فلسطین میں انسانی حقوق کی پامالی
یوں تو تاریخ انسانی جارحیت اوربربریت سے بھری پڑی ہے لیکن ظلم و جبر اور انسانیت سوز سانحہ جو فلسطین میں بپا رہا اسے گمان میں لانا بھی ناقابل برداشت ہے- ماضی کی جبرستانی کے نقوش مٹانے کیلئے اقوام کے درمیان بے شمار معاہدے ( اقوام متحدہ کا چارٹر1945ء، انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ 1948ء، چائلڈ رائٹس کنونشن1989ء،جنیوا کنونشن 1949ءوغیرہ وغیرہ) کیے گئے تاکہ دنیا میں امن کی فضا قائم کی جا سکے- جہاں بین الاقوامی ادارے اور ممالک امن کے لیے کوشاں تھے وہیں دوسری جانب کشمیریوں اور فلسطینیوں پر زمین تنگ کی جا رہی تھی- فلسطین کا ماضی ایک طرف لیکن 7اکتوبر 2023ء سے جاری جنگ جارحیت کی انتہا کو جا پہنچی- موجودہ صورتحال میں اسرائیل نے ناصرف فلسطینیوں کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں بلکہ ان کا جینا محال کر دیا ہے- ان مشکلات میں عام لوگوں کے ساتھ ناروا سلوک جس میں شہریوں کا قتل عام، زمین اور جائیداد پر قبضہ، جبری بے دخلی،آزادیٔ نقل و حرکت کی خلاف ورزیاں، غزہ کا محاصرہ، شہریوں کے خلاف پرتشدد کارروائیاں، گرفتاریاں اور حراست، بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیاں وغیرہ وغیرہ شامل ہیں- حالیہ حماس -اسرائیل جنگی بندی خوش آئند ہے لیکن ماضی کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اسرائیل اپنے جارحانہ عزائم سے باز نہیں آئے گا-فلسطین میں جاری بربریت کے ساتھ ساتھ اسرائیل غزہ جنگ کی آڑ میں بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے، جو مستقبل میں مشرق وسطیٰ میں ایک ایٹمی جنگ کا سبب بن سکتی ہے-
یو نیسف کی رپورٹ کے مطابق7 اکتوبر 2023 سے 9نومبر 2024تک غزہ میں 13000 بچوں کا قتل اور 17000 بچے کو اپنے اہل خانہ سے جدا کیا گیا ہے -اس کے ساتھ ساتھ 5سال سے کم عمر قریبا 320000 بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہےاور 660000 بچے سکولوں سے باہر ہیں-اسرائیلی افواج کی جانب سے 65 سے زائد نقل مکانی کے احکامات جاری کیے گئے ہیں جس سے غزہ کا 84 فیصد حصہ متاثر ہوا ہے اور 19 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے ہیں- یونیسف کی ہی رپورٹ کے مطابق 10 لاکھ افراد صاف پانی سے محروم ہیں اور تقریباً 830000 کو بنیادی حفظان صحت کی دیکھ بھال کی ضرورت ہےجن میں حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچے بھی شامل ہیں-
UNFPA کے مطابق 30نومبر 2024تک فلسطین میں 45261 (غزہ میں 44466 اور ویسٹ بنک میں 795) ہلاکتیں ہوئیں ہیں اورزخمی ہونے والوں کی تعداد 111808 ہے- غزہ میں تقریبا ً345000 افراد جن میں 8000 حاملہ خواتین اور 38000 نوعمر لڑکیاں شامل ہیں جو قحط جیسے حالات کا سامنا کر رہی ہیں - موجودہ ٹائم میں غذائی عدم تحفظ کی شرح 90 فیصد کو پہنچ چکی ہے جس کی وجہ سےقبل از وقت اور کم وزن بچوں کی پیدائش کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اس کے علاوہ غذائی قلت کی وجہ سے مائیں نوزائیدہ بچوں کو دودھ پلانے کی مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں-
یو این ہیومن رائٹس کونسل کی انکوائری رپورٹس کے مطابق ،اکتوبر 2023ء سے اکتوبر 2024ء تک کے اس عرصہ میں 174 میڈیا ورکرز اور 1150 پیرا میڈیکس شہید ہوئے ہیں- تقریباً 370000 عمارتیں مکمل طور پر ملیامیٹ ، 600 مساجد شہید، 3 گرجا گھر مٹی کا ڈھیر، 800 سکول تباہ، 36 میں سے 26 ہسپتال مکمل طور پر تباہ ، 10 ہسپتال جزوی فعال اور 67 فیصد روڈ نیٹ ورک مکمل تباہ ہوچکاہے- اس تمام صورت حال کےپیش نظر وہ تمام ادارے اور ممالک جو امن کے داعی ہیں خاموش تماشائی نظر آتے ہیں- اقوام متحدہ اس معاملے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتا ہے - 18 اکتوبر کو سلامتی کونسل میں غزہ سے متعلق پہلی قرار داد پیش کی گئی- جسے امریکا نے ویٹو کر دیا- 8 دسمبر کو غزہ میں جنگ بندی کیلئے دوسری قرارداد آئی جس کی راہ میں بھی امریکا رکاوٹ بن گیا- 20 فروری کو امریکا نے قرار داد کو ویٹو کرنے کی ہیٹ ٹرک کی - اس کے علاوہ مختلف ممالک میں عوامی سطح پر ہونے والے احتجاج بھی غزہ کے مظلومین کو انصاف دلا نے سے قاصر ہیں- اقوام متحدہ کے متعدد اجلاس میں ایک سال کےعرصہ میں صرف ایک ہی قرار داد منظور ہو سکی-
اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے کی جڑ سیاسی، مذہبی، اور تاریخی عوامل میں ہے لیکن انسانی حقوق کی پامالیاں اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہیں- اس تنازعے کے حل کے لیے ایک جامع اور منصفانہ حکمت عملی درکار ہے، جو تمام فریقین کے حقوق کو تسلیم کرے اور امن قائم کرے-اس کے حل کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں-
- دو ریاستی حل اقوام متحدہ کی قرارداد وں کی بنیاد پر جو تجویز کیا گیا تھااس کے مطابق فلسطین اور اسرائیل کو دو خودمختار ریاستوں کے طور پر تسلیم کیا جائے-
- 1967ء کی سرحدوں کے مطابق فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے-
- اسرائیل اور فلسطین دونوں کو اقوام متحدہ کے چارٹر، جنیوا کنونشن اور انسانی حقوق کے معاہدوں کی پابندی کرنی ہوگی تاکہ امن اور استحکام کو عمل میں لایا جا سکے-
- غیر قانونی بستیوں کو ختم کرکے مقامی اور مالکان کو رہائش فراہم کی جائے-
- غزہ اور مغربی کنارے میں انسانی حقوق کی نگرانی کے لیے اقوام متحدہ کے مبصرین کی تعیناتی کی جائے -
- جنگی جرائم کے مقدمات کی تحقیقات اور ذمہ داران کو بین الاقوامی عدالت میں پیش کرکے سزا دی جائے-
- غزہ میں طویل عرصے سے جاری اسرائیلی محاصرہ ختم کرکے فلسطینی عوام کو خوراک، ادویات اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے-
- بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعے بنیادی انسانی حقوق، جیسے زندگی، تعلیم، صحت اور آزادی، کی بحالی کو یقینی بنایا جائے-
- اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو اسرائیل پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ انسانی حقوق کی پامالیاں بند کریں-