پاکستان میں پیدل سڑک کراس کرنے والوں کے حقوق و حفاظت
پاکستان جیسےترقی پذیر ملک میں بہت سے دوسرے مسائل کے ساتھ بڑھتی ہوئی ٹریفک ایک گھمبیر مسئلہ بن چکا ہے جس کاشکار بہت سی قیمتی جانیں ہوتی ہیں-دنیامیں شرحِ اموات کےتیزی سے اضافے کی وجوہات اور اسباب میں ایک بڑا سبب سڑک پرہونے والے حادثات ہیں-ان حادثات کی شرح ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں ترقی پذیر ممالک میں زیادہ ہے - جب یہ تصور کیا جائے کہ کیسے ایک ہنستی کھیلتی جان زندگی کی شاہراہ پر چلتے ہوئے ذرا سی لاپرواہی یا غلطی کے سبب اپنے وجودسے ہاتھ دھوبیٹھتی ہے تودل خون کے آنسو روتا ہے-اس انتہائی توجہ طلب مسئلہ کیلئے عوامی اور حکومتی دونوں میں سےصرف کسی ایک سے مکمل حل ممکن نہیں-بلا شک و شبہ،مفادِ عامہ میں بیداری کے لئے حکومتی اداروں سےتوقع ضروری ہے تاہم اس کے ساتھ، ایک موٹر گاڑی کے ڈرائیور اور پیدل چلنے والے کو سڑک سے منسلک اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے-قانون کا احترام، ٹریفک کےاصولوں کا شعور اور پابندی مہذب قوموں کا شیوہ ہے-
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین اپنے شہریوں کواس بات کی ضمانت فراہم کرتا ہے کہ مملکتِ خداداد کا ہرقانون مفادِ عامہ کوپیش نظر رکھتے ہوئے اسلامی اصولوں کی روشنی میں تشکیل پائےگا-آئین کے اسی اصول کوملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ٹریفک سےمتعلقہ قوانین کی مخصوص اشکال و احتمال کو خاطر میں لاتے ہوئے ہر شہری کے مفاد کیلئے بالعموم اور پیدل چلنے والوں کیلئے بالخصوص بہت سے حفاظتی اقدامات و حقوق اٹھائے اور تسلیم کئے گئے ہیں-جیسا کہ نیشنل ہائی وےسیفٹی آرڈیننس 2000ء سے ڈرائیورز پر یہ ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ دو لین والی سڑک پرگاڑی کو بائیں جانب رکھیں لیکن پیدل چلنےوالوں، سائیکل سواروں اور دیگر سست رفتار ٹریفک کو بھی معقول جگہ دی جائے- پاکستان میں ٹریفک پولیس کا محکمہ صوبائی اختیارکا حامل ادارہ ہے ہر صوبہ اپنی ٹریفک پولیس رکھتا ہےجو اپنے بہترین انتظامی معاملات کیلئے مختلف نوعیت کےقواعد و ضوابط متعارف کرواتے ہیں-مثلاً پنجاب ٹریفک قواعد و ضوابط کے مطابق راہ چلتے بچے،بزرگ اور معذور افراد کا خاص خیال رکھا جائے-گاڑی چلاتے وقت جب پیدل پار کرنے کے نشان پر پہنچیں تو آہستہ ہونے اور رکنے کے لئے تیار رہیئے- اگر کوئی سڑک پار کر رہا ہو تو اسے پار کرنے کا موقع دیا جائے-جب چوک پر مڑیں تو جس سڑک پہ آپ مڑ رہے ہوں اس پر پیدل سڑک پار کرنے والوں کو پہلے گزرنے دیجئے-جب آپ سڑک کو کسی ایسی جگہ سے پار کرنا چاہیں جہاں پر زیبرا کراسنگ کے نشانات لگے ہوں تو گاڑیاں آپ کیلئے رکیں گی لیکن آنے والی گاڑیوں کو اتنا موقع دیجئے کہ وہ آپ کیلئے رک سکیں-
قانون کے بہت سے استحقاق پیدل چلنے والوں کیلئے ہیں اس کے ساتھ ہی اخلاقیات بھی یہی تقاضا کرتی ہیں کہ کمزور کو طاقتور کے مقابلے میں فوقیت دی جائے-مثال کے طور پر قانون کی نظر میں سڑک پر سب سے کمزور ایک پیدل چلنے والا اور سب سے طاقتور بڑی گاڑی والا ہے-ایک پیدل چلنے والا کیسے ٹرک سےمحفوظ ہو سکتا ہے ؟ اس کاجواب زیبرا کراسنگ ہے -کوڈ بک آف پاکستان کے مطابق ہائی وے زیبرا کراسنگ کا قانون یہ ہے کہ اگر ایک ڈرائیور زیبرا کراسنگ پر پیدل چلنے والے کو دیکھتا ہے، تو اس پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ رُکے اور پیدل چلنے والوں کو گزرنےکا راستہ دے-بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں پاکستان اس حوالے سے ویانا کنونشن آن روڈ ٹریفک کے نام سے موسوم قانون کو 1968ء سے ہی دستخط کر چکا ہے-بالفاظ دیگراس قانون کونافذ کرنے کا معاہدہ کر چکا ہے، جس کےتحت اس قانون کےمطابق اپنے ملک میں متعلقہ قانون سازی کی جائیگی اور اس کوملکی سطح پر نافذ کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں گے- ویانا کنونشن روڈ ٹریفک 1968ء کے آرٹیکل 7 میں ڈرائیورز پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ سڑک کے صارفین میں زیادہ غیر محفوظ جیسے پیدل چلنے والوں، سائیکل سوار اور خاص طور پر بچوں، بزرگ افراد اورمعذور کی اضافی دیکھ بھال اور احتیاطی تدابیر کو ملحوظِ خاطر لائیں- شاہرا ہ پر پیدل چلنے والوں کو اپنے آپ کوٹریفک کی مخالف سمت میں رکھنا چاہیئے-تاہم، ایک سائیکل سوار یا موٹر سائیکل سوار اورکسی فرد کی قیادت میں پیدل چلنے والوں کے گروہ یا جلوس کو ٹریفک کی سمت میں ہی چلنا چاہیئے- مذکورہ کنونشن کے آرٹیکل 20 کی شق 5 کے تحت تمام ریاستوں کو یہ سفارش کی گئی ہے کہ وہ ریاستی سطح پرٹریفک سے متعلقہ قوانین کو ترویج دیں جس میں پیدل چلنے والوں کو زیادہ تحفظ فراہم کیا جائے-اسی کنونشن کا آرٹیکل21 ڈرائیورز کو پابند کرتا ہے کہ تمام ڈرائیورز ایسے تمام اقدامات سے پرہیز کریں جو پیدل چلنےوالوں کیلئے ممکنہ خطرہ کا باعث بن سکتے ہیں-یہ بین الاقوامی معاہدہ پیدل چلنے والوں اور سائیکل گزار کی شاہراہ پرگاڑی کھڑی کرنے یا پارکنگ سے بھی منع کرتا ہے-
حقوق کی اس تمام بحث کے ساتھ قانون کاعمومی اصول یاد رہنا چاہیے کہ ’’where there is right there is duty ‘‘.اس بات کو قطعاً نہیں بھولنا چاہیے کہ جہاں ایک طرف حقوق ہوتے ہیں اس کے ساتھ ہی دوسری طرف فرائض بھی نافذ العمل ٹھہرتے ہیں-قانون جہاں ایک طرف پیدل چلنے والوں کو ’’Privileges and Immunities ‘‘ فراہم کرتا ہے اس کے ساتھ ہی ان پربہت سی ذمہ داریاں بھی عائد کرتا ہے- عام فہم الفاظ میں گاڑی چلانے والوں سے پیدل چلنے والوں کے حقوق زیادہ ہیں لیکن ان کیلئے قواعد پر عمل کرنا بھی لازمی ہے-جیسا کہ پنجاب ٹریفک رولز کے مطابق اگر سڑک پر فٹ پاتھ نہ ہوں تو سڑک سے ہٹ کر اس کے کچے حصے پر چلیے،اگر کچا حصہ بھی نہیں توسڑک کےانتہائی دائیں کنارےپراس طرح چلیے کہ سامنے سے آنے والی گاڑیوں کو آپ دیکھ سکیں-فٹ پاتھ پرکسی صورت میں کھڑے رہ کرپیدل چلنے والوں کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں، نہ ہی کوئی سامان وغیرہ رکھیں- سڑک پر کھڑے ہونے یا ٹہلنے سے اجتناب کیجئے-خاص طور پہ ایسے موڑ جہاں گاڑیوں کے ڈرائیورز آپ کو نہ دیکھ سکیں -سڑک پر آنے سے پہلے دونوں طرف دیکھ کر اطمینان کر لیجئے کہ کوئی ٹریفک دائیں یا بائیں سے تو نہیں آ رہی-روڈ کراس کرنے والے کے قریب اگر سڑک عبور کرنے کا نشان موجود ہے تو کسی اور جگہ سے سڑک ہرگز عبور نہ کیجئے-
ریاست کا بنیادی کام جہاں شہریوں کےحقوق کاتحفظ ہےاس کےساتھ ہی وہ شہریوں کی فلاح و بہبود کیلئے مختلف اقدام اٹھانے کی پابند ہوتی ہے-انتظامیہ کی یہ بنیادی ذمہ داری ٹھہرتی ہے کہ پیدل چلنے والوں کو مصروف شاہراؤں پر محفوظ راستہ مہیا کرنے کیلئے فُٹ پاتھ بنائے اور جہاں ممکن ہو بالائی گزر گاہیں(Pedestrian bridge) بنائے جس سے شہر کی مصروف شاہراہوں کو عبور کرنے والے شہریوں کی حفاظتی ضمانت اور راہ گیروں کی پریشانیوں کاحل ممکن ہو- فٹ پاتھ کی عدم موجودگی یا اس کی موجودگی میں ان پرموجود ریڑھی اور ٹھیلے والوں کی وجہ سےپیدل چلنےوالوں کومتبادل راستہ سڑک پر میسر آتا ہے جس سے خدانخواستہ وہ حادثہ کاشکارہوسکتے ہیں-پیدل چلنےوالوں اور ڈرائیورز کو احتیاطی اشاروں کے متعلق بھی آگاہ کیاجانا چاہیے-تمام ذمہ دار شہریوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ٹریفک سے متعلق قوانین کا فہم حاصل کریں اور دوسروں کو بھی آگاہ کریں- ڈارئیور حضرات کو چاہیئے کہ مثبت انداز اور رویوں کو اپنا شعار بنائیں دورانِ ڈرائیونگ صبر اور تحمل کا مظاہرہ کریں اور کسی بھی صورت باہمی ہمدردی ،تعاون، رواداری اور برداشت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں-لہذا، بحیثیت ایک ریاست کا اچھا شہری اور مہذب قوم ہونے کے دورانِ ڈرائیونگ ہمیں اپنے حقوق و فرائض کو احسن انداز سے نبھانا چاہیے-
پاکستان میں پیدل سڑک کراس کرنے والوں کے حقوق و حفاظت
پاکستان جیسےترقی پذیر ملک میں بہت سے دوسرے مسائل کے ساتھ بڑھتی ہوئی ٹریفک ایک گھمبیر مسئلہ بن چکا ہے جس کاشکار بہت سی قیمتی جانیں ہوتی ہیں-دنیامیں شرحِ اموات کےتیزی سے اضافے کی وجوہات اور اسباب میں ایک بڑا سبب سڑک پرہونے والے حادثات ہیں-ان حادثات کی شرح ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں ترقی پذیر ممالک میں زیادہ ہے - جب یہ تصور کیا جائے کہ کیسے ایک ہنستی کھیلتی جان زندگی کی شاہراہ پر چلتے ہوئے ذرا سی لاپرواہی یا غلطی کے سبب اپنے وجودسے ہاتھ دھوبیٹھتی ہے تودل خون کے آنسو روتا ہے-اس انتہائی توجہ طلب مسئلہ کیلئے عوامی اور حکومتی دونوں میں سےصرف کسی ایک سے مکمل حل ممکن نہیں-بلا شک و شبہ،مفادِ عامہ میں بیداری کے لئے حکومتی اداروں سےتوقع ضروری ہے تاہم اس کے ساتھ، ایک موٹر گاڑی کے ڈرائیور اور پیدل چلنے والے کو سڑک سے منسلک اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے-قانون کا احترام، ٹریفک کےاصولوں کا شعور اور پابندی مہذب قوموں کا شیوہ ہے-
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین اپنے شہریوں کواس بات کی ضمانت فراہم کرتا ہے کہ مملکتِ خداداد کا ہرقانون مفادِ عامہ کوپیش نظر رکھتے ہوئے اسلامی اصولوں کی روشنی میں تشکیل پائےگا-آئین کے اسی اصول کوملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ٹریفک سےمتعلقہ قوانین کی مخصوص اشکال و احتمال کو خاطر میں لاتے ہوئے ہر شہری کے مفاد کیلئے بالعموم اور پیدل چلنے والوں کیلئے بالخصوص بہت سے حفاظتی اقدامات و حقوق اٹھائے اور تسلیم کئے گئے ہیں-جیسا کہ نیشنل ہائی وےسیفٹی آرڈیننس 2000ء سے ڈرائیورز پر یہ ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ دو لین والی سڑک پرگاڑی کو بائیں جانب رکھیں لیکن پیدل چلنےوالوں، سائیکل سواروں اور دیگر سست رفتار ٹریفک کو بھی معقول جگہ دی جائے- پاکستان میں ٹریفک پولیس کا محکمہ صوبائی اختیارکا حامل ادارہ ہے ہر صوبہ اپنی ٹریفک پولیس رکھتا ہےجو اپنے بہترین انتظامی معاملات کیلئے مختلف نوعیت کےقواعد و ضوابط متعارف کرواتے ہیں-مثلاً پنجاب ٹریفک قواعد و ضوابط کے مطابق راہ چلتے بچے،بزرگ اور معذور افراد کا خاص خیال رکھا جائے-گاڑی چلاتے وقت جب پیدل پار کرنے کے نشان پر پہنچیں تو آہستہ ہونے اور رکنے کے لئے تیار رہیئے- اگر کوئی سڑک پار کر رہا ہو تو اسے پار کرنے کا موقع دیا جائے-جب چوک پر مڑیں تو جس سڑک پہ آپ مڑ رہے ہوں اس پر پیدل سڑک پار کرنے والوں کو پہلے گزرنے دیجئے-جب آپ سڑک کو کسی ایسی جگہ سے پار کرنا چاہیں جہاں پر زیبرا کراسنگ کے نشانات لگے ہوں تو گاڑیاں آپ کیلئے رکیں گی لیکن آنے والی گاڑیوں کو اتنا موقع دیجئے کہ وہ آپ کیلئے رک سکیں-
قانون کے بہت سے استحقاق پیدل چلنے والوں کیلئے ہیں اس کے ساتھ ہی اخلاقیات بھی یہی تقاضا کرتی ہیں کہ کمزور کو طاقتور کے مقابلے میں فوقیت دی جائے-مثال کے طور پر قانون کی نظر میں سڑک پر سب سے کمزور ایک پیدل چلنے والا اور سب سے طاقتور بڑی گاڑی والا ہے-ایک پیدل چلنے والا کیسے ٹرک سےمحفوظ ہو سکتا ہے ؟ اس کاجواب زیبرا کراسنگ ہے -کوڈ بک آف پاکستان کے مطابق ہائی وے زیبرا کراسنگ کا قانون یہ ہے کہ اگر ایک ڈرائیور زیبرا کراسنگ پر پیدل چلنے والے کو دیکھتا ہے، تو اس پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ رُکے اور پیدل چلنے والوں کو گزرنےکا راستہ دے-بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں پاکستان اس حوالے سے ویانا کنونشن آن روڈ ٹریفک کے نام سے موسوم قانون کو 1968ء سے ہی دستخط کر چکا ہے-بالفاظ دیگراس قانون کونافذ کرنے کا معاہدہ کر چکا ہے، جس کےتحت اس قانون کےمطابق اپنے ملک میں متعلقہ قانون سازی کی جائیگی اور اس کوملکی سطح پر نافذ کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں گے- ویانا کنونشن روڈ ٹریفک 1968ء کے آرٹیکل 7 میں ڈرائیورز پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ سڑک کے صارفین میں زیادہ غیر محفوظ جیسے پیدل چلنے والوں، سائیکل سوار اور خاص طور پر بچوں، بزرگ افراد اورمعذور کی اضافی دیکھ بھال اور احتیاطی تدابیر کو ملحوظِ خاطر لائیں- شاہرا ہ پر پیدل چلنے والوں کو اپنے آپ کوٹریفک کی مخالف سمت میں رکھنا چاہیئے-تاہم، ایک سائیکل سوار یا موٹر سائیکل سوار اورکسی فرد کی قیادت میں پیدل چلنے والوں کے گروہ یا جلوس کو ٹریفک کی سمت میں ہی چلنا چاہیئے- مذکورہ کنونشن کے آرٹیکل 20 کی شق 5 کے تحت تمام ریاستوں کو یہ سفارش کی گئی ہے کہ وہ ریاستی سطح پرٹریفک سے متعلقہ قوانین کو ترویج دیں جس میں پیدل چلنے والوں کو زیادہ تحفظ فراہم کیا جائے-اسی کنونشن کا آرٹیکل21 ڈرائیورز کو پابند کرتا ہے کہ تمام ڈرائیورز ایسے تمام اقدامات سے پرہیز کریں جو پیدل چلنےوالوں کیلئے ممکنہ خطرہ کا باعث بن سکتے ہیں-یہ بین الاقوامی معاہدہ پیدل چلنے والوں اور سائیکل گزار کی شاہراہ پرگاڑی کھڑی کرنے یا پارکنگ سے بھی منع کرتا ہے-
حقوق کی اس تمام بحث کے ساتھ قانون کاعمومی اصول یاد رہنا چاہیے کہ ’’where there is right there is duty ‘‘.اس بات کو قطعاً نہیں بھولنا چاہیے کہ جہاں ایک طرف حقوق ہوتے ہیں اس کے ساتھ ہی دوسری طرف فرائض بھی نافذ العمل ٹھہرتے ہیں-قانون جہاں ایک طرف پیدل چلنے والوں کو ’’Privileges and Immunities ‘‘ فراہم کرتا ہے اس کے ساتھ ہی ان پربہت سی ذمہ داریاں بھی عائد کرتا ہے- عام فہم الفاظ میں گاڑی چلانے والوں سے پیدل چلنے والوں کے حقوق زیادہ ہیں لیکن ان کیلئے قواعد پر عمل کرنا بھی لازمی ہے-جیسا کہ پنجاب ٹریفک رولز کے مطابق اگر سڑک پر فٹ پاتھ نہ ہوں تو سڑک سے ہٹ کر اس کے کچے حصے پر چلیے،اگر کچا حصہ بھی نہیں توسڑک کےانتہائی دائیں کنارےپراس طرح چلیے کہ سامنے سے آنے والی گاڑیوں کو آپ دیکھ سکیں-فٹ پاتھ پرکسی صورت میں کھڑے رہ کرپیدل چلنے والوں کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں، نہ ہی کوئی سامان وغیرہ رکھیں- سڑک پر کھڑے ہونے یا ٹہلنے سے اجتناب کیجئے-خاص طور پہ ایسے موڑ جہاں گاڑیوں کے ڈرائیورز آپ کو نہ دیکھ سکیں -سڑک پر آنے سے پہلے دونوں طرف دیکھ کر اطمینان کر لیجئے کہ کوئی ٹریفک دائیں یا بائیں سے تو نہیں آ رہی-روڈ کراس کرنے والے کے قریب اگر سڑک عبور کرنے کا نشان موجود ہے تو کسی اور جگہ سے سڑک ہرگز عبور نہ کیجئے-
ریاست کا بنیادی کام جہاں شہریوں کےحقوق کاتحفظ ہےاس کےساتھ ہی وہ شہریوں کی فلاح و بہبود کیلئے مختلف اقدام اٹھانے کی پابند ہوتی ہے-انتظامیہ کی یہ بنیادی ذمہ داری ٹھہرتی ہے کہ پیدل چلنے والوں کو مصروف شاہراؤں پر محفوظ راستہ مہیا کرنے کیلئے فُٹ پاتھ بنائے اور جہاں ممکن ہو بالائی گزر گاہیں(Pedestrian bridge) بنائے جس سے شہر کی مصروف شاہراہوں کو عبور کرنے والے شہریوں کی حفاظتی ضمانت اور راہ گیروں کی پریشانیوں کاحل ممکن ہو- فٹ پاتھ کی عدم موجودگی یا اس کی موجودگی میں ان پرموجود ریڑھی اور ٹھیلے والوں کی وجہ سےپیدل چلنےوالوں کومتبادل راستہ سڑک پر میسر آتا ہے جس سے خدانخواستہ وہ حادثہ کاشکارہوسکتے ہیں-پیدل چلنےوالوں اور ڈرائیورز کو احتیاطی اشاروں کے متعلق بھی آگاہ کیاجانا چاہیے-تمام ذمہ دار شہریوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ٹریفک سے متعلق قوانین کا فہم حاصل کریں اور دوسروں کو بھی آگاہ کریں- ڈارئیور حضرات کو چاہیئے کہ مثبت انداز اور رویوں کو اپنا شعار بنائیں دورانِ ڈرائیونگ صبر اور تحمل کا مظاہرہ کریں اور کسی بھی صورت باہمی ہمدردی ،تعاون، رواداری اور برداشت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں-لہذا، بحیثیت ایک ریاست کا اچھا شہری اور مہذب قوم ہونے کے دورانِ ڈرائیونگ ہمیں اپنے حقوق و فرائض کو احسن انداز سے نبھانا چاہیے-