عصرِ حاضر میں ترویجِ فکرِ اقبال کی ضرورت
اقوام کی زندگی،ارتقاء، بقااور تسلسل کی پشت پر کوئی نہ کوئی غیر معمولی فلسفہ کار فرما ہوتا ہے اور اقبال کی فکر و فلسفہ قیام پاکستان کی اساس ہے-اقبال نے متاثر کن فلسفیانہ دلائل سے دو بڑے سامراجوں کو شکست دے کر پاکستان کا حصول ممکن بنایا جسے قائد اعظم نےان الفاظ میں بیان کیا کہ ’’ہر عظیم تحریک کی پشت پر ایک فلسفی کار فرما ہوتا ہے اور اقبال مسلمانانِ ہند کے قومی نشاۃ ِ ثانیۃ کا فلاسفر تھا-اقبال کی گراں قدر جامع اور قیمتی میراث نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر اقوامِ عالم کیلئے بھی مشعلِ ر اہ ہیں‘‘-مگر بدقسمتی سے ہماری قومی زندگی، ہمارا ملکی نظام اور اجتماعی اسلوبِ فکر و عمل فکرِ اقبال سے کوسوں دور ہےکیونکہ ہم نے اپنی نسل ِ نوکو کبھی ایک مربوط اور منظم انداز میں فلسفۂ اقبال سے روشناس کروانے کی سنجیدہ سعی ہی نہیں کی- عہدِ جدید میں درپیش مسائل اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی نوجوان نسل کی تربیت اپنے بنیادی نظریات و عقائد کی روشنی میں کرنی چاہیےجو کہ فکر و فلسفہ اقبال کی تشہیر و تعلیم سے بآ سانی ممکن ہے -
اکثر ناقدین کبھی اپنی منفعل اورمرعوب ذہنیت کی بنا پر فلسفہ اقبال کی تخلیقی جہت کو پس پشت ڈال دیتے ہیں تو کبھی اس کی ارتباطی جہت کو نا سمجھ سکنے کے باعث اس کا سراغ نٹشے اور برگسان وغیرہ سے لگانا چاہتے ہیں ا س کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے نزدیک یہ آفاقی بادۂ برحق مشرق کے کسی میکدہ کی کیونکر ہو سکتی ہے- درحقیقت علامہ اقبال کا اسلوبِ تربیت، ان کی اپنی شخصیت اور فکرو فلسفہ بیان کرتے ہیں کہ آپ کی فکر وفلسفہ اور نظریہ حیات کا مآخذ و مصدر قرآن و سنت ہے-یعنی اقبال کا فلسفہ اپنے مصدر اور مآخذ کے اعتبار سے مسلم روایات سے منسلک ہے-کہتے ہیں کہ صدق اگر باطنِ صادق سے نکلے تو اسے اپنی صداقت کے ثبوت کیلئے کسی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں ہوتی اور شاید یہی وجہ ہے کہ فکرِ اقبال زندہ ہے اور تند و تیز بادِ مخالف کے باوجود ہمیں ایک صدی بعد بھی رہنمائی فراہم کرتی ہے-
جس طرح ملکِ خداد ادکی نظریاتی سرحدوں پر دشمنانِ پاکستان سازشیں کر رہے ہیں حالات کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے اور اپنی فلسفیانہ و نظریاتی بنیادوں کو مستحکم کرنے اور دشمنانِ پاکستان کی تمام سازشوں کو ناکام کرنے کی ضرورت ہے-درحقیقت اقبال کے فلسفہ کو سمجھنے اور اس کی عمرانی تعبیر کیلئے ایک ایسے ہمہ گیر ذہن کی ضرورت ہےجو اصل اقبال کو تحقیق سے منکشف کرے اور روایتی تراجم، تدوین و توضیحات کی بجائے حقیقی خزانہ اقبال کو فلسفیانہ نظام میں متحقق کرے-لہذا اقبال کے فلسفہ اور دیگر سیاسی تصورات و نظریات پر جدید تقاضوں کے مطابق تحقیق و تفہیم کیلئے مختلف سرکاری و نجی جامعات میں اقبالیات کیلئے مخصوص/ تحقیقی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہےتاکہ تعلیمات اقبال کے فہم کو عام کیا جائے جس سے حقیقی معنوں میں اقبال کے پاکستان کا حصول ممکن ہو سکے- اقبال کی فکر اور فلسفہ کو ہمارے قومی نصاب کا مستقل حصہ قرار دیا جانا چاہیے کیونکہ ہماری قومی، ملی اور سماجی اساس اِنہی اصولوں پر قائم ہے اور ان پر مضبوطی سے کاربند ہوئے بغیر استحکام و ارتقا ء ناممکن ہے -
گزشتہ صدی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ مسلم دنیا کو ملوکیت و کلیسا نواز، فرقہ ساز آذروں نے بے انتہا نقصان پہنچایا ہے-علامہ اقبال نے اسی لئے اس بات پر بہت زور دیا کہ ہمیں ان بتوں سے اپنا دامن بچا کرغبار راہ حجاز ہونا چاہیے اور اسی میں ہماری آفیت ہے- دشمنانِ اسلام فرقہ واریت کا لبادہ اوڑھے اس ملتِ خداداد کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں-دشمنانِ اسلام کی ان سازشوں کا ادراک اقبال بخوبی رکھتے تھے اور امت مسلمہ کو بارہا یہ تعلیم و تلقین کرتے رہے کہ شرق و غرب کا ہر مسلمان ایک ہی وجود کا حصہ ہے-آج مشرق وسطیٰ سمیت تمام اسلامی دنیا کو درپیش مسائل میں فرقہ واریت اورپھر اس میں شدت پسندی وہ کینسر ہے جو اس پاک وجود کی جان قبض کرنے پر ڈٹا ہوا ہے- کبھی ہم اس کینسر میں مبتلا ہوتے ہیں اور کبھی اسلام کے حسین تصورِ واحدانیت کو چھوڑ کر محض جغرافیائی وطنیت کے شکنجے میں جکڑے جاتے ہیں-علامہ نے اپنی تحریر ’’اسلام اور قومیت‘‘ میں اسلام کے بنیادی نظریات کی روشنی میں مسلم قوم کے اجتماعی وجود کا تعین کر کے واضح کر دیا کہ ملتِ اسلامیہ وہ ملت ہے جس میں زمان و مکان، زبان ،نسب و قبیلہ، رنگ و نسل ، وطن اور اس طرح کے ہزارہا پہلوؤں سے بالاتر ہو کر تمام افراد و گروہ یکجان و یک وجود ہوجاتے ہیں کہ ملت یا امت اقوام میں جذب نہیں ہو سکتی بلکہ اقوام ملت میں ضم ہو جاتی ہیں-چنانچہ تمام باطل تصورات سے چھٹکارا فکرِ اقبال نے جدید پیرائے میں دیا ہے اور اس فکر کو ہمیں بالآخر اپنانا ہی ہو گاکہ قومیت کا اسلامی تصور دوسری اقوام کے تصور سے بالکل مختلف ہےاور ہماری قومیت کا اصول مشترک زبان ،مشترک وطن اور اشتراک اغراض اقتصادی نہیں بلکہ ہم سب اس برادری کا حصہ ہیں جو جناب سرور کائنات رسالت مآب (ﷺ)نے قائم فرمائی ہے اور اپنے آپ کو اس میں ضم کئے بنا ہماری بقا پر ہمیشہ سوالیہ نشان ہی رہے گا-
اس دورِ نازک میں اقبال کی تعلیمات اور فکر و فلسفہ کو عملی جامہ پہنانا ہو گا تاکہ عالم اسلام اپنے اوج ثریا پر دوبارہ جلوہ افروز ہو سکے-اقبال کی تمنا اور آرزو کے مطابق ملتِ مرحومہ کو اپنے ماضی کے سنہری دور کی یاد تازہ کر کے اور اسی کا آئینہ سامنے رکھ کر اپنے مستقبل کو کامیابی سے ہمکنار کرنا چاہیئے -
عصرِ حاضر میں ترویجِ فکرِ اقبال کی ضرورت
اقوام کی زندگی،ارتقاء، بقااور تسلسل کی پشت پر کوئی نہ کوئی غیر معمولی فلسفہ کار فرما ہوتا ہے اور اقبال کی فکر و فلسفہ قیام پاکستان کی اساس ہے-اقبال نے متاثر کن فلسفیانہ دلائل سے دو بڑے سامراجوں کو شکست دے کر پاکستان کا حصول ممکن بنایا جسے قائد اعظم نےان الفاظ میں بیان کیا کہ ’’ہر عظیم تحریک کی پشت پر ایک فلسفی کار فرما ہوتا ہے اور اقبال مسلمانانِ ہند کے قومی نشاۃ ِ ثانیۃ کا فلاسفر تھا-اقبال کی گراں قدر جامع اور قیمتی میراث نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر اقوامِ عالم کیلئے بھی مشعلِ ر اہ ہیں‘‘-مگر بدقسمتی سے ہماری قومی زندگی، ہمارا ملکی نظام اور اجتماعی اسلوبِ فکر و عمل فکرِ اقبال سے کوسوں دور ہےکیونکہ ہم نے اپنی نسل ِ نوکو کبھی ایک مربوط اور منظم انداز میں فلسفۂ اقبال سے روشناس کروانے کی سنجیدہ سعی ہی نہیں کی- عہدِ جدید میں درپیش مسائل اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی نوجوان نسل کی تربیت اپنے بنیادی نظریات و عقائد کی روشنی میں کرنی چاہیےجو کہ فکر و فلسفہ اقبال کی تشہیر و تعلیم سے بآ سانی ممکن ہے -
اکثر ناقدین کبھی اپنی منفعل اورمرعوب ذہنیت کی بنا پر فلسفہ اقبال کی تخلیقی جہت کو پس پشت ڈال دیتے ہیں تو کبھی اس کی ارتباطی جہت کو نا سمجھ سکنے کے باعث اس کا سراغ نٹشے اور برگسان وغیرہ سے لگانا چاہتے ہیں ا س کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے نزدیک یہ آفاقی بادۂ برحق مشرق کے کسی میکدہ کی کیونکر ہو سکتی ہے- درحقیقت علامہ اقبال کا اسلوبِ تربیت، ان کی اپنی شخصیت اور فکرو فلسفہ بیان کرتے ہیں کہ آپ کی فکر وفلسفہ اور نظریہ حیات کا مآخذ و مصدر قرآن و سنت ہے-یعنی اقبال کا فلسفہ اپنے مصدر اور مآخذ کے اعتبار سے مسلم روایات سے منسلک ہے-کہتے ہیں کہ صدق اگر باطنِ صادق سے نکلے تو اسے اپنی صداقت کے ثبوت کیلئے کسی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں ہوتی اور شاید یہی وجہ ہے کہ فکرِ اقبال زندہ ہے اور تند و تیز بادِ مخالف کے باوجود ہمیں ایک صدی بعد بھی رہنمائی فراہم کرتی ہے-
جس طرح ملکِ خداد ادکی نظریاتی سرحدوں پر دشمنانِ پاکستان سازشیں کر رہے ہیں حالات کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے اور اپنی فلسفیانہ و نظریاتی بنیادوں کو مستحکم کرنے اور دشمنانِ پاکستان کی تمام سازشوں کو ناکام کرنے کی ضرورت ہے-درحقیقت اقبال کے فلسفہ کو سمجھنے اور اس کی عمرانی تعبیر کیلئے ایک ایسے ہمہ گیر ذہن کی ضرورت ہےجو اصل اقبال کو تحقیق سے منکشف کرے اور روایتی تراجم، تدوین و توضیحات کی بجائے حقیقی خزانہ اقبال کو فلسفیانہ نظام میں متحقق کرے-لہذا اقبال کے فلسفہ اور دیگر سیاسی تصورات و نظریات پر جدید تقاضوں کے مطابق تحقیق و تفہیم کیلئے مختلف سرکاری و نجی جامعات میں اقبالیات کیلئے مخصوص/ تحقیقی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہےتاکہ تعلیمات اقبال کے فہم کو عام کیا جائے جس سے حقیقی معنوں میں اقبال کے پاکستان کا حصول ممکن ہو سکے- اقبال کی فکر اور فلسفہ کو ہمارے قومی نصاب کا مستقل حصہ قرار دیا جانا چاہیے کیونکہ ہماری قومی، ملی اور سماجی اساس اِنہی اصولوں پر قائم ہے اور ان پر مضبوطی سے کاربند ہوئے بغیر استحکام و ارتقا ء ناممکن ہے -
گزشتہ صدی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ مسلم دنیا کو ملوکیت و کلیسا نواز، فرقہ ساز آذروں نے بے انتہا نقصان پہنچایا ہے-علامہ اقبال نے اسی لئے اس بات پر بہت زور دیا کہ ہمیں ان بتوں سے اپنا دامن بچا کرغبار راہ حجاز ہونا چاہیے اور اسی میں ہماری آفیت ہے- دشمنانِ اسلام فرقہ واریت کا لبادہ اوڑھے اس ملتِ خداداد کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں-دشمنانِ اسلام کی ان سازشوں کا ادراک اقبال بخوبی رکھتے تھے اور امت مسلمہ کو بارہا یہ تعلیم و تلقین کرتے رہے کہ شرق و غرب کا ہر مسلمان ایک ہی وجود کا حصہ ہے-آج مشرق وسطیٰ سمیت تمام اسلامی دنیا کو درپیش مسائل میں فرقہ واریت اورپھر اس میں شدت پسندی وہ کینسر ہے جو اس پاک وجود کی جان قبض کرنے پر ڈٹا ہوا ہے- کبھی ہم اس کینسر میں مبتلا ہوتے ہیں اور کبھی اسلام کے حسین تصورِ واحدانیت کو چھوڑ کر محض جغرافیائی وطنیت کے شکنجے میں جکڑے جاتے ہیں-علامہ نے اپنی تحریر ’’اسلام اور قومیت‘‘ میں اسلام کے بنیادی نظریات کی روشنی میں مسلم قوم کے اجتماعی وجود کا تعین کر کے واضح کر دیا کہ ملتِ اسلامیہ وہ ملت ہے جس میں زمان و مکان، زبان ،نسب و قبیلہ، رنگ و نسل ، وطن اور اس طرح کے ہزارہا پہلوؤں سے بالاتر ہو کر تمام افراد و گروہ یکجان و یک وجود ہوجاتے ہیں کہ ملت یا امت اقوام میں جذب نہیں ہو سکتی بلکہ اقوام ملت میں ضم ہو جاتی ہیں-چنانچہ تمام باطل تصورات سے چھٹکارا فکرِ اقبال نے جدید پیرائے میں دیا ہے اور اس فکر کو ہمیں بالآخر اپنانا ہی ہو گاکہ قومیت کا اسلامی تصور دوسری اقوام کے تصور سے بالکل مختلف ہےاور ہماری قومیت کا اصول مشترک زبان ،مشترک وطن اور اشتراک اغراض اقتصادی نہیں بلکہ ہم سب اس برادری کا حصہ ہیں جو جناب سرور کائنات رسالت مآب (ﷺ)نے قائم فرمائی ہے اور اپنے آپ کو اس میں ضم کئے بنا ہماری بقا پر ہمیشہ سوالیہ نشان ہی رہے گا-
اس دورِ نازک میں اقبال کی تعلیمات اور فکر و فلسفہ کو عملی جامہ پہنانا ہو گا تاکہ عالم اسلام اپنے اوج ثریا پر دوبارہ جلوہ افروز ہو سکے-اقبال کی تمنا اور آرزو کے مطابق ملتِ مرحومہ کو اپنے ماضی کے سنہری دور کی یاد تازہ کر کے اور اسی کا آئینہ سامنے رکھ کر اپنے مستقبل کو کامیابی سے ہمکنار کرنا چاہیئے -