تہذیب اوراسلامی فن تعمیرکی آفاقیت
اسلامی طرزِ تعمیر انسانی تاریخ کے عظیم ترین ورثوں میں سے ایک ہے، جو ایمان، ثقافت اور فن کے حسین امتزاج کو دنیا کے مختلف خطوں میں منفرد انداز میں پیش کرتا ہے- یہ طرزِ تعمیر اپنی ہمہ جہتی اور کثیر الجہتی خصوصیات کے باعث شمالی افریقہ کی وسیع مساجد، مشرقِ وسطیٰ کے عظیم گنبدوں ، وسط ایشیاء کے دلکش نقش نگاروں، ایران کے نفیس محرابوں، ترکی کے بلند میناروں اور جنوبی ایشیاء کے شاندار تیموری مغل باغات میں ایک طرف تو اپنی دلکشی اور عظمت کا اظہار کرتا ہےاور دوسری جانب اپنی منفرد شناخت وجداگانہ ثقافت کا منہ بولتا ثبوت ہے - اسلامی طرزِ تعمیر کی بنیاد توحید کے نظریے پر رکھی گئی ہے، جہاں ہر ڈیزائن، ہر ساخت اور ہر تفصیل حتیٰ کہ رنگوں کا چناؤ بھی ایسا کیا گیا ہے جو اللہ پاک کی وحدانیت، عظمت اور جمال کی حمد و ثنا کو بیان کرتے ہیں- جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا‘‘ (البقرہ:22)- یہ فن اللہ پاک کی قدرت کا مظہر اور اس کے بندوں کیلئے زمین پر سکون فراہم کرنے کا ذریعہ ہے-
بعض ذہنی پسماندگان مسلم سنہری دور کی عمارات پہ جملے کستے ہیں کہ جس زمانے میں ہم تاج محل بنا رہے تھے اس زمانے میں مغرب اوکسفرڈ اور کیمبرج جیسی یونیورسٹیاں تعمیر کر رہا تھا - اولاً: یہ مفروضہ تاریخی اور دیگر کئی اعتبارات سے درست نہیں ہے – ثانیاً: اس مفروضے کی ایک ’’جگت‘‘سے بڑھ کر کوئی علمی حیثیت نہیں ایسی جگتیں غیروں کی نظر سے اپنی تاریخ پڑھنے کا نتیجہ ہیں- ویسے بھی جن مغربی یونیورسٹیوں کا حوالہ دیا جاتا ہے وہ تاج محل کے دور میں معرضِ وجود میں نہیں آئیں بلکہ اس سے بہت پہلے شروع ہوئیں - تاج محل 1632 ء میں تعمیر ہوا جبکہ اس سے صرف 536 برس قبل یعنی 1096 ء میں اوکسفرڈ میں تعلیم کا آغاز ہوا اور 423 برس قبل یعنی 1209 ء میں کیمبرج کا آغاز ہوا - اس طرح کے تقابل اور موازنے صرف التباس (Confusion) کا نتیجہ ہوتے ہیں ، مثلاً : یہ کہنا کس قدر غلط اور بے جا ہوگا کہ جس زمانے میں چائنا کی ٹاپ یونیورسٹی، زنگہوا یونیورسٹی بیجنگ (1911 ء) کی بنیاد رکھی جا رہی تھی اس زمانے میں امریکہ ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ (1930 ء) بنانے میں مصروف تھا - مستقبل میں اگر امریکہ کے لوگ چائنا کی نظر سے لکھی گئی امریکی تاریخ کو ہی مستند حوالہ ماننے لگ گئے تو وہ بھی یہی کہیں گے کہ اگر 1800 ء میں کانگریس بلڈنگ اور بعد میں ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ پہ اتنی دولت نہ لٹائی گئی ہوتی تو چائنا اتنی بڑی طاقت نہ بن سکتا-
ہر تہذیب میں تعلیم و ترقی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ صدیوں تلک قائم رہنے والا اس کا نشان چھوڑا جائے ، اس لئے ہر چیز کو اس کے درست تناظر میں دیکھنا چاہئے - درست تناظر یہ ہے کہ 1632 ء کے مسلم برصغیر کے اندر فن تعمیر اور ریاضی کی تعلیم آج کے اوکسفرڈ اور کیمبرج سے بھی زیادہ ایڈوانس درجے کی دی جا رہی تھی تبھی تو تاج محل جیسے عظیم شاہکار وجود میں آ رہے تھے -
مساجد، مدرسے، قلعے اور مقبرے اسلامی فنِ تعمیر کے شاہکار ہیں، جو دنیا کے مختلف خطوں میں مقامی ثقافت اور طرزِ تعمیر کے مطابق تخلیق کیے گئے ہیں، یہ سچ ہے کہ سنگ و خشت جہان پیدا کرنے سے قاصر ہیں لیکن اکثر اوقات جہان تازہ کی بنیاد رکھنے کے لئے افکار تازہ کو نمو بخشنے کا کام کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں- سنگ و خشت کے یہ آثار تابناک ماضی کی جھلک دکھاتے ہیں جو روشن مستقبل کے لئے ایک جوش اور جذبہ پیدا کرنے کی سعی حاصل کے لئے آکسیجن کا کام کر سکتے ہیں- گوکہ آج یورپ میں بالعموم اور بالخصوص ہسپانیہ میں اسلام کے آثار تقریباً ناپید ہو چکے ہیں لیکن مسجد قرطبہ جیسی لازوال عمارت آج بھی عہد اسلامی کی یاد تازہ کرتی ہے-
یہ امر اس بات کا گواہ ہے کہ اسلام ایک عالمگیرمذہب ہے جو علاقائی ثقافتی رنگوں کو یک جہت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ اس ثقافتی ورثے کی شناخت کے آثار قائم رہیں ،تاہم ان سب کا مشترکہ مقصد اللہ پاک کی وحدانیت و قدرت اور اسلام کی صداقت و ہمہ گیریت کو اجاگر کرنا ہے- اسلامی فن تعمیر میں جیومیٹری،گرہ سازی ، خطاطی اور نقاشی کا ایسا حسین امتزاج موجود ہے جو کائنات کی لا متناہی ترتیب اور تخلیق کی عکاسی کرتا ہے- اسلامی عمارتوں میں قرآنی آیات کی خطاطی نہ صرف فنکارانہ مہارت کی مظہر ہیں بلکہ یہ خالقِ کائنات کی یاد کو ہر لمحہ تازہ کرنے کا ذریعہ بھی ہیں-
ان عمارتوں کے وسیع وکشادہ داخلی حصے جہاں آنے والوں کو سلامتی اور امن کے گہوارے میں خوش آمدید کہتے ہیں وہاں آنے والوں کو روحانی سکون مہیا کرنے کا باعث بھی بنتے ہیں- یہاں روشنی اور سایہ کے انتظامات نہایت باریک بینی سے کیے گئے ہیں اور ساتھ ہی ہوا کے گزرنے کا اہتمام بھی خصوصیت سے کیا گیاہےتاکہ گھٹن اور تنگی کا سامنا نہ ہو، اسلامی فن تعمیر کا یہ خاصا اسلام کی وسعت، شگفتگی اور تازگی کا مظہر بھی ہے- قرآن پاک میں ارشاد ہے ’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے‘‘( النور:35)-یہ نور اسلامی فن تعمیر کی شاہکار عمارتوں کے ہر گوشے میں نمایاں ہے- گنبد، محراب، منقش چھتیں، بلند و بالا مینار نہ صرف جمالیاتی دلکشی کا باعث ہیں بلکہ ظلمت کے چھٹ جانے کی نوید اور نور کی موجودگی کا استعارہ بھی اور یہ اللہ کی جمالیت، وحدانیت اور لامحدودیت کی عکاس بھی ہیں- مساجد کے صحن، پانی کے چشمے اور باغات انسان کو جنت کی یاد دلاتے ہیں- جیسا کہ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے ’’ اور ان کے لئے وہاں باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں‘‘(البقرہ:25) شہروں کے حسن کو دوبالا کرنے اور ان کی ترو تازگی کو قائم رکھنے کے لئے اسلامی طرز تعمیر میں باغات بھی نمایاں مقام پر ایستادہ ہیں- طرزِ تعمیر اپنے عہد کے انسانوں کے خیالات کی مکمل عکاسی کرتا ہے ، جیسا کہ مسجد قرطبہ کے طرزِ تعمیر سے علامہ محمد اقبال اس زمانے کے مسلمانوں کی صفات و جمالیات کو دیکھتے تھے ، اقبال کے نزدیک ہسپانیہ کے مسلمانوں کے دن رات کی تپش ، عظیم خیالات و افکار ، عاجزی ، وجاہت ، طاقت و جہاں بانی ، قلبی کیفیات حتیٰ کہ ان کا پورا طرزِ زندگی مسجد قرطبہ کے طرزِ تعمیر سے جھلکتا ہے ، اس لئے وہ مسجد قرطبہ کو مخاطب کر کے کہتے ہیں :
تجھ سے ہوا آشکار، بندۂ مومن کا راز |
|
اس کے دنوں کی تپش، اُس کی شبوں کا گداز |
اسلامی طرزِ تعمیر مسلمانوں کے عظیم دور کی تخلیقی صلاحیتوں اور روحانی وابستگی کی عکاسی کرتا ہے، جو دنیا کے مختلف خطوں میں اپنی الگ شناخت کے ساتھ موجود ہے- انسان جب بھی اسلامی فن تعمیر کی ان شاہکار یادگاروں کو دیکھتا ہے تو اس عظیم ورثے کو دیکھ کر خود کو پہلے سے زیادہ پختہ اور ایک الگ جہان میں محسوس کرتا ہے- علاوہ ازیں یہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی ایک مشترکہ وراثت کے طور پر قائم ہے- یہ فن ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ہمارے ایمان اور ثقافتی ورثے کی جڑیں کس قدر گہری اور مضبوط ہیں اور ہماری روزمرہ زندگی میں ان کی قدرو قیمت کتنی اہمیت رکھتی ہے- یہ فن تعمیر ہمیں بتاتا ہے کہ ہمارے اکابرین کا تعمیری شعور کتنا بلند تھا کہ انہیں اس بات کا ادراک تھا کہ یہ فن اپنی ثقافت سے آگہی کا اک نیا دور واکرنے کے مترادف ہے ، اس فن کے وسیلے سے آنے والی کئی نسلیں اپنے ثقافتی ورثے سے جڑی رہ سکتی ہیں- اسلامی فن و تعمیر نہ صرف ماضی کی عظمت کی علامت ہے، بلکہ یہ ہمیں اپنے حال کو بہتر بنانے اور آنے والی نسلوں کیلئے ایک شاندار ورثہ چھوڑنے کی ترغیب بھی دیتا ہے-