اپنے مسکن سلگتے نظرآئیں تو ثالثی کروانی پڑتی ہے
دوسروں کے گھروں کو جلاکرآگ تاپنے والوں کوجب اپنے مسکن سلگتے نظر آئیں تو ہوش ٹھکانے آجاتے ہیں - غالب امکان ہے کہ یہی وجہ ہے کہ ویانا مذاکرات میں مملکت شام کے مسئلہ پہ بڑا بریک تھر وہوا- ترقی یافتہ ممالک اورعلاقائی سٹیک ہولڈرز سمیت قریباً 20ممالک کے وزرائے خارجہ کی شرکت سے ہونے والے ان مذاکرات میں شامی حکومت اورباغیوں کے درمیان فوری جنگ بندی اورچھ ماہ کے دوران عبوری حکومت کے قیام پہ اتفاق کرلیا گیاہے-ویانا مذاکرات کے نتائج پہ بات کرنے سے پہلے شام میں پرواکسی وار کے گورکھ دھندے کا فہم ضروری ہے -یادر رہے کہ 2011ئ سے قبل اس خطے کے زیادہ تر ممالک میں مطلق العنان حکومتیں کام کررہی تھیں -ان میں سے کچھ مغربی ممالک کی حمایت یافتہ تھیں تو کسی کو روس وغیرہ کی آشیر باد حاصل تھی -اِن ممالک کے مقتدر حلقے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے مذکورہ حکومتوں کے گرویدہ تھے جب کہ عوام میں ان کی پذیرائی نہ تھی -2011ئ کے اوائل میں تیونس میں بے روزگاری سے تنگ آکر ایک نوجوان نے حکومتی اَیوانوں کے سامنے خود کوآگ لگالی ،اس کے جسد سے آگ تو بجھائی گئی لیکن مظلوم موت سے اُٹھنے والی چنگاری نے مطلق العنان حکمرانوں کے تخت کو عوامی شعلوں میں لپیٹ دیا- اِس واقعہ نے پہلے سے ستائی تیونسی عوام کو غضب ناک کردیا اوراُنہوں نے برسوں کی آمرحکومت کے پائوں اُکھاڑ دیے -دیکھتے ہی دیکھتے یہ عوامی لہر’’عرب بہار‘‘ کے نام سے دیگر عرب ممالک مصر ،لیبیا اورشام میں پھیل گئی -مصر میں صدر حسنی مبارک کے خلاف اَخوان المسلمین نے کامیاب دھرنا دیا اور حسنی مبارک کواقتدار سے الگ ہونا پڑا ،نئے انتخابات کے نتیجے میں مرسی مصر کے نئے صدر بنے -مگر عالمی طاقتوں کے دوہرے معیار اورعلاقائی قوتوں کے مفادات نے عرب بہار کو پنپنے نہیں دیا- مذکورہ طاقتوں کو ان ممالک میں عوامی اُمنگوں کی حکمرانی میں اپنے مفادات خطرے میں دِکھائی دینے لگے -اُن کے دوہرے معیار کااندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف صدرمرسی کی نئی جمہوری حکومت اوردوسری جانب صدربشارالاسد کی آمریت پر متضاد موقف اپنائے گئے-اِن وجوہات کے سبب عرب بہار کاشگوفہ کھلنے سے پہلے ہی مرجھانے لگا اور عرب میں بہار کیلئے کی جانے والی عوامی کوششیں بیرونی سازشوں اور مفادات کی بھینٹ چڑھنے لگیں-عالمی طاقتوں کے مفادات کاسب سے خطرناک کھیل شام میں کھیلا گیا- مغربی ممالک اورخطے کے کچھ بااثر ممالک بشارالاسد کو اقتدار سے الگ کرنے کے خواہاں تھے اور اس مقصد کیلئے انہوں نے شامی اپوزیشن گروپس کی بھرپور مدد کی جبکہ روس اورایک مضبوط اسلامی ملک نے بشارالاسد کی پشت پناہی کی - یوں شام محدود عالمی سازشی جنگ ﴿ورلڈپرواکسی وار﴾کی آماج گاہ بن گیا -
انسانی حقوق کے بڑے بڑے عَلم برداروں نے شام میں صرف اورصرف ہتھیاروں کی زُبان اپنائی اورسازشوں سے ایک دوسرے کونیچادکھانے کی کوشش کی-ان دگرگوں حالات نے شام میں بڑے پیمانے پہ خانہ جنگی کی ابتداکردی جس کا براہ راست نشانہ "بہار" کی راہ دیکھنے والے شامی عوام بنے -شامی عوام کے لئے اس کے سوا کوئی اورصورت نہ تھی کہ یاتو وہ ہتھیارباندھ کر کسی عسکری گروہ میں شامل ہوجائیں یا پھر اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ دیں-خانہ جنگی نے اس قدر تباہی برپا کی کہ َاڑھائی لاکھ افراد اپنی جان سے گئے اور چالیس لاکھ سے زائد افراد کومجبوراً ہجرت کرنا پڑی -اِس افراتفری میں جب خانہ جنگی انتہائی شِدّت اِختیار کر گئی اور اس کے اثرات فریقین تک پہنچنے لگے تو انہیں حالات کی سنگینی کااندازہ ہوا-جب لاکھوں شامی تارکین وطن یورپی ممالک کی سرحدوں پہ دستک دینے لگے اورشام کی خانہ جنگی کے شعلے یورپ کے شہروں میں بھڑکنے لگے تو انہیں اس کے حل کا خیال آیا -اس مقصد کے لئے ویانا میں اجلاس شروع ہوا -امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے کہا کہ شامی مسئلہ کے منفی اثرات پوری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں اوریہ مسئلہ جہنم کی طرف جانے والے راستوں میں سے ایک راستہ ہے،لیکن ’’بہت دیر کی مہربان آتے آتے‘‘-روس نے بھی صدر بشارالاسد کی حمایت کے سخت گیر مؤقف میں نرمی پیدا کی -ویانا مذاکرات میں جن نکات پہ اتفاق ہوا وہ یہ ہیں:
﴿۱﴾صدربشارالاسد کے حامیوں اور اپوزیشن گروپس کے درمیان شام میں فوری جنگ بندی کی بامعنی کوشش کی جائے -
﴿۲﴾چھ ماہ میں عبوری حکومت کاقیام عمل میںلایاجائے گا-اس مقصد کے لئے شامی حکومت اورحزبِ اختلاف کے مابین مذاکرات کاآغاز یکم جنوری کوہوگا-روسی وزیرخارجہ نے کہا کہ عنقریب محتاط شامی حزب اختلاف کے نمائندوں کے ناموں کی فہرست تیار کی جائے گی -
﴿۳﴾18ماہ میں آئینی اصلاحات کرنے سمیت اسی مدت میں اقوامِ متحدہ کے تعاون سے انتخابات کرواناجس میں شام کے تمام باشندوں کی شمولیت ہو -دونوں اَطراف نئے سیاسی سلسلے کی ابتدا کرنے کی دعوت دینا جو قابلِ یقین،جامع اورغیر مسلکی ہو-بلاشبہ یہ اعلامیہ مسئلہ شام کے بارے میں ایک بڑی پیش رفت ہے-خاص کر شام کے عوام کو مسلکی اورفرقہ وارانہ آگ سے بچانے کی کوشش غنیمت ہوگی-یہ عیاں ہوا کہ اگر عالمی طاقتیں خلوصِ نیت سے کسی تنازع کو حل کروانے کی کوشش کریں تو اس کا حل بہت حد تک ممکن ہو جاتا ہے لیکن ایسے میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا عالمی قوتیں واقعتاً نیک نیّتی سے یہ مسائل حل کرنا چاہتی ہیں یا پھر ’’دفعہ ٹرخانوے‘‘ لگا کر صرف شلجم سے مٹی اُتار رہی ہیں اور فقط مسائل کو اپنی سرحدوں سے دور رکھنا چاہتی ہیں؟ اگر شام اور عراق میں جنگ کے شُعلے نہ بجھائے جا سکے تو سارا مشرقِ وُسطیٰ ان کی لپیٹ میں آ سکتا ہے اور نہ ختم ہونے والی تاریک ترین جنگ شروع ہو جائے گی اور کئی نسلیں اسے بھگتیں گی - ویانا میں اتفاقِ رائے اس وقت ہوا جب یہ آگ یورپ کے دروازوں پہ پہنچتی ہوئی محسوس کی گئی اِسی لئے دُنیا ایسے عالمی نظام پہ اعتماد نہیں کرتی جس میں تیسری یا ترقی پذیر دُنیا کے مسائل تو ہمیشہ لٹکتے رہتے ہیں کوئی ذکر تک نہیں کرتا لیکن جب وہی مسائل مغربی قوّتوں سے بھی منسلک ہو جائیں تو ان کو حل کرنا فرضِ عین سمجھا جاتا ہے - اگر شام پہ ثالثی کی راہیں اتنی سنجیدگی سے ہموار ہوئیں تو کب آکے ؟ جنگ تو چار برس سے لگی ہوئی ہے -اِس لئے غریب اقوام اور ترقی پذیر دُنیا کے با شعور سیاسی طبقات کا یہ شُبہ خالی از حقیقت نہیں ہے کہ موجودہ عالمی نظام میں ہمارے لئے کوئی جگہ نہیں - اسی تناظر میں یہ سوال بجا ہے کہ کیا عالمی طاقتیں مسئلہ کشمیر پرپاکستان اوربھارت کے مابین ثالثی نہیں کرواسکتی ؟ حالانکہ مسئلہ کشمیر عالمی اَمن کے لئے بارُود کاڈھیر ہے-اِس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے اُن کو اس مسئلہ پہ ثالثی کاکردار اداکرنا چاہیے-کیونکہ بھارت پاکستان کو آئے روز کبھی کولڈ سٹارٹ ،کبھی ہاٹ سٹارٹ تو کبھی سرجیکل سٹرائیکس کی دھمکی دیتا ہے ، اگر شیو سینا یا آر ایس ایس وغیرہ بی جے پی کی ایما پہ کوئی شرارت کرتی ہیں تو ایٹمی جنگ بھی شروع ہو سکتی ہے - عالمی قوّتوں کی ذِمّہ داری ہے کہ اپنی انصاف پسندی کے دعویٰ کو سچ ثابت کریں اور موجودہ عالمی نظام کی خرابیوں کو دُور کریںتاکہ ترقی پذیر قوموں کا اِحساسِ محرومی دُور کیا جائے اور عالمی امن کو لاحق خطرات سے نمٹا جا سکے- ۤ