پاکستان میں بیماریوں کی بڑھتی شرح اور ہماری ذمہ داریاں
مشہور مقولہ ہے کہ ’’تندرستی ہزار نعمت ہے‘‘-صحت کے اصولوں سے متعلق بے احتیاطی آنے والے وقت میں انسان کی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ معاشرے پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے- یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان میں صحتِ عامہ کے مسائل روز بروز بڑھ رہے ہیں اور بیماریوں کی شرح بڑھتی جا رہی ہے-
پاکستان کو ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافے کا سامنا ہے- انٹرنیشنل ڈائیبیٹک فیڈریشن (IDF)کی جانب سے 2021ء میں ذیابیطس کے شکار بالغ افراد (20-79 سال) کی درجہ بندی میں چین اور بھارت کے بعد پاکستان کو مجموعی طور پر 33 ملین افراد کے ساتھ تیسرے نمبر پر رکھا گیا ہے یعنی بالغ آبادی کا 26 فیصد سے زائد ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے- ایک سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 41.3 فیصد پاکستانی زیادہ وزن یا موٹاپے کا شکار ہیں- کھانے پینے اور روزمرہ کے معمولات(ورزش، چہل قدمی وغیرہ) میں عدم توازن اور موٹاپا ذیابیطس کی بڑی وجوہات ہیں-
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 510000 ٹی بی کے سالانہ کیس رپورٹ ہوتے ہیں اور اس حوالے سے دنیا بھر میں پاکستان کا پانچواں نمبر ہے- ہیومین رائٹس واچ کے مطابق، پاکستان میں ہر سال تقریباً 1 لاکھ 28 ہزار افراد فضائی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں- اسی طرح یونیسیف کے مطابق سال 2021 ءمیں پانچ سال سے کم عمر کے 68100 بچے فضائی آلودگی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے- قومی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 2023ء میں 2.7 ملین ملیریا کے کیسسز رپورٹ کیے گئے-ایچ آئی وی/ایڈز ڈیٹا ہب برائے ایشیا پیسفک کی 2021ء کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں تقریباً 210000 افراد ایچ آئی وی سے متاثر تھے-پاکستان میں گردے سے وابستہ بیماریوں میں مبتلا 22 ملین افراد میں گردے فیل ہونے والے مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور ہر سال تقریباً 22 ہزار افراد گردوں کے فیل ہونے کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں- پاکستان میں گردے کی بیماریوں کی بڑی وجوہات میں آلودہ پانی، غیر محفوظ دوائیں اور ذیابیطس شامل ہیں- اسی طرح کولیسٹرول، بلند فشارِ خون اور دیگر بیماریوں کی شرح بڑھ رہی ہے-
آج پاکستان میں صحت کے مسائل اور بیماریوں کی بڑھتی شرح کئی عوامل کی وجہ سے پیچیدہ صورت حال اختیار کر چکی ہے- اہم مسائل میں غذا میں عدم توازن، صفائی کا خیال نہ رکھنا، حفظانِ صحت کے متعلق عدم آگاہی و عدم توجہی اور صحت کیلئے درکار ناکافی سہولیات شامل ہیں- عامتہ الناس کو اپنی خوراک میں توازن لانے، سبزی اور پھلوں کے زیادہ استعمال اور تیل، چینی، چٹ پٹے مصالحہ جات اور نمک کی زیادتی ترک کرنے کی عادت اپنانی ہوگی- اس کے علاوہ یہ بات بھی ہر فرد کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ ایسے افراد جن کے روزمرہ کے معمول میں جسمانی مشقت ضروری حد تک شامل نہیں، انہیں ورزش کو روزانہ کی بنیاد پر معمول بناناچاہیئے- پانی کی مناسب اور صاف مقدار کا استعمال گردوں کی صحت کے ساتھ دیگر بہت سے مسائل سے چھٹکارے کا سبب بنتا ہے- اسی طرح ضروری وٹامن اور نمکیات کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے خوراک میں توازن انتہائی ضروری ہے- یہاں یہ تذکرہ بھی اہم ہے کہ توازن صرف مہنگی خوراک کا نام نہیں ہے بلکہ بسا اوقات سستی اشیاء صحت کیلئے زیادہ سود مند ثابت ہوتی ہیں- اسی طرح ورزش کیلئے اگر آپ کو باقاعدہ سہولت میسر نہ بھی ہو تو بہت سی جسمانی مشقوں سے آپ خود کو تندرست رکھنے کے اقدامات کر سکتے ہیں-
یاد رکھیں! صحت مند انسانوں سے ہی صحت مند معاشرہ جنم لیتا ہے- آپ کی صحت جہاں آپ کی اپنی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہے وہیں آپ کے رشتہ داروں اور دوست احباب کو بھی پریشانی سے بچاتی ہے- اس کے علاوہ یہ ہسپتالوں پہ غیر ضروری دباؤ کم کرتی ہے جس کا مثبت اثر ملکی معیشت پر بھی پڑتا ہے- ہر فرد کو اپنی صحت کا خیال رکھناچاہیئے اور حکومتی سطح پہ اس متعلق آگاہی کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں- بچوں کو پرائمری سکول کی سطح پہ متوازن خوراک، صفائی اور ورزش و کھیل کے معمولات کی عادت ڈالنی چاہیئے تاکہ باقی زندگی میں وہ اس تسلسل کو آسانی سے جاری رکھ سکیں-