اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:
’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پالے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے،اﷲ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے دشواری نہیں چاہتااور اس لیے کہ تم گنتی پوری کر سکو اور اس لیے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس لیے کہ تم شکر گزار بن جاؤ‘‘-(البقرۃ:۱۸۵)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’اور اس ذات کی قسم !جس کی قبضہ وقدرت میں (سیدنا) محمد (ﷺ)کی جا ن ہے،روزہ دار کے منہ کی بُوضرور اللہ پاک کے نزدیک مشک(کستوری) کی خوشبوسے زیادہ پسندیدہ ہے اور روزہ دار کے لیے دوخوشیاں ہیں جن سے وہ خوش ہوگا ایک خوشی اس وقت ہوگی جو وہ روزہ افطارکرئے گا اور دوسر ی خوشی اس وقت ہو گی جب وہ اپنے روزے کی وجہ سے اپنے رب سے ملاقات کرے گا‘‘- (صحیح البخاری ،کتاب الصوم)
فرمان سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ:
’’ایک روزۂ حقیقت ہے اور اُس سے مراد فواد(دل ) کو طلب ِماسویٰ اللہ سے پاک رکھنا ہے چنانچہ حدیث ِ قدسی میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے:’’ انسان میرا سِرّ (بھید) ہے اور مَیں انسان کا سِرّ ہوں‘‘ - سِرّ اللہ تعالیٰ کے نور میں سے ہے اِس لئے اِس کا میلان غیر اللہ کی طرف ہر گز نہیں ہوتا - اِس کا دنیا و آخرت میں سوائے ذاتِ حق تعالیٰ کے کوئی محبوب و مرغوب و مطلوب نہیں - اگر وہ غیر اللہ کی محبت میں مبتلا ہو جائے تو روزۂ حقیقت فاسد ہو جاتا ہے - اِس کی قضا یہ ہے کہ دنیا و آخرت میں غیر اللہ کی محبت سے تائب ہو کر دوبارہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اُسی کی محبت و لقا ٔ میں غرق ہو جائے جیسا کہ حدیث ِقدسی میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے -:’’روزہ میرے لئے ہے اور مَیں ہی اُس کی جزا ہوں‘‘ - (سر الاسرار)
فرمان سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ:
تن من میں شہر بنایا دل وچ خاص محلہ ھو
آن الف دل وسوں کیتی میری ہوئی خوب تسلہ ھو
سب کچھ مینوں پیا سنیوے جو بولے ما سویٰ اللہ ھو
درد منداں ایہہ رمز پچھاتی باھو بے درداں سر کھلہ ھو
فرمان قائداعظم محمد علی جناح ؒ :
ایمان ، اتحاد، تنطیم
’’آپ نے مجھ سے کہا ہے کہ میں آپ کو ایک پیغام دوں- میں آپ کو کیا پیغام دے سکتا ہوں-ہماری رہنمائی اور بصیرت کے لئے عظیم ترین پیغام تو قرآن کریم میں موجود ہے-ہمیں جو کچھ کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ہم خود کو پہچانیں اور ان عظیم صفات، خوبیوں اورقوتوں کو بھی جن کے ہم حامل ہیں‘‘-(۱۴ اپریل ۱۹۴۳ء)
فرمان علامہ محمد اقبالؒ:
انسان کی ہوس نے جنہیں رکھا تھا چھپا کر
کھلتے نظر آتے ہیں بتدریج وہ اسرار
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار
(ضربِ کلیم)
’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پالے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے،اﷲ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے دشواری نہیں چاہتااور اس لیے کہ تم گنتی پوری کر سکو اور اس لیے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس لیے کہ تم شکر گزار بن جاؤ‘‘-(البقرۃ:۱۸۵)