اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَآئٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ‘‘
’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں ہرگز مردہ خیال (بھی) نہ کرنا، بلکہ وہ اپنے ربّ کے حضور زندہ ہیں انہیں (جنت کی نعمتوں کا) رزق دیا جاتا ہے‘‘-(العمران:169)
رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللہِ (ﷺ) أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِيی‘‘
’’پس حضرت ابو بکر (صدیق ) نے کلام فرما یا اور ارشادفرمایااس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میر ی جا ن ہے ،رسول اللہ (ﷺ) کے قرابت داروں سے حسن سلوک میرے نزدیک اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک کرنے سے زیا دہ پسندید ہ ہے ‘‘-
(صحیح البخاری،با ب منا قب قرابۃ رسول الله(ﷺ) ومنقبۃ فاطمہ (رضی اللہ عنہما)بنت النبی ﷺ)
فرمان سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی (رحمتہ اللہ علیہ)
’’جناب رسول اللہ (ﷺ) سے مروی ہے کہ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کو عذاب نہیں دیتا لیکن آزمائش فرماتاہے-مومن اُس وقت ثابت قدم رہتا ہےکیونکہ اُسے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ضرور کسی مصلحت کی وجہ سے اسے تکلیف میں مبتلا فرماتا ہے-وہ (مصلحت)بعد میں حاصل ہوتی ہے خواہ دنیا میں ہو یا دین میں-پس وہ آزمائش سے راضی اور اس پرصابر رہتا ہے کہ اپنے اللہ عزوجل پر تہمت نہیں دھرتا -اے دنیا میں مشغول رہنے والو!ان مقامات میں گفتگو کرنا چھوڑ دو کیونکہ تم اپنی زبانوں سے گفتگو کرتے ہو نہ کہ اپنے دلوں سے-تم اللہ تعالیٰ، اس کے کلام، اس کے انبیاء کرام (رضی اللہ عنہ)اور انبیاء کرام کے سچے پیرو کاروں سےجو ان کے جانشین اور وصی ہیں سے منہ موڑنے والے ہو-تم جھگڑا کرنے والے ہو، مقدر سے اور قدرت سےاور تم خالق کی عطایا اور اس کے احسانات کو چھوڑ کر مخلوق کی عطایا پر اکتفا کربیٹھے ہو -نہ اللہ کے نزدیک اور نہ اس کے بندوں کے نزدیک تمہاری بات قابلِ سماعت ہے یہاں تک کہ تم اخلاص سے توبہ کرکے ثابت قدم رہو‘‘-(فتح الربانی)
فرمان سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ:
ہکی ہکی پیڑ کولوں کل عالم کوکےعاشقاں لکھ لکھ پیڑ سہیڑی ھو
جتھے ڈھہن رڑھن دا خطرہ ہووے کون چڑھے اس بیڑی ھو
عاشق چڑھدے نال صلاحاں دے اونہاں تار کپر وچ بھیڑی ھو
جتھے عاشق پیا تلدا نال رتیں دے باھوؒ اتھے عاشقاں لذت نکھیڑی ھو (ابیات باھو)
فرمان قائداعظم محمد علی جناح ؒ :
ایمان ، اتحاد، تنطیم
’’دنیا کا حلیہ نہایت تیزی سے تبدیل ہو رہاہے اور ہر قوم کی طرح سے ہمیں بھی ان مہیب خطرات کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا چاہیےجو ہمارے وجود کو للکار رہے ہیں-لہٰذا ہمیں حوصلے، سکون، خود اعتادی اور تحمل کے ساتھ وقت کی ان جملہ نزاکتوں اور سنگین حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے پوری طرح تیار رہنا چاہئے جو وقتاً فوقتاًپیش آئیں یا رونما ہوں‘‘-
(نیو دہلی، 21مارچ1942ء)
فرمان علامہ محمد اقبالؒ:
جینا وہ کیا جو ہو نفسِ غیر پر مدار
شہرت کی زندگی کا بھروسا بھی چھوڑ دے
شوخی سی ہے سوالِ مکررّ میں اے کلیم!
شرطِ رضا یہ ہے کہ تقاضا بھی چھوڑ دے (بانگِ درا)
’’وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَآئٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ‘‘
’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں ہرگز مردہ خیال (بھی) نہ کرنا، بلکہ وہ اپنے ربّ کے حضور زندہ ہیں انہیں (جنت کی نعمتوں کا) رزق دیا جاتا ہے‘‘-(العمران:169)