دستک

دستک

عصرِ حاضر میں قرآن فہمی کی ضرورت و اہمیت:

عصرِ حاضرمیں  دنیا ترقی  کی راہ پر گامزن ہے،سائنس اورٹیکنالوجی اپنےعروج پر جلوہ افروز ہے  لیکن اس سب کے باوجود انسانیت زوال کا شکار ہے اور امتِ مسلمہ کثیر الجہت زوال کا شکار ہے-ایسے میں مسلم امہ کے زوال کا سبب تلاش کرنا ضروری ہے-اس پیرائے میں مختلف مغربی فلاسفہ اور مفکرین نے اپنی اپنی رائے پیش کی ہے مگر ان میں کوئی بھی کارگر ثابت نہیں ہوئی  کیونکہ ایسے زیادہ تر حل  انسان کے ا  یک مخصوص مادی پہلو کو لےکر دئیے گئے ہیں-ایسے میں اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ہم جسے اپنے لئے مکمل ضابطہ حیات قرار دیتے ہیں اِس کی عملی تفسیر کے متعلق ماضی سے سبق بھی حاصل کریں اور اس ضابطہ حیات کو اِس کی کُلیت میں اپنائیں ک یونکہ ہمارے تمام تر مسائل کا حل اسی میں پوشیدہ ہے- علامہ اقبال (رحمتہ اللہ علیہ) ہماری توجہ اس جانب دلاتے ہیں کہ:

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

 

اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر[1]

دنیا کی ترقی یافتہ قوموں  پر ایک لمحہ کےلئے غور کیا جائے تو انسان حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ گو مادی اعتبار سے ہی سہی، مگر انہوں نے اہم  عظیم اصولوں کو اپنے معاشرے میں جگہ دی ہے جو قوموں کی ترقی کےلئے قرآن نے وضع فرمائے-مثلاً ان کی علم دوستی ، رواز مرہ زندگی میں سچائی کو اختیار کرنا،قانون کی بالادستی،بنیادی حقوق کا ریاست کی جانب سے فراہم کیا جانا، اپنے شہریوں کو تحفظ دینا اور اس طرح کے دیگر امور شامل ہیں-حتیٰ کہ کئی قومیں ایسی ہیں کہ جہاں عام افراد کے پاس زندگی کا معنی خیز فلسفہ ہی موجود نہیں مگر اُن معاشروں میں بھی یہ بنیادی اصول اتنی مضبوطی سے اپنائے گئے ہیں کہ گو فرد اپنی ذات میں تنہا ہو گیا ہے مگر پھر بھی ان قوموں کا بحیثیت مجموعی دنیا میں ایک بڑا اثر و رسوخ  ہے کیونکہ اُنہوں نے تاریخ سے کئی  سبق سیکھتے ہوئے اوراپنی عقل کے بل بوتے پر نظامِ ریاست کے مرکزی اصول اُن بنیادوں پر مرتب کئے ہیں جو  قرآن نے چودہ سو سال قبل عطا کئے-مگر ہم قرآن کریم  پر ایمان رکھنے کے باوجود اس پر عمل درآمد  کرنے سے قاصر ہیں- یقیناً اس کی سب سے بڑی وجہ  ہماری قرآن سے دوری ہے کہ ہم نے اپنے روزمرہ  اور قومی زندگی میں سے قرآن کے  ساتھ ثواب و قرأت کے علاوہ  اپنا تعلق منقطع کر لیا ہے-

قرونِ وسطیٰ کے عظیم مسلمان فلاسفہ و سائنسدان قرآن  مجیدکو ہدایت کا ذریعہ سمجھتے تھے-انہوں نے اپنی تحقیق اور عقل و فکر کے سمندر میں اترنے کےلئے بھی قرآن سے راہ متعین کی-اُن کی تخلیق کردہ سائنسی ایجادات، نِت نئے طریقہ کار،فلسفہ،لٹریچر،جیومیٹری،فنِ تعمیر اور دیگر علوم ایسے تھے جن کا اُس سے قبل عالمِ انسانیت نے شاید خواب بھی نہیں دیکھا تھا-بذاتِ خود ’’سائنسی طریقہ کار‘‘مسلمان سائنسدانوں کی ایجاد ہے جس کے بغیر جدید سائنسی ترقی کا خواب دیکھنا بھی محال ہے-اسی طرح اُس دور کی ادبی تحریکوں کی ہمیں جو مثالیں ملتی ہیں،اس نے دنیائے انسانیت کو علم دوستی اور کئی نئی جہتوں سے متعارف کرایا اور اس سے زیادہ جدت پسندی کی مثال تلاش کرنا شاید تاریخ میں ممکن نہ ہو-الغرض مسلمانوں کی تاریخ ایسی ہستیوں سے بھری ہوئی ہے جنہوں نےقرآن مجید کو مشعل راہ بناکر  انفرادی و معاشرتی سطح پر کامیابیوں کو سمیٹا- اُن کی قرآن فہمی نے نہ تو فرد کو تنہا ہونے دیا اور نہ ہی معاشرے کو شکستگی کا شکار ہونے دیا-

  اسی طرح ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اُس ’’گولڈن ایج‘‘میں ہمارے معاشرتی و سماجی مسائل اور علم و ادب کی تعلیم مساجد و مدارس سے علمائے کرام اور خانقاہوں میں شیوخ سے ملتی تھی اور یہ ایسی جگہیں تھیں جہاں قرآن فہمی ان کی اصل روح تھی اور ہر رجوع کرنے والا اپنے مسئلہ کے حل کے ساتھ ساتھ قرآن فہمی بھی اپنے ساتھ لے کر جاتا اور اس کا اثر فرد کی ذاتی زندگی،نجی زندگی اور معاشرتی زندگی پر ہوتا تھا-آج کے دور میں رحجانات بہت تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں اور ایسے زیادہ تر مسائل کے حل کےلئے جن اداروں یا افراد کا رخ کیا جاتا ہے وہ ان مسائل کا حل تو جدید علوم کی روشنی میں تجویز کرتے ہیں لیکن وہاں سے قرآن فہمی  شاید نہیں مل پا رہی-چنانچہ ہمیں  اپنے مدارس، خانقاہوں،مساجد ،ہسپتال، یونیورسٹیز،کالجز ،سکولز اور دیگر ادارہ جات میں تعلیمِ قرآن کو فروغ دینا چاہئے اور ان کی آپس میں ہم آہنگی بھی لانی چاہئے تاکہ لاشعور میں اٹھنے والے کسی بھی ایسے تاثر کو دور کیا جا سکے کہ شاید جدید علوم اور دینیات کی آپس میں ہم آہنگی نہیں-

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ کسی بھی  قوم  کا سرمایہ اس کی نوجوان نسل ہوتی ہے-چنانچہ ہمیں ایسے معاملات پر غور کرنا ہے جن کے باعث نوجوانانِ ملت قرآن کریم کی جانب رغبت اختیار کریں کیونکہ جدید ایجادات  آنے پر ہمیں ان کے مثبت استعمال کے ساتھ ساتھ اِنہی کے ذریعے نوجوانوں کی تربیت پر غور کرنا ہے جس سے نوجوان عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر دنیا کےچیلنجز سے نبرد آزما ہوں-اس کےلئے ہمیں اتنا وافر  تعلیمی و تربیتی مواد بھی تیار کرنا ہے جو ان جدید آلات کی زینت بن سکے-ساتھ ہی ساتھ گھریلو سطح پر والدین بالخصوص ماؤں  کو ایسا  ماحول فراہم کرنا چاہیے کہ اپنی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں آگے بڑھنے کےلئے نوجوان قرآن کریم میں غوطہ زنی کریں جو انہیں ان کے مسائل کا حل بھی عطا کرے اور ان کی شخصیت میں نکھار پیدا کرے تاکہ وہ  اقبال کی اس فکر کی عملی تفسیر  بن سکیں:

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں

 

اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار[2]

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنا مستقبل کا لائحہ عمل طے کر لیں کہ  قرآن مجید کو فقط ثواب کی غرض سے پڑھنے سے آگے بڑھ کر اسے سمجھنے اور اس سے اپنے مسائل کے حل کیلئے راہنمائی لینے میں ہی ہماری دینی و دنیاوی کامیابی کی ضمانت ہے- ہم میں سے ہر فرد اپنی جگہ اس کردار کو نبھانے کا ذمہ دار ہے اور ایسا کرنا ہی قرآن فہمی ، امتِ مسلمہ کی  نشاۃِ ثانیہ اور بقائے انسانیت کی جانب سفر کا آغازِ نو  ہے-


[1](بانگِ درا)

[2](ضربِ کلیم)

عصرِ حاضر میں قرآن فہمی کی ضرورت و اہمیت

عصرِ حاضرمیں  دنیا ترقی  کی راہ پر گامزن ہے،سائنس اورٹیکنالوجی اپنےعروج پر جلوہ افروز ہے  لیکن اس سب کے باوجود انسانیت زوال کا شکار ہے اور امتِ مسلمہ کثیر الجہت زوال کا شکار ہے-ایسے میں مسلم امہ کے زوال کا سبب تلاش کرنا ضروری ہے-اس پیرائے میں مختلف مغربی فلاسفہ اور مفکرین نے اپنی اپنی رائے پیش کی ہے مگر ان میں کوئی بھی کارگر ثابت نہیں ہوئی  کیونکہ ایسے زیادہ تر حل  انسان کے ا  یک مخصوص مادی پہلو کو لےکر دئیے گئے ہیں-ایسے میں اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ہم جسے اپنے لئے مکمل ضابطہ حیات قرار دیتے ہیں اِس کی عملی تفسیر کے متعلق ماضی سے سبق بھی حاصل کریں اور اس ضابطہ حیات کو اِس کی کُلیت میں اپنائیں ک یونکہ ہمارے تمام تر مسائل کا حل اسی میں پوشیدہ ہے- علامہ اقبال (﷫) ہماری توجہ اس جانب دلاتے ہیں کہ:

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

 

اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر[1]

دنیا کی ترقی یافتہ قوموں  پر ایک لمحہ کےلئے غور کیا جائے تو انسان حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ گو مادی اعتبار سے ہی سہی، مگر انہوں نے اہم  عظیم اصولوں کو اپنے معاشرے میں جگہ دی ہے جو قوموں کی ترقی کےلئے قرآن نے وضع فرمائے-مثلاً ان کی علم دوستی ، رواز مرہ زندگی میں سچائی کو اختیار کرنا،قانون کی بالادستی،بنیادی حقوق کا ریاست کی جانب سے فراہم کیا جانا، اپنے شہریوں کو تحفظ دینا اور اس طرح کے دیگر امور شامل ہیں-حتیٰ کہ کئی قومیں ایسی ہیں کہ جہاں عام افراد کے پاس زندگی کا معنی خیز فلسفہ ہی موجود نہیں مگر اُن معاشروں میں بھی یہ بنیادی اصول اتنی مضبوطی سے اپنائے گئے ہیں کہ گو فرد اپنی ذات میں تنہا ہو گیا ہے مگر پھر بھی ان قوموں کا بحیثیت مجموعی دنیا میں ایک بڑا اثر و رسوخ  ہے کیونکہ اُنہوں نے تاریخ سے کئی  سبق سیکھتے ہوئے اوراپنی عقل کے بل بوتے پر نظامِ ریاست کے مرکزی اصول اُن بنیادوں پر مرتب کئے ہیں جو  قرآن نے چودہ سو سال قبل عطا کئے-مگر ہم قرآن کریم  پر ایمان رکھنے کے باوجود اس پر عمل درآمد  کرنے سے قاصر ہیں- یقیناً اس کی سب سے بڑی وجہ  ہماری قرآن سے دوری ہے کہ ہم نے اپنے روزمرہ  اور قومی زندگی میں سے قرآن کے  ساتھ ثواب و قرأت کے علاوہ  اپنا تعلق منقطع کر لیا ہے-

قرونِ وسطیٰ کے عظیم مسلمان فلاسفہ و سائنسدان قرآن  مجیدکو ہدایت کا ذریعہ سمجھتے تھے-انہوں نے اپنی تحقیق اور عقل و فکر کے سمندر میں اترنے کےلئے بھی قرآن سے راہ متعین کی-اُن کی تخلیق کردہ سائنسی ایجادات، نِت نئے طریقہ کار،فلسفہ،لٹریچر،جیومیٹری،فنِ تعمیر اور دیگر علوم ایسے تھے جن کا اُس سے قبل عالمِ انسانیت نے شاید خواب بھی نہیں دیکھا تھا-بذاتِ خود ’’سائنسی طریقہ کار‘‘مسلمان سائنسدانوں کی ایجاد ہے جس کے بغیر جدید سائنسی ترقی کا خواب دیکھنا بھی محال ہے-اسی طرح اُس دور کی ادبی تحریکوں کی ہمیں جو مثالیں ملتی ہیں،اس نے دنیائے انسانیت کو علم دوستی اور کئی نئی جہتوں سے متعارف کرایا اور اس سے زیادہ جدت پسندی کی مثال تلاش کرنا شاید تاریخ میں ممکن نہ ہو-الغرض مسلمانوں کی تاریخ ایسی ہستیوں سے بھری ہوئی ہے جنہوں نےقرآن مجید کو مشعل راہ بناکر  انفرادی و معاشرتی سطح پر کامیابیوں کو سمیٹا- اُن کی قرآن فہمی نے نہ تو فرد کو تنہا ہونے دیا اور نہ ہی معاشرے کو شکستگی کا شکار ہونے دیا-

  اسی طرح ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اُس ’’گولڈن ایج‘‘میں ہمارے معاشرتی و سماجی مسائل اور علم و ادب کی تعلیم مساجد و مدارس سے علمائے کرام اور خانقاہوں میں شیوخ سے ملتی تھی اور یہ ایسی جگہیں تھیں جہاں قرآن فہمی ان کی اصل روح تھی اور ہر رجوع کرنے والا اپنے مسئلہ کے حل کے ساتھ ساتھ قرآن فہمی بھی اپنے ساتھ لے کر جاتا اور اس کا اثر فرد کی ذاتی زندگی،نجی زندگی اور معاشرتی زندگی پر ہوتا تھا-آج کے دور میں رحجانات بہت تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں اور ایسے زیادہ تر مسائل کے حل کےلئے جن اداروں یا افراد کا رخ کیا جاتا ہے وہ ان مسائل کا حل تو جدید علوم کی روشنی میں تجویز کرتے ہیں لیکن وہاں سے قرآن فہمی  شاید نہیں مل پا رہی-چنانچہ ہمیں  اپنے مدارس، خانقاہوں،مساجد ،ہسپتال، یونیورسٹیز،کالجز ،سکولز اور دیگر ادارہ جات میں تعلیمِ قرآن کو فروغ دینا چاہئے اور ان کی آپس میں ہم آہنگی بھی لانی چاہئے تاکہ لاشعور میں اٹھنے والے کسی بھی ایسے تاثر کو دور کیا جا سکے کہ شاید جدید علوم اور دینیات کی آپس میں ہم آہنگی نہیں-

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ کسی بھی  قوم  کا سرمایہ اس کی نوجوان نسل ہوتی ہے-چنانچہ ہمیں ایسے معاملات پر غور کرنا ہے جن کے باعث نوجوانانِ ملت قرآن کریم کی جانب رغبت اختیار کریں کیونکہ جدید ایجادات  آنے پر ہمیں ان کے مثبت استعمال کے ساتھ ساتھ اِنہی کے ذریعے نوجوانوں کی تربیت پر غور کرنا ہے جس سے نوجوان عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر دنیا کےچیلنجز سے نبرد آزما ہوں-اس کےلئے ہمیں اتنا وافر  تعلیمی و تربیتی مواد بھی تیار کرنا ہے جو ان جدید آلات کی زینت بن سکے-ساتھ ہی ساتھ گھریلو سطح پر والدین بالخصوص ماؤں  کو ایسا  ماحول فراہم کرنا چاہیے کہ اپنی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں آگے بڑھنے کےلئے نوجوان قرآن کریم میں غوطہ زنی کریں جو انہیں ان کے مسائل کا حل بھی عطا کرے اور ان کی شخصیت میں نکھار پیدا کرے تاکہ وہ  اقبال کی اس فکر کی عملی تفسیر  بن سکیں:

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں

 

اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار[2]

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنا مستقبل کا لائحہ عمل طے کر لیں کہ  قرآن مجید کو فقط ثواب کی غرض سے پڑھنے سے آگے بڑھ کر اسے سمجھنے اور اس سے اپنے مسائل کے حل کیلئے راہنمائی لینے میں ہی ہماری دینی و دنیاوی کامیابی کی ضمانت ہے- ہم میں سے ہر فرد اپنی جگہ اس کردار کو نبھانے کا ذمہ دار ہے اور ایسا کرنا ہی قرآن فہمی ، امتِ مسلمہ کی  نشاۃِ ثانیہ اور بقائے انسانیت کی جانب سفر کا آغازِ نو  ہے-



[1](بانگِ درا)

[2](ضربِ کلیم)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر