاعتوں کا اہتمام کرتا رہا ہے - ماہِ آزادی کی مناسبت سے اِس مرتبہ بھی لاکھوں قربانیوں کے حاصل اس وطنِ عزیز پہ خاص اشاعت کا اجراء کیا جا رہا ہے ، مگر اس شمارہ میں تاریخی تناظر کی بجائے مسائل اور وسائل کے تجزیے کو نمایاں کیا گیا ہے – تاکہ ہم یہ جاننے میں مدد حاصل کر سکیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کس قدر نعمتیں عطا فرمائی ہیں اور ان نعمتوں کا راست استعمال کس طرح ممکن ہے - 

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر