ختم نبوت:شرفِ رسالتِ محمدی (ﷺ)کا نمایاں پہلو
’’خاتم النبیین‘‘ ہونا حضور نبی کریم (ﷺ) کا ایسا وصف ہے جو تمام کمالات ِ نبوت و رسالت میں آپ (ﷺ) کی اعلیٰ خصوصیت اور فضلیت کونمایاں کرتا ہے- عقیدہ ختم نبوت دین اسلام میں مرکز و محور کی حیثیت رکھتا ہے اور اگر اسی میں دراڑ پیدا ہو جائے تو عقیدہ نبوت و رسالت بھی باقی نہیں رہتا اور جب عقیدہ نبوت ورسالت ہی باقی نہ رہے توعقیدہ توحید’’چہ معنی دارد‘‘؟ یعنی اگر اولاالذکرمحفوظ نہ ہو تو نہ عقیدہ توحیدمحفوظ،نہ عقیدہ نبوت و رسالت محفوظ-
نبوت سراسر بارگاہِ خداوندی کی عطا ہے اور ایک منصبِ خاص ہے جس پرمخصوص ضرورت و مقصد کے پیشِ نظر اللہ تعالیٰ کسی برگزیدہ ہستی کو فائز فرماتا ہے- اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لیے انبیاء (علیہم السلام) کو مختلف زمان و مکاں میں مبعوث فرمایا اور بعض انبیاء (علیہم السلام) کو کتابیں عطا فرمائیں، توکچھ کو صحائف اور اپنے شرفِ تکلم سےنوازکراپنا پیغام نسلِ انسانی تک پہنچایا- حتیٰ کہ خاتم النبیین ختم المرسلین حضرت محمد مصطفےٰ(ﷺ) کی بعثت ِ مبارکہ کا زمانہ آپہنچا- اللہ رب العزت نے آپ (ﷺ) پر دین کی تکمیل فرما کر آپ (ﷺ) کی بعثت کے بعد سلسلہ نبوت ورسالت کو ہمیشہ کیلئے ختم کردیا اور رہتی دنیا کے لئے ہدایت و رہنمائی قرآن کریم اور آپ(ﷺ) کی سیرت مبارکہ کو قرار دیا- حضور نبی کریم (ﷺ) نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے ایک لاکھ سے زائد جانثاروں کو ارشاد فرمایا:الا ھل بلغت؟’’(اے میرے صحابہ!) کیا میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچادیا ہے ‘‘بعض روایات میں آپ (ﷺ) نے یہی کلمات تائیداََتین مرتبہ ارشاد فرمائے-صحابہ کرام فرماتےہیں کہ:’’قلنا‘‘: ہم نے عرض کیا:’’نعم‘‘ جی ہاں یا رسول اللہ (ﷺ) آپ (ﷺ)نے اللہ کا پیغام پہنچادیا ہے-اس کے بعد آپ (ﷺ) نے مالک حقیقی سے عرض کی:’’اللھم اشہد‘‘ اے میرے اللہ گواہ ہوجا (کہ میں نے تیرا پیغام پہنچادیا ہے) [1]-حضور نبی کریم (ﷺ) نے پیغامِ حق پہنچادیا جیسا کہ پہنچانے کا حق تھا اوریوں اتمامِ حجت اپنی تکمیل کو پہنچا- آپ (ﷺ) کی بعثت سے دینِ اسلام کامل شکل میں پہنچ گیا- دین ِ ابراہیمی کی تکمیل ہوئی اور اسلام کو بطور دین پسند کر لیا[2]- تکمیل ِدین کا مطلب ہے کہ یہ دین اب قیامت تک جاری رہے گا اس میں کسی ترمیم یا اضافہ کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے اور جب دین مکمل شکل میں پہنچ چکا ہے تو انبیاء (علیہم السلام) کی بعثت کا سلسلہ بھی مکمل ہو چکا ہے- خود خالق کائنات نے حضور نبی کریم(ﷺ) کے خاتم النبیین ہونے پر مُہر ِتصدیق ثبت کرتے ہوئے ارشادفرمایا:
’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَـآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ وَکَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا‘‘[3] |
|
’’محمد(ﷺ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے‘‘- |
آپ (ﷺ) نے تکمیلیت ِنبوت اور اپنے خاتم النبیین ہونے کو ان الفاظ میں بیان فرمایا:
’’بے شک سلسلہ نبوت و رسالت منقطع ہوچکا ہے سو میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا اور نہ کوئی نبی‘‘-
عقیدہ ختم نبوت کی حقانیت قرآن مجید کی درجنوں آیاتِ مبارکہ اور سینکڑوں احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتی ہے-قرآن مجید کی یہ آیت کریمہ بھی عقیدہ ختم نبوت پردلیل ہے:
’’وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَج وَبِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَ‘‘[4] |
|
’’اور وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترا اور آخرت پر یقین رکھیں‘‘- |
چنانچہ واضح ہوتاہے کہ آپ (ﷺ) پر نازل ہونےوالی اور سابقہ انبیاء (علیہم السلام) پر نازل ہونے والی وحی پر ایمان لانا ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے اگر آپ (ﷺ) کے بعد وحی کا نزول کسی طور بھی ممکن ہوتا تو اس پر ایمان لانا بھی ضروری قرار دیا جاتا چنانچہ سیدنا احمد مجتبیٰ (ﷺ) کے بعد نزول وحی کا سلسلہ بھی ختم ہوچکا اور آپ (ﷺ) پر نبوت کا اتمام ہوگیا- اب اگر آپ (ﷺ) کے بعد کوئی بھی شخص نبوت یا وحی الٰہی کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ راہزن و زندیق ہے- حضرت سلطان باھُو قدس سرہ العزیز اپنی کتاب ’’کلید التوحید کلاں‘‘میں عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’جان لے کہ مندرجہ ذیل چھ مراتب تک کوئی نہیں پہنچ سکتا اگر ان مراتب تک پہنچنے کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ کاذب و ساحر و کافر و صاحب استدراج مرتد ہے اور ان چھ میں سے ایک یہ ہے کہ حضورعلیہ الصلوۃ و السلام خاتم النبیین ہیں آپ(ﷺ) کے بعد کسی اور پر وحی نازل نہیں ہو سکتی ‘‘-
آپ(ﷺ) نے اپنی امت کو ان کذابوں کی بھی خبر دی جو نبوت کا جھوٹا دعویٰ کریں گے- حضور نبی کریم(ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’میری امت میں تیس کذاب(جھوٹے) پیدا ہوں گے ان میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے(سن لو!)میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا‘‘-[5]
جنگِ یمامہ تاریخ ِاسلام کے عظیم ترین معرکوں میں شمار ہوتی ہے-یمامہ کے مقام پر مسلمہ کذاب 40000 کا لشکر لےکر میدان میں اترا-اس کی سرکوبی کے لئے نائبِ رسول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے 13000کا لشکر روانہ فرما کر اسے منطقی انجام تک پہنچایا- اس جنگ میں جتنے مسلمان شہید ہوئے اتنے اس سےقبل تاریخِ اسلام میں وقوع پذیر معرکوں میں بھی شہید نہیں ہوئے تھے- صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے دل و دماغ میں عقیدہ ختمِ نبوت کی حساسیت اور اہمیت کا اندازہ جنگِ یمامہ سے بخوبی ہو جاتا ہے- علامہ ابن کثیر تفسیر ابن کثیر میں لکھتے ہیں :
’’ حضرت حبیب بن زید انصاری سے مسلمہ کذاب نے پوچھا کہ ’’اتشھد ان محمدا رسول اللہ‘‘، ’’کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں‘‘ تو فرمایا، ’’نعم‘‘، ’ہاں‘‘ پھر اس نے کہا : ’’اتشھدانی رسول اللہ؟‘‘، ’’کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں‘‘-آپ نے فرمایا: ’’لا اسمع ، ’’میں نہیں سنتا‘‘، اس جواب پراس ظالم نے یہ ردِعمل دکھایا’’فلم یزل یقطعہ إرباإربا‘‘،، ’’اس پر اس ظالم نے آپ کے جسم کا ایک ایک عضو کاٹ دیا‘‘-(یعنی ایک عضو کاٹتا پھر پوچھتا کہ مجھے نبی مانتے ہوجب جواب نفی میں آتا پھر دوسرا عضو کاٹ دیتا پھر پوچھتا پھر جواب نفی میں سن کر تیسرا عضو کاٹ دیتا اسی طرح سارا جسم کاٹ دیا) لیکن ’’وھو ثابت علی ذلک‘‘اس کے باوجود آپؓ ایمان پر ثابت قدم رہے‘‘-[6]
مذکورہ روایات سے اس امر کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ عقیدہ ختمِ نبوت دینِ اسلام کا بنیادی جزو ہے- مختلف ادوار میں بہت سے بدبختوں نے نبوت کے جھوٹے دعوے کیے لیکن مسلمانوں کی غیرتِ ایمانی نے اُن کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملایا اور اس طرح کی ہر سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا- مسلمانوں نے عقیدہ ختمِ نبوت پر نہ تو پہلے کوئی سمجھوتہ کیا ہے اور ہی اب کر سکتے ہیں-
[1](صحیح البخاری، کتاب الفتن)
[2](المائدہ:3)
[3](الاحزاب:40)
[4](البقرۃ:4)
[5] (سنن ترمذی، کتاب الفتن)
[6](تفسیر ابنِ کثیر، تفسیر سورۃ النمل، زیر آیت:106)
ختم نبوت:شرفِ رسالتِ محمدی (ﷺ)کا نمایاں پہلو
’’خاتم النبیین‘‘ ہونا حضور نبی کریم (ﷺ) کا ایسا وصف ہے جو تمام کمالات ِ نبوت و رسالت میں آپ (ﷺ) کی اعلیٰ خصوصیت اور فضلیت کونمایاں کرتا ہے- عقیدہ ختم نبوت دین اسلام میں مرکز و محور کی حیثیت رکھتا ہے اور اگر اسی میں دراڑ پیدا ہو جائے تو عقیدہ نبوت و رسالت بھی باقی نہیں رہتا اور جب عقیدہ نبوت ورسالت ہی باقی نہ رہے توعقیدہ توحید’’چہ معنی دارد‘‘؟ یعنی اگر اولاالذکرمحفوظ نہ ہو تو نہ عقیدہ توحیدمحفوظ،نہ عقیدہ نبوت و رسالت محفوظ-
نبوت سراسر بارگاہِ خداوندی کی عطا ہے اور ایک منصبِ خاص ہے جس پرمخصوص ضرورت و مقصد کے پیشِ نظر اللہ تعالیٰ کسی برگزیدہ ہستی کو فائز فرماتا ہے- اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لیے انبیاء () کو مختلف زمان و مکاں میں مبعوث فرمایا اور بعض انبیاء () کو کتابیں عطا فرمائیں، توکچھ کو صحائف اور اپنے شرفِ تکلم سےنوازکراپنا پیغام نسلِ انسانی تک پہنچایا- حتیٰ کہ خاتم النبیین ختم المرسلین حضرت محمد مصطفےٰ(ﷺ) کی بعثت ِ مبارکہ کا زمانہ آپہنچا- اللہ رب العزت نے آپ (ﷺ) پر دین کی تکمیل فرما کر آپ (ﷺ) کی بعثت کے بعد سلسلہ نبوت ورسالت کو ہمیشہ کیلئے ختم کردیا اور رہتی دنیا کے لئے ہدایت و رہنمائی قرآن کریم اور آپ(ﷺ) کی سیرت مبارکہ کو قرار دیا- حضور نبی کریم (ﷺ) نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے ایک لاکھ سے زائد جانثاروں کو ارشاد فرمایا:الا ھل بلغت؟’’(اے میرے صحابہ!) کیا میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچادیا ہے ‘‘بعض روایات میں آپ (ﷺ) نے یہی کلمات تائیداََتین مرتبہ ارشاد فرمائے-صحابہ کرام فرماتےہیں کہ:’’قلنا‘‘: ہم نے عرض کیا:’’نعم‘‘ جی ہاں یا رسول اللہ (ﷺ) آپ (ﷺ)نے اللہ کا پیغام پہنچادیا ہے-اس کے بعد آپ (ﷺ) نے مالک حقیقی سے عرض کی:’’اللھم اشہد‘‘ اے میرے اللہ گواہ ہوجا (کہ میں نے تیرا پیغام پہنچادیا ہے) [1]-حضور نبی کریم (ﷺ) نے پیغامِ حق پہنچادیا جیسا کہ پہنچانے کا حق تھا اوریوں اتمامِ حجت اپنی تکمیل کو پہنچا- آپ (ﷺ) کی بعثت سے دینِ اسلام کامل شکل میں پہنچ گیا- دین ِ ابراہیمی کی تکمیل ہوئی اور اسلام کو بطور دین پسند کر لیا[2]- تکمیل ِدین کا مطلب ہے کہ یہ دین اب قیامت تک جاری رہے گا اس میں کسی ترمیم یا اضافہ کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے اور جب دین مکمل شکل میں پہنچ چکا ہے تو انبیاء () کی بعثت کا سلسلہ بھی مکمل ہو چکا ہے- خود خالق کائنات نے حضور نبی کریم(ﷺ) کے خاتم النبیین ہونے پر مُہر ِتصدیق ثبت کرتے ہوئے ارشادفرمایا:
’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَـآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ وَکَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا‘‘[3] |
|
’’محمد(ﷺ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے‘‘- |
آپ (ﷺ) نے تکمیلیت ِنبوت اور اپنے خاتم النبیین ہونے کو ان الفاظ میں بیان فرمایا:
’’بے شک سلسلہ نبوت و رسالت منقطع ہوچکا ہے سو میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا اور نہ کوئی نبی‘‘-
عقیدہ ختم نبوت کی حقانیت قرآن مجید کی درجنوں آیاتِ مبارکہ اور سینکڑوں احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتی ہے-قرآن مجید کی یہ آیت کریمہ بھی عقیدہ ختم نبوت پردلیل ہے:
’’وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَج وَبِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَ‘‘[4] |
|
’’اور وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترا اور آخرت پر یقین رکھیں‘‘- |
چنانچہ واضح ہوتاہے کہ آپ (ﷺ) پر نازل ہونےوالی اور سابقہ انبیاء () پر نازل ہونے والی وحی پر ایمان لانا ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے اگر آپ (ﷺ) کے بعد وحی کا نزول کسی طور بھی ممکن ہوتا تو اس پر ایمان لانا بھی ضروری قرار دیا جاتا چنانچہ سیدنا احمد مجتبیٰ (ﷺ) کے بعد نزول وحی کا سلسلہ بھی ختم ہوچکا اور آپ (ﷺ) پر نبوت کا اتمام ہوگیا- اب اگر آپ (ﷺ) کے بعد کوئی بھی شخص نبوت یا وحی الٰہی کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ راہزن و زندیق ہے- حضرت سلطان باھُو قدس سرہ العزیز اپنی کتاب ’’کلید التوحید کلاں‘‘میں عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’جان لے کہ مندرجہ ذیل چھ مراتب تک کوئی نہیں پہنچ سکتا اگر ان مراتب تک پہنچنے کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ کاذب و ساحر و کافر و صاحب استدراج مرتد ہے اور ان چھ میں سے ایک یہ ہے کہ حضورعلیہ الصلوۃ و السلام خاتم النبیین ہیں آپ(ﷺ) کے بعد کسی اور پر وحی نازل نہیں ہو سکتی ‘‘-
آپ(ﷺ) نے اپنی امت کو ان کذابوں کی بھی خبر دی جو نبوت کا جھوٹا دعویٰ کریں گے- حضور نبی کریم(ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’میری امت میں تیس کذاب(جھوٹے) پیدا ہوں گے ان میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے(سن لو!)میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا‘‘-[5]
جنگِ یمامہ تاریخ ِاسلام کے عظیم ترین معرکوں میں شمار ہوتی ہے-یمامہ کے مقام پر مسلمہ کذاب 40000 کا لشکر لےکر میدان میں اترا-اس کی سرکوبی کے لئے نائبِ رسول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق () نے 13000کا لشکر روانہ فرما کر اسے منطقی انجام تک پہنچایا- اس جنگ میں جتنے مسلمان شہید ہوئے اتنے اس سےقبل تاریخِ اسلام میں وقوع پذیر معرکوں میں بھی شہید نہیں ہوئے تھے- صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے دل و دماغ میں عقیدہ ختمِ نبوت کی حساسیت اور اہمیت کا اندازہ جنگِ یمامہ سے بخوبی ہو جاتا ہے- علامہ ابن کثیر تفسیر ابن کثیر میں لکھتے ہیں :
’’ حضرت حبیب بن زید انصاری سے مسلمہ کذاب نے پوچھا کہ ’’اتشھد ان محمدا رسول اللہ‘‘، ’’کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں‘‘ تو فرمایا، ’’نعم‘‘، ’ہاں‘‘ پھر اس نے کہا : ’’اتشھدانی رسول اللہ؟‘‘، ’’کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں‘‘-آپ نے فرمایا: ’’لا اسمع ، ’’میں نہیں سنتا‘‘، اس جواب پراس ظالم نے یہ ردِعمل دکھایا’’فلم یزل یقطعہ إرباإربا‘‘،، ’’اس پر اس ظالم نے آپ کے جسم کا ایک ایک عضو کاٹ دیا‘‘-(یعنی ایک عضو کاٹتا پھر پوچھتا کہ مجھے نبی مانتے ہوجب جواب نفی میں آتا پھر دوسرا عضو کاٹ دیتا پھر پوچھتا پھر جواب نفی میں سن کر تیسرا عضو کاٹ دیتا اسی طرح سارا جسم کاٹ دیا) لیکن ’’وھو ثابت علی ذلک‘‘اس کے باوجود آپؓ ایمان پر ثابت قدم رہے‘‘-[6]
مذکورہ روایات سے اس امر کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ عقیدہ ختمِ نبوت دینِ اسلام کا بنیادی جزو ہے- مختلف ادوار میں بہت سے بدبختوں نے نبوت کے جھوٹے دعوے کیے لیکن مسلمانوں کی غیرتِ ایمانی نے اُن کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملایا اور اس طرح کی ہر سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا- مسلمانوں نے عقیدہ ختمِ نبوت پر نہ تو پہلے کوئی سمجھوتہ کیا ہے اور ہی اب کر سکتے ہیں-