اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
’’وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ‘‘
’’اور بے شک ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد لکھ دیا کہ اس زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے‘‘ (الانبیاء:105)
رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ:
’’بے شک بعض لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی چابیاں ہوتے ہیں، انہیں دیکھ کر اللہ تعالیٰ یاد آجاتا ہے‘‘- (شعب الایمان ، بَابُ محبۃ اللہ عزوجل)
فرمان سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ :
’’ حرف ’’و‘‘ سے ولایت ہے جس کا انحصار تصفیّہ پر ہے جیساکہ اللہ عزوجل نے ارشادفرمایا :’’ خبردار!بیشک اولیاءاللہ پر خوف ہے نہ غم ، ان کے لئے خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت کی زندگی میں بھی ‘‘- ولایت کا نتیجہ یہ کہ آدمی اللہ تعالیٰ کے اخلاق سے متخلق ہوجائے جیسا کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :’’اخلاق الٰہیہ سے متخلق ہو جاؤ‘‘-چنانچہ صفاتِ بشری کا لباس اُتار کر صفاتِ الہٰیہ کا لباس پہننا ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں فرمان حق تعالیٰ ہے:’’جب میں کسی بندے کو اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو اُس کے کان ، اُس کی آنکھیں ، اُس کی زبان ، اُس کے ہاتھ اور اُس کے پاؤں مَیں بن جاتا ہوں ، پھر وہ مجھ ہی سے سنتا ہے، مجھ ہی سے دیکھتا ہے، مجھ ہی سے بولتا ہے، مجھے ہی سے پکڑتا ہے اور مجھ ہی سے چلتا ہے“- پس خود کو ماسوی اللہ کی آلائشوں سے پاک صاف رکھو جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:’’آپ(ﷺ) فرما دیں کہ حق آگیا ہے اور باطل مٹ گیا ہے کہ باطل مٹنے ہی کی چیز ہے‘‘-یہاں پر پہنچ کر مقام ”و“ حاصل ہو جاتا ہے- (سر الاسرار)
فرمان سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ:
مَیں شہباز کراں پَروازاں وِچ دَریا کَرم دے ھو
زَبان ہے میری کُن بَرابر موڑاں کم قَلم دے ھو
اَفلاطون اَرسطُو جیہیں میرے اَگے کِس کَم دے ھو
حَاتم جیہیں لکھ کروڑاں دَر باھوؒ دے منگدے ھو (ابیاتِ باھو)
فرمان قائداعظم محمد علی جناح ؒ :
ایمان ، اتحاد، تنظیم
’’مسلمان فاتح،تاجر،مبلغ اوراُستاد کی حیثیت سے ہند میں وارد ہوئے اور اپنی تہذیب ہمراہ لائے-یہاں زبردست سلطنتیں قائم کیں اورعظیم تہذیبیں تعمیر کیں-انہوں نے برصغیر کی اصلاح کی اور اسے نئے سانچے میں ڈھالا ‘‘- (عیدالفطر اتحاد اوراخوت کی علامت ہے ،11 اکتوبر،1942ء)
فرمان علامہ محمد اقبالؒ:
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کار کشا، کار ساز
خاکی و نُوری نہاد، بندۂ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی اُس کا دلِ بے نیاز (بالِ جبریل)