فرمان باری تعالیٰ :
’’وَذَرِالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَہُمْ لَعِبًا وَّلَہْوًا وَّغَرَّتْہُمُ الحَیٰوۃُ الدُّنْیَا وَذَکِّرْ بِہٖٓ اَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌم بِمَا کَسَبَتْ ق صلے لَیْسَ لَہَا مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلِیٌّ وَّلَا شَفِیْعٌ‘‘ (الانعام:۷۰)
’’اور آپ ان لوگوں کو چھوڑے رکھئے جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنالیا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی نے فریب دے رکھا ہے اور اس (قرآن) کے ذریعے (ان کی آگاہی کی خاطر) نصیحت فرماتے رہئے تاکہ کوئی جان اپنے کیے کے بدلے سپردِ ہلاکت نہ کردی جائے (پھر) اس کے لیے اﷲ کے سوانہ کوئی مدد گار ہوگا اور نہ کوئی سفارشی‘‘-
فرمان رسول کریمﷺ :
’’قال مالک سمعت عمر بن الخطاب و خرجت معہ حتیٰ دخل حائطا فسمعتہ وھو یقول وبینی وبینہ جدار وھو فی جوف الحائط عمر بن الخطاب امیر المومنین بخ بخ و اللہ لتتقین اللہ او لیعذبنک‘‘ (مؤطا امام مالک،کتاب الکلام و الغیبۃ و التقیٰ)
’’حضرت انس بن مالک()فرماتے ہیں کہ مَیں نے ایک باغ میں دیوار کی اوٹ سے امیر المومنین حضرت عمر ()کو ان الفاظ میں یہ ذاری کرتے ہوئےسنا،ہائے ہائے! اے خطاب کے بیٹے! اللہ سے ڈر،وگرنہ ضرور اللہ تجھے عذاب دےگا‘‘-
فرمان سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی (رض) :
’’اپنے نفس سے نجات حاصل کرو، نفس کی پابندیوں سے آزادی حاصل کرو، سب کام اللہ کے سپرد کیجیئے،اللہ کے ارادے کے سوا کسی اور کو قبول نہیں کرنا چاہیے-خواہش سے اجتناب کرنا چاہیے، خواہش و آرزو نادانوں اور احمقوں کا جنگل ہے- اس جنگل میں ہلاکت کچھ بھی نہیں ہے۔ اس لئے دائمی طور پر اپنے پالنے والے کےحکم کی محافظت کرنے میں عافیت ہے۔ کسی کو شریکِ الہٰی نہیں بنانا چاہیے-شرک کا مطلب محض بت پرستی نہیں بلکہ خواہشاتِ نفس کی پیروی کرنا بھی شرک میں داخل ہوتا ہے-دائمی طورپر حقانیت کی سعی و جستجو کرنی چاہیے۔ اگر اللہ رب العالمین جل مجاہدہ الکریم اپنی خاص عنایت سے کوئی مرتبہ و منصب عطافرمادے تو اسے معروف نہیں کرنا چاہیے کیونکہ حالات بدلتے رہتے ہیں اور اللہ کی ہر آن نئی شان ہے-ذات الہٰ العالمین ہی بندے اور اس کےدل کے درمیان حائل ہے-ممکن ہے کہ اگر تم کسی خواہش میں اگر کوئی آرزو کرو تو قانونِ خداوندی حالات ہی بدل دے اور پھر تجھے شرمسار ہونا پڑے-اس لئے بہتر ہے کہ خواہش و آرزو سے پرہیز کیا جائے اور اگر کوئی رحمت و برکت برقرار رہے تو اسے اللہ ی طرف سے جانتے ہوئے شکر ادا کرنا چاہیے‘‘-(فتوح الغیب)
فرمان سلطان العارفین حضرت سخی سلطان حق باھو ؒ :
جو دل منگے ہووے ناہیں ہوون ریہا پریرے ھو
دوست نہ دیوے دل دا دارو عشق نہ واگاں پھیرے ھو
اس میدان محبت دے وچ مِلن تاتکھیرے ھو
میں قربان تنہاں تو باھو جنہاں رکھیا قدم اگیرے ھو
فرمان قائداعظم محمد علی جناح :
ایمان ، اتحاد، تنطیم
’’ہمارے دشمنوں کی خواہشوں اور ہتھ کنڈوں کا جواب یہ ہے کہ ہم پاکستان کی تعمیر کے لئےعزمِ صمیم کرلیں-ایک ایسی اچھی مملکت ، جو ہماری آنے والی نسلوں کے رہنے کے قابل ہو-اس شاندار نصب العین کا تقاضا ہے،کام ،کام اور کام‘‘-(کراچی،11 اکتوبر1947ء)
فرمان علامہ محمد اقبال ؒ :
اسی قرآن میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر!
تن بہ تقدیر ہے آج ان کے عمل کا انداز
تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر! (ضربِ کلیم)