اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیِ اللہِ رَبِّ الْعٰـلَمِیْنَ‘‘
’’آپ(ﷺ)فرمائیے!بے شک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا (سب) اللہ کے لئے ہے جو رب ہے سارے جہانوں کا‘‘-(الانعام:162)
رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
حضرت جابر بن عبداللہ(رضی اللہ عنہ)نے فرمایا کہ میں عید الاضحیٰ کے دن عید گاہ میں رسول اللہ(ﷺ)کی بارگاہ میں موجود تھا-پس جب آپ (ﷺ) نے خطبہ مکمل فرمایا تو آپ (ﷺ)منبر سے نیچے تشریف لائے اور آپ (ﷺ)کی خدمت ِاقدس میں ایک مینڈھا لایا گیا پس رسول اللہ(ﷺ) نے اس کو اپنے دستِ اقدس سے ذبح فرمایا اور آپ(ﷺ)نے ارشاد فرمایا’’بسم اللہ واللہ اکبر ‘‘،یہ میر ی طرف سے ہےاور میر ے ہر اس امتی کی طرف سے جس نے قربانی نہیں کی ‘‘-(سننِ ابی دواؤد۔کتا ب الضحایا )
فرمان سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی(رضی اللہ عنہ)
’’اللہ عزوجل نے اپنی ایک کتاب میں ارشاد فرمایا ہے کہ’’میں ہوں اللہ کہ بجز میرے کوئی معبود نہیں جو شخص میری قضاء و قدر کے سامنے سر جھکائے اور میری(ڈالی ہوئی) تکلیف پر صبر اور میرے احسانات پر شکر ادا کرے میں اس کو اپنے نزدیک صدیق درج کروں گااور جو میری قضاء و قدر کے سامنے سر نہ جھکائے اور میری تکلیف پر صبر اور میرے احسانات پر شکر ادا نہ کرے اس کو چاہیے کہ میرے علاوہ دوسرا پروردگار تلاش کرے (کہ اب )اس کا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں رہا‘‘-جب تو تقدیر پرراضی نہ ہوا اور تکلیف پر صبر نہ کیا اور احسان پر شکر گزار نہ ہوا تو وہ تیرا رب نہیں پس اس کےسوا دوسرا رب تلاش کر اور دوسرا رب کوئی ہے ہی نہیں -اگر تو مرید بنتا ہے تو قضاء و قدر پر راضی ہو اور تقدیر پر ایمان لا-خواہ خیر ہو یاشر، شیری ہو یا تلخ اور اس بات کو یقینی سمجھ کہ جو تکلیف تجھ کو پہنچی ہے وہ احتیاط کرنے سے ہرگز ٹل نہیں سکتی تھی اور جو کچھ تیرے ہاتھ سے جاتا رہا وہ تیرےدوڑدھوپ کرنےسے ہرگز ہاتھ نہیں آسکتا ‘‘-(فتح الربانی)
فرمان سلطان العارفین حضرت سلطان باھو ؒ:
راتیں نین رت ہنجوں روون تے ڈیہاں غمزہ غم دا ھو
پڑھ توحید وڑیا تن اندر سکھ آرام ناں سمدا ھو
سر سولی تے چاٹنگیونے ایہو راز پرم دا ھو
سدھا ہو کوہیویئے باھو قطرہ رہے ناں غم دا ھو (ابیات باھو)
فرمان قائداعظم محمد علی جناح ؒ:
ایمان ، اتحاد، تنطیم
’’ہم ایک منظم اورپابند قوم ہیں-اس مقصد کے حصول کے لئے کسی قربانی کو عظیم تر تصور تسلیم نہ کیا جائے-لہذا میں ہر مسلمان پرزور دیتا ہوں کہ وہ مصیبت اٹھانے اور ہرقربانی کے لئے تیار ہوجائے -اگر ضرورت پڑے تو اس نازک مرحلے میں مجموعی مفاد اور قومی مقصد کی خاطر ذاتی مفاد،آسائش اور اقتدار کی خواہش کو تج کردے‘‘-(کراچی8ستمبر1945ء)
فرمان علامہ محمد اقبالؒ:
برتر از اندیشۂ سود زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
تو اسے پیمانہ امروز فردا سے نہ ناپ
جاوداں پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی (بانگِ درا)