دستک

دستک

برما کے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم 

اگست 2017ء میں فوجی چھاؤنی پر حملہ کا بہانہ بنا کر میانمار(برما) کی فوج نے ریاست رکھائن(اراکان) میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف انتہائی سفاکانہ آپریشن شروع کیا - اطلاعات کے مطابق روہنگیا کے ہزاروں دیہات کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے اور کئی ہزار مکانات جلا دیئے گئے ہیں جبکہ بہت سے افراد ہلاک ہوئے ہیں-اگست کے آخری ہفتہ سے لیکر ستمبر کے وسط تک چار لاکھ سے زائد روہنگیا بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کر چکے ہیں جبکہ بنگلہ دیش میں پہلے ہی سے کئی لاکھ روہنگیا مہاجرین موجود ہیں-برمی حکومت کی جانب سے میڈیا کو آزادانہ طور پر کوریج کی اجازت نہیں دی جا رہی جس کے سبب خدشہ ہے کہ مظالم اور تباہی کا اصل سکیل اندازوں سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے-

برمامیں روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اب عالمی میڈیا پر چیدہ چیدہ نظر آنے لگے ہیں- مگر اب تک  ظلم کی یہ داستان بہت طویل اور خوفناک ہو چکی ہے-سوشل میڈیا اس مسئلہ پر وقتاً فوقتاً آواز اٹھاتا رہا ہے مگر عالمی برادری اب تک ان مظالم پر خاطر خواہ آواز نہیں اٹھا پائی ہے-رکھائن  سے تعلق رکھنے والے 12لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان اس علاقے میں نسل در نسل حتیٰ کہ  اکثر صدیوں سے آباد ہیں-محققین کے مطابق  مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کئی صدیاں قبل اس علاقے میں اس وقت آباد ہوئی تھی جب عرب تاجروں نے جنوب مشرقی ایشیا کا رخ کیا تھا-اس کے بعد بھی اس علاقے میں مسلمان آتے  رہے  حتیٰ کہ کئی صدیوں تک یہاں مسلمان حکمرانوں کی حکومت بھی قائم ہوئی-نو آبادیاتی دور کے دوران برما بھی برطانوی سامراج کے زیرِ تسلط آیا اور اسی دور میں برصغیر سے مزید مسلمان اس علاقے میں آباد ہوئے-برطانوی سامراجی حکومت میں  دوسری جنگ عظیم کے دوران مسلم اور بدھ مت کے پیروکاروں کے مابین  اختلافات نے جنم لیا-بعد ازاں 1948ء میں برما کی آزادی کے بعد بھی اختلافات جاری رہے مگر روہنگیا کو بڑی حد تک  برما میں تسلیم کیا گیا،انہیں ملک میں دیگر شہریوں کی طرح حقوق بھی دیئے گئے اور وہ ملکی سیاست کا حصہ بھی بنے- تاہم 1962ء میں جنرل نئے ونگ نے برمی حکومت کا تختہ الٹا اور اقتدار پر قابض ہوا جس سے روہنگیا پربرما کی زمین تنگ ہونے لگی-جنرل نئے ونگ نے روہنگیا  کو غیر ملکی قرار دیا-1977ء میں آپریشن ناگامن(Nagamin ) اور 1979ء میں شوی   ہنتھا (Shwe Hintha) کے ذریعے روہنگیا  کو ستایا جانے لگا جس کے باعث بہت سے باشندوں نے رکھائن سے ہجرت اختیار کی-

1982ء میں برما میں شہریت کا کالا قانون منظور ہوا جس کے تحت روہنگیا سے برما کی شہریت مکمل طور پر چھین لی گئی-ساتھ ہی ساتھ ان سے تعلیم،صحت، آزادانہ سفر، سرکاری نوکری، شادی، کاروبار، جائیداد اوراس طرح کے دیگر بنیادی انسانی حقوق بھی چھینے جانے لگےچنانچہ وہ اپنی ہی سر زمین پر بے وطنی اور کسم پرسی کی کیفیت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے-بہت سے افراد کو جبری مشقت میں جکڑا گیا جبکہ کئی ہزار انسانی سمگلروں کے ہتھے چڑھ گئے-ریاست کی جانب سے روہنگیا سے امتیازی سلوک کے باعث علاقے میں  فرقہ واریت میں بھی شدت آئی- 90 کی دہائی میں  بھی مظالم کا یہ سلسلہ نہیں رُکا اور  بڑے پیمانے پر روہنگیا وہاں سے ہجرت پر مجبور ہوئے اور دیگر ہمسائیہ ممالک میں پناہ لی-اقوامِ متحدہ کے دباؤ پر کچھ لوگ واپس آئے مگر ان کے ساتھ بھی سلوک اچھا نہ تھا آنے والی دہائی میں بھی  ان پر مظالم کا سلسلہ چلتا رہا-

2012ء میں ایک بار پھر روہنگیا پر مظالم تیز ہوئے جن کی گونج جو سوشل میڈیا کے ذریعے عالمی ایوانوں تک پہنچی-2014ء  میں برما نے مردم شماری میں روہنگیا کو برمی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور انہیں بنگالی قرار دیا گیا- 2015ء میں ایک بار پھر  لاکھوں روہنگیا  فرقہ وارانہ فسادات اور فوجی کارروائی کا نشانہ بنے-ہزاروں افراد کشتیوں میں کھلے سمندر کی لہروں کے رحم و کرم پر جبراً رکھائن سے بے دخل کئے گئے-ایسے میں سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں  اخبارات کی شہ سرخیاں بنیں اور عالمی میڈیا نے کچھ روز اس پر کوریج کی مگر عالمی برادری  ’’لپ سروس‘‘ تک ہی محدود رہی اور حالات جوں کے توں رہے-یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ  اگر یہی لاکھوں روہنگیا مہاجرین  مغربی ممالک کی جانب گئے ہوتے یا غیر مسلم ہوتے  تو یقیناً اس معاملہ پر بہت  واویلا ہو رہا ہوتا اور اس کے حل کیلئے سلامتی کونسل کے کئی اجلاس منعقد ہو چکے ہوتے-

روہنگیا پر مظالم کی حالیہ لہر میں  ہیومن رائٹس واچ نے 214 سے زائد دیہات کی مکمل تباہی کا انکشاف  کیا ہے اور برمی حکومت پر پابندیاں لگانے اور ہتھیاروں کی سپلائی منقطع کرنے کی تجویز دی ہے-اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے  کہ اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں عالمی برادری کو یہ مظالم روکنے کیلئے فوری طور پر حرکت میں آنا چاہیے اور برمی فوج پر واضح کرنا چاہیے کہ وہ ان مظالم کی قیمت چکائے گی-میانمار کی امن نوبل انعام یافتہ لیڈر’’ آنگ سانگ سوچی‘‘ روہنگیا کے معاملہ میں مجرمانہ طور پر خاموش تماشائی بنی رہی ہیں بلکہ الٹا فوجی آپریشن کی حمایت کرنے پر  عالمی حلقوں کی جانب سے تنقید کی زد میں ہیں-سوچی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنا شیڈول شدہ خطاب بھی ملتوی کر دیا ہے- ماہرین کے مطابق وہ روہنگیا کے معاملہ پر عالمی برادری کے سامنے بات نہیں کرنا چاہ  رہیں-روہنگیا پر مظالم کے متعلق  اقوام متحدہ کی کچھ رپورٹس بھی شائع ہو چکی ہیں اور اس ضمن میں  انسانیت کے خلاف سنگین جرائم  کی تنبیہ کی گئی ہے مگر ابھی تک یہ معاملہ سکیورٹی کونسل کے چیپٹر سات کے تحت زیرِ بحث نہیں آ سکا جو برما  کو عالمی قوانین کے اطلاق پر مجبور کرے اور روہنگیا کے حقوق کی ضمانت فراہم کر سکے-

 

گزشتہ چند عشروں میں دیکھا گیا ہے  کہ ایسے انسانیت سوز معاملات عالمی سیاست کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں- عالمی برادری کو یقینی بنانا چاہیے کہ کسی بھی قسم کی سیاست سے بالاتر ہو کر اپنا کردار ادا کرے تاکہ فوری طور پر روہنگیا کے خلاف برمی فوج کا جاری آپریشن معطل ہو اور بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں موجود روہنگیا مہاجرین کو خوراک ادویات اور رہائش جیسی بنیادی سہولیات میسر کی جائیں- تمام تر روہنگیا مہاجرین کو اپنے گھروں میں واپسی کی اجازت ملنی چاہیے جس کیلئے برمی حکومت پر دباؤ دیا جانا چاہیے کہ نسلوں سے آباد افراد کو وہاں کی شہریت اور دوسرے شہریوں کے برابر حقوق دیئے جائیں-اس سے بھی اہم قدم یہ ہے کہ روہنگیا کی نسل کشی اور ان پر مظالم میں ملوث افراد کے خلاف عالمی قوانین اور بالخصوص انسانیت کے خلاف جرائم(Crimes Against Humanity)  کے مقدمات چلائے جانے  چاہئیں اور ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ اس طرح کے واقعات کو روکا جا سکے-ساتھ ہی ساتھ برما میں بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے بڑے پیمانے پر آگاہی مہم اور پروگرامز کا انعقاد ہونا چاہیے تاکہ باہمی امن اور بھائی چارے کی فضا قائم ہو-تمام مسلم ممالک اور او آئی سی  پر بالخصوص بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے اپنا فعال کردار ادا کریں-حکومتِ پاکستان کو بھی  سفارتی و سیاسی وسائل بروئے کار لاکر جہاں تک ممکن ہو روہنگیا مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے کردار ادا کرنا چاہیے-

برما کے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم

اگست 2017ء میں فوجی چھاؤنی پر حملہ کا بہانہ بنا کر میانمار(برما) کی فوج نے ریاست رکھائن(اراکان) میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف انتہائی سفاکانہ آپریشن شروع کیا - اطلاعات کے مطابق روہنگیا کے ہزاروں دیہات کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے اور کئی ہزار مکانات جلا دیئے گئے ہیں جبکہ بہت سے افراد ہلاک ہوئے ہیں-اگست کے آخری ہفتہ سے لیکر ستمبر کے وسط تک چار لاکھ سے زائد روہنگیا بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کر چکے ہیں جبکہ بنگلہ دیش میں پہلے ہی سے کئی لاکھ روہنگیا مہاجرین موجود ہیں-برمی حکومت کی جانب سے میڈیا کو آزادانہ طور پر کوریج کی اجازت نہیں دی جا رہی جس کے سبب خدشہ ہے کہ مظالم اور تباہی کا اصل سکیل اندازوں سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے-

برمامیں روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اب عالمی میڈیا پر چیدہ چیدہ نظر آنے لگے ہیں- مگر اب تک  ظلم کی یہ داستان بہت طویل اور خوفناک ہو چکی ہے-سوشل میڈیا اس مسئلہ پر وقتاً فوقتاً آواز اٹھاتا رہا ہے مگر عالمی برادری اب تک ان مظالم پر خاطر خواہ آواز نہیں اٹھا پائی ہے-رکھائن  سے تعلق رکھنے والے 12لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان اس علاقے میں نسل در نسل حتیٰ کہ  اکثر صدیوں سے آباد ہیں-محققین کے مطابق  مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کئی صدیاں قبل اس علاقے میں اس وقت آباد ہوئی تھی جب عرب تاجروں نے جنوب مشرقی ایشیا کا رخ کیا تھا-اس کے بعد بھی اس علاقے میں مسلمان آتے  رہے  حتیٰ کہ کئی صدیوں تک یہاں مسلمان حکمرانوں کی حکومت بھی قائم ہوئی-نو آبادیاتی دور کے دوران برما بھی برطانوی سامراج کے زیرِ تسلط آیا اور اسی دور میں برصغیر سے مزید مسلمان اس علاقے میں آباد ہوئے-برطانوی سامراجی حکومت میں  دوسری جنگ عظیم کے دوران مسلم اور بدھ مت کے پیروکاروں کے مابین  اختلافات نے جنم لیا-بعد ازاں 1948ء میں برما کی آزادی کے بعد بھی اختلافات جاری رہے مگر روہنگیا کو بڑی حد تک  برما میں تسلیم کیا گیا،انہیں ملک میں دیگر شہریوں کی طرح حقوق بھی دیئے گئے اور وہ ملکی سیاست کا حصہ بھی بنے- تاہم 1962ء میں جنرل نئے ونگ نے برمی حکومت کا تختہ الٹا اور اقتدار پر قابض ہوا جس سے روہنگیا پربرما کی زمین تنگ ہونے لگی-جنرل نئے ونگ نے روہنگیا  کو غیر ملکی قرار دیا-1977ء میں آپریشن ناگامن(Nagamin) اور 1979ء میں شوی   ہنتھا (Shwe Hintha) کے ذریعے روہنگیا  کو ستایا جانے لگا جس کے باعث بہت سے باشندوں نے رکھائن سے ہجرت اختیار کی-

1982ء میں برما میں شہریت کا کالا قانون منظور ہوا جس کے تحت روہنگیا سے برما کی شہریت مکمل طور پر چھین لی گئی-ساتھ ہی ساتھ ان سے تعلیم،صحت، آزادانہ سفر، سرکاری نوکری، شادی، کاروبار، جائیداد اوراس طرح کے دیگر بنیادی انسانی حقوق بھی چھینے جانے لگےچنانچہ وہ اپنی ہی سر زمین پر بے وطنی اور کسم پرسی کی کیفیت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے-بہت سے افراد کو جبری مشقت میں جکڑا گیا جبکہ کئی ہزار انسانی سمگلروں کے ہتھے چڑھ گئے-ریاست کی جانب سے روہنگیا سے امتیازی سلوک کے باعث علاقے میں  فرقہ واریت میں بھی شدت آئی- 90 کی دہائی میں  بھی مظالم کا یہ سلسلہ نہیں رُکا اور  بڑے پیمانے پر روہنگیا وہاں سے ہجرت پر مجبور ہوئے اور دیگر ہمسائیہ ممالک میں پناہ لی-اقوامِ متحدہ کے دباؤ پر کچھ لوگ واپس آئے مگر ان کے ساتھ بھی سلوک اچھا نہ تھا آنے والی دہائی میں بھی  ان پر مظالم کا سلسلہ چلتا رہا-

2012ء میں ایک بار پھر روہنگیا پر مظالم تیز ہوئے جن کی گونج جو سوشل میڈیا کے ذریعے عالمی ایوانوں تک پہنچی-2014ء  میں برما نے مردم شماری میں روہنگیا کو برمی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور انہیں بنگالی قرار دیا گیا- 2015ء میں ایک بار پھر  لاکھوں روہنگیا  فرقہ وارانہ فسادات اور فوجی کارروائی کا نشانہ بنے-ہزاروں افراد کشتیوں میں کھلے سمندر کی لہروں کے رحم و کرم پر جبراً رکھائن سے بے دخل کئے گئے-ایسے میں سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں  اخبارات کی شہ سرخیاں بنیں اور عالمی میڈیا نے کچھ روز اس پر کوریج کی مگر عالمی برادری  ’’لپ سروس‘‘ تک ہی محدود رہی اور حالات جوں کے توں رہے-یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ  اگر یہی لاکھوں روہنگیا مہاجرین  مغربی ممالک کی جانب گئے ہوتے یا غیر مسلم ہوتے  تو یقیناً اس معاملہ پر بہت  واویلا ہو رہا ہوتا اور اس کے حل کیلئے سلامتی کونسل کے کئی اجلاس منعقد ہو چکے ہوتے-

روہنگیا پر مظالم کی حالیہ لہر میں  ہیومن رائٹس واچ نے 214 سے زائد دیہات کی مکمل تباہی کا انکشاف  کیا ہے اور برمی حکومت پر پابندیاں لگانے اور ہتھیاروں کی سپلائی منقطع کرنے کی تجویز دی ہے-اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے  کہ اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں عالمی برادری کو یہ مظالم روکنے کیلئے فوری طور پر حرکت میں آنا چاہیے اور برمی فوج پر واضح کرنا چاہیے کہ وہ ان مظالم کی قیمت چکائے گی-میانمار کی امن نوبل انعام یافتہ لیڈر’’ آنگ سانگ سوچی‘‘ روہنگیا کے معاملہ میں مجرمانہ طور پر خاموش تماشائی بنی رہی ہیں بلکہ الٹا فوجی آپریشن کی حمایت کرنے پر  عالمی حلقوں کی جانب سے تنقید کی زد میں ہیں-سوچی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنا شیڈول شدہ خطاب بھی ملتوی کر دیا ہے- ماہرین کے مطابق وہ روہنگیا کے معاملہ پر عالمی برادری کے سامنے بات نہیں کرنا چاہ  رہیں-روہنگیا پر مظالم کے متعلق  اقوام متحدہ کی کچھ رپورٹس بھی شائع ہو چکی ہیں اور اس ضمن میں  انسانیت کے خلاف سنگین جرائم  کی تنبیہ کی گئی ہے مگر ابھی تک یہ معاملہ سکیورٹی کونسل کے چیپٹر سات کے تحت زیرِ بحث نہیں آ سکا جو برما  کو عالمی قوانین کے اطلاق پر مجبور کرے اور روہنگیا کے حقوق کی ضمانت فراہم کر سکے-

گزشتہ چند عشروں میں دیکھا گیا ہے  کہ ایسے انسانیت سوز معاملات عالمی سیاست کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں- عالمی برادری کو یقینی بنانا چاہیے کہ کسی بھی قسم کی سیاست سے بالاتر ہو کر اپنا کردار ادا کرے تاکہ فوری طور پر روہنگیا کے خلاف برمی فوج کا جاری آپریشن معطل ہو اور بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں موجود روہنگیا مہاجرین کو خوراک ادویات اور رہائش جیسی بنیادی سہولیات میسر کی جائیں- تمام تر روہنگیا مہاجرین کو اپنے گھروں میں واپسی کی اجازت ملنی چاہیے جس کیلئے برمی حکومت پر دباؤ دیا جانا چاہیے کہ نسلوں سے آباد افراد کو وہاں کی شہریت اور دوسرے شہریوں کے برابر حقوق دیئے جائیں-اس سے بھی اہم قدم یہ ہے کہ روہنگیا کی نسل کشی اور ان پر مظالم میں ملوث افراد کے خلاف عالمی قوانین اور بالخصوص انسانیت کے خلاف جرائم(Crimes Against Humanity)  کے مقدمات چلائے جانے  چاہئیں اور ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ اس طرح کے واقعات کو روکا جا سکے-ساتھ ہی ساتھ برما میں بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے بڑے پیمانے پر آگاہی مہم اور پروگرامز کا انعقاد ہونا چاہیے تاکہ باہمی امن اور بھائی چارے کی فضا قائم ہو-تمام مسلم ممالک اور او آئی سی  پر بالخصوص بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے اپنا فعال کردار ادا کریں-حکومتِ پاکستان کو بھی  سفارتی و سیاسی وسائل بروئے کار لاکر جہاں تک ممکن ہو روہنگیا مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے کردار ادا کرنا چاہیے-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر