مطالعۂ سیرتِ نبوی (ﷺ) کی ضرورت و اہمیت
سیّد الاولین و الآخرین، حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) کی سیرت مبارکہ ا س قدر ارفع و اعلیٰ، اَکمل و اَجمل، اَنوَر و اَطہر ہے کہ خود اللہ رب العزت نے اس کو ’’اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ‘‘ قرار دے کرتمام مسلمانوں کو ا س کی کامل پیروی کا حکم ارشادفرمایا -یادر ہے مسلمان کے لیے سیرت کا مطالعہ فقط ایک علمی مشغلہ نہیں، بلکہ اہم دینی ضرورت ہے، کیونکہ حضور نبی کریم(ﷺ) کی ذاتِ مبارکہ دین کا بنیادی ماخذ ہے -ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اُس کے دل میں حبیب ِ خدا (ﷺ) کی محبت ہر شے سے بڑھ کر ہو حتی کہ ماں باپ اور اولاد سے بھی زیادہ ہو - محبتِ رسول (ﷺ) کے حصول اور اس میں اضافے کا ایک بہترین ذریعہ سیرتِ مبارکہ کے مطالعہ کو زندگی کا معمول بنا لینا ہے- کیونکہ جو شخص جس سے محبت کرتا ہے، اُس کا ذکر کثرت سے کرتا ہے -سیرتِ طیبہ میں کمال دَر کمال، جمال دَر جمال اور حسن دَر حسن ہے ، تو جو کوئی ، بےمثل آقا کریم (ﷺ) کے احوالِ کریمہ کا جتنا مطالعہ کرے گا، اسی قدر محبت و عشقِ رسول(ﷺ)کی منازل طے کرتا جائے گا-قرآن مجید کےبارے علامہ محمداقبالؒ فرماتے ہیں:
نسخۂ اسرارِ تکوینِ حیات |
|
بے ثبات از قوتش گیرد ثبات |
’’وہ قرآن ، زندگی کو وجود میں لانے والے بھیدوں کا نسخہ ہے- گرتے پڑتے افراد و اقوام بھی قرآن کی قوتِ فیضان سے سنبھل جاتے ہیں‘‘-
فہمِ قرآن کا بہترین ذریعہ بھی مطالعۂ سیرت نبوی (ﷺ) ہی ہے کیونکہ قرآن مجید کے آفاقی و جاوداں، حیات بخش پیغام کی تشریح سنت و سیرت رسول (ﷺ) ہی کے ذریعہ ہوتی ہے- آپ (ﷺ) ناطقِ قرآن اور سیرتِ نبوی(ﷺ) قرآنِ کریم کی عملی تفسیر اور الفاظِ قرآنی کی عملی ترجمانی و تعبیر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا قرآنِ کریم میں حکم دیا ، آپ (ﷺ) نے اس پر کامل انداز میں عمل کر کے دکھایا-
ام المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ(رضی اللہ عنہا)نے اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ فرمایا کہ آقا کریم (ﷺ) کا اَخلاق تو قرآن تھا ( مسند احمد)-
مقاصدِ نزولِ قرآن کا کماحقہ ظہور بھی حضور نبی کریم(ﷺ) کے اعمال و احوال سے ہوتاہے اور اصول و احکامِ قرآن کی تفصیل و تبیین و تشریح بھی حضور نبی کریم(ﷺ) کے اقوال و افعال ہی سے ہوتی ہے جسے عام الفاظ میں حدیث ، سنت اور سیرت کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ قرآنِ مجید ، اصول کی کتاب ہے یعنی قرآن پاک میں مرکزی اصول اور بنیادی احکام تو موجود ہیں ، لیکن اُن کی تفصیلا ت نہیں ہیں، مثلاً نماز قائم کرنے، روزہ رکھنے ، حج کرنے ، زکوٰۃ دینے اور اِسی طرح دیگر اجمالی احکام تو بیان کیے گئے ہیں ، لیکن اُن پر عمل درآمد کا طریقہ بیان نہیں کیا گیا- حضورنبی کریم (ﷺ) نے قرآن مجید میں بیان کردہ اُصول و قواعد اور احکام و ہدایات کو اپنے فرامین اور عمل سے واضح کردیا کہ نماز کی ترتیب و کیفیت و وقت کیا ہے؟ افعالِ حج کی ادائیگی کا طریقہ کار کیا ہے؟ قابلِ زکوٰۃ اموال کا تعیُّن اور اُن کی مقداریں کیا ہیں؟ وغیرہا- قرآن مجید پر عمل کے حکم کو بجالانے کے لیے سیرت کی طرف رجوع کئے بغیر گزارا نہیں اور مطالعہِ سیرت کے بغیر قرآن کریم سمجھنا نہایت دشوار ہے-اس طرح زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو اس کا تعلق چاہے ظاہر سے ہو یا باطن وحقیقت سے ہو، مسلمان کے لیے اس کے بارے میں رہنمائی کا اولین اورمعتبر ذریعہ سیرت رسول عربی (ﷺ) ہی ہے –
لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج ہم جس طرح اس فریضہ سے غفلت برت رہے ہیں وہ محض اس وجہ سے ہے کہ اس کی حقیقی ضرورت و اہمیت کا احساس ہمارے دلوں سے محو ہو گیا ہے- ہماری زندگیوں کی نہج کچھ ایسی بن گئی ہے کہ ہمیں اس اہم خلاء کا احساس بھی کم ہوتا ہے جو ہماری زندگیوں میں مطالعۂ سیرت کے فقدان یا کمی کی بناء پر پیدا ہو گیا ہے اور جس کی وجہ سے ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کی تشکیل و تعمیر کے لئے حقیقی روشنی اور رہنمائی کے سر چشمے سے محروم ہو گئے ہیں اور یہ وہ محرومی ہے جس کا ذمہ دار خود ہمارے اپنے سوا کوئی نہیں ہے-