عصر حاضر، ذہنی امراض اور تعلیماتِ صوفیاء کی معاشرتی ضرورت
دنیا میں ذہنی دباؤ(Depression) تیزی سے پھیلتی ہوئی ایک عام مگر سنگین طبی بیماری ہے- ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ذہنی دباؤ کی بیماری دنیا بھر میں تقریباً 280 ملین افراد کو متاثر کرتی ہے جو تقریباً دنیا کی 3.8 فیصدآبادی بنتی ہے- اسی طرح سالانہ 7 لاکھ سے زیادہ افراد ذہنی دباؤ کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں جبکہ کئی لوگ بالخصوص نوجوان لڑکے لڑکیاں خود کشی پر مجبور ہو جاتے ہیں- عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس کرۂ ارض میں ہر40 سیکنڈ میں ایک آدمی کی موت خودکشی سے ہوتی ہے- رپورٹ کے مطابق 15 سے 29 برس کے لوگوں میں موت کی تیسری بڑی وجہ خودکشی ہے- علاوہ ازیں رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر100 اموات میں سے ایک موت خودکشی کا نتیجہ ہے- 2008ء میں ذہنی دباؤ کو تیسری بڑی بیماری قرار دیا گیا تھا اور اس کی بڑھتی ہوئی شرح سے یہ اندازہ لگایا کہ 2030ء تک یہ دنیا کی پہلی بڑی بیماری بن جائے گی -
ریکارڈ ڈیٹا کے مطابق ہر برس 7لاکھ 20ہزار لوگ اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں ختم کرلیتے ہیں جبکہ خودکشی کی کوشش کرنے والوں کی تعداد تو خودکشی سے مرنے والوں سے بھی کہیں زیادہ ہے-اسی طرح پاکستانی نوجوانوں میں بھی خُودکشی اور ذہنی امراض کا تناسب انتہائی تشویش ناک حد تک بڑھ رہا ہے- خود کشی کی وجوہات میں غربت، بے روزگاری، رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ، مایوسی یا دیگر سنگین ذہنی امراض شامل ہیں- پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں بڑی تعداد میں لوگ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں- ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں تقریباً 25 فیصد افراد ذہنی دباؤ یا کسی اور نفسیاتی بیماری سے دوچار ہیں-
ذہنی دباؤ یا اس طرح کی دیگر پیچیدہ بیماریوں کی وجوہات کو دیکھا جائے تو یہ نفسیاتی، سماجی، اقتصادی، ماحولیاتی اور مختلف حالات سے متاثرہ لوگوں میں زیادہ ملتی ہیں- بسا اوقات یہ بیماریاں وسوسوں، گونا گوں اندیشوں، خوف، ناامیدی سے واقع ہوتی ہیں جوکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامیدی اور انسان کے اندرونی و روحانی تعلق بااللہ کے کمزور ہونے کے نتیجے میں انسان کے گھیر لیتی ہیں- سرمایایہ دارنہ سوچ اور خالص مادی فکر اس کی ایک بنیادی وجہ ہے -
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’جو میری ہدایت کی پیروی کریں گے ان کو نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ‘‘-(البقرہ:38)
تصوف اور روحانیت کی تعلیمات کا نچوڑ دیکھا جائےتو وہ اللہ تعالیٰ پر بندے کا یقین کامل، ایمان بااللہ، توکل باللہ اور خود اعتمادی کی طرف بلاتا ہے، جس سے انسان کا ذہن، قلب اور روح مطمئن ہوتے ہیں- یوں انسان اللہ کی رضا پر راضی رہتا ہے اور مایوسی کا شکار نہیں ہوتا-
سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ اپنے بیت میں فرماتے ہیں:’’قادر دے ہَتھ ڈور اساڈی باھوؒ جیوں رکھے تیوں رہیے ھو‘‘
سورۃ یونس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’جان لو! کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کچھ خوف ہے اور نہ کوئی غم ہے‘‘-(یونس:62)
تصوف کی تعلیمات اطمینان قلب کی طرف راغب کرتی ہیں جوکہ ذکراللہ سے حاصل ہوتا ہے- آخرکیا وجہ ہےکہ اللہ پاک نے اطمینان قلبی کے لئے اپنا ذکر مخصوص کیا - جیساکہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
’’أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ‘‘ ’’جان لو کہ اﷲ تعالیٰ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘-(الرعد:28)
صوفیاء کرام کی تعلیمات پر عمل کرنے والے افراد اور معاشروں میں، تصوف اور روحانیت سے دور معاشروں کے مقابلے میں ذہنی دباؤ اور خودکشی کے واقعات بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں-حتیٰ کہ مغربی اور خود کو غیر مذہبی کہلوانے والے معاشرے بھی میڈیٹیشن (meditation) کے نام پر روحانی علاج کو دھڑا دھڑ اَپنا رہے ہیں- چنانچہ ضروری ہے کہ معاشروں کا تقابلی جائزہ لیا جائے کیونکہ صبر، شکر، قناعت، عاجزی، توکل اور رضائے الٰہی اُن معاشروں کا لازمی جزو ہیں جہاں تصوف زندگی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے نتیجے میں نفسیاتی امراض اور مایوسی پنپنے نہیں پاتے- چنانچہ نوجوان نسل کو روحانی بیداری اور صوفی تعلیمات پر عمل کرنے کی جانب مائل کرنا چاہئے کیونکہ اسی میں ہماری بقاء ہے-