یومِ پاکستان اور بانیانِ پاکستان کے مشن سے تجدیدِ عہد
تاریخِ اقوامِ عالم اس حقیقت سے روشناس کرتی ہےکہ قوموں کی زندگی میں بعض ایسے فیصلہ کن لمحات آتے ہیں جو نہ صرف ان کے مستقبل کو یکسر تبدیل کر دیتے ہیں بلکہ قوموں کی طرز ِزندگی کاتعین بھی کرتے ہیں-اسی اعتبار سے 23 مارچ 1940ء کےدن چند مبارک لمحات میں، لاہورمنٹو پارک (موجودہ اقبال پارک) میں لاکھوں مسلمانوں کی موجودگی میں بابائے قوم کے زیرِ صدارت ہونے والے تاریخی جلسہ میں شیرِ بنگال مولوی فضل الحق کی جانب سے پیش کی جانے والی قراد دادِ لاہور (قرار داد پاکستان )نے برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی تقدیر کو بدل کر رکھ دیا-
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ مسلمان نے اسلام کےدرسِ عدل و انصاف، محبت، امن ،بھائی چارے اورمعاشرتی ہم آہنگی کو اختیار کرتے ہوئے کم و بیش ایک ہزار سال حکومت کی-اس حقیقت سےبخوبی ادراک ہوتا ہے کہ مذکورہ طویل دورِ حکومت میں ہندو و دیگر غیر مسلموں کی کثیر تعداد موجود رہی مگرمنصبِ حکومت پرفائز مسلمانوں نے کبھی کسی کو زبردستی اپنا مذہب بدلنے پر مجبور نہیں کیا- مگر اس دورِ حکومت کے اختتام پر آزادی کی زندگی بسرکرنے اور ہزار سال حکمرانی کرنے والوں پر، برطانوی راج اور ہندو سامراج نے زمین تنگ کرنا شروع کر دی اور نو آبادیاتی دور میں برطانیہ میں ہونے والی قانون سازی کانگریس اور ہندؤں کی حمایت میں کی جاتی رہی- ان کٹھن حالات اور ہندو شدت پسندانہ ذہنیت کے باعث23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے چونتیسویں (34)سالانہ اجلاس میں مسلمانوں نے قائدِ اعظم جیسے مدبر قائد کے زیرِصدارت پہلی دفعہ اپنے مستقبل کے نصب العین کا تعین کرتے ہوئے آزادانہ ریاست یعنی پاکستان کا مطالبہ کیا- قائدمحمد علی جناح نے اپنے اختتامی خطبہ میں اس سیشن کو تاریخی قرار دیا جس میں مسلمانوں نے اپنے مقاصد طے کئے-
23 مارچ کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قائدِ اعظم نے اس کٹھن وقت اور گھمبیرلمحات میں قانونی سہولیات نہ ہونے کے باوجود اپنی خداداد صلاحیتوں، پختہ و مصمم عزم و جرات، یقین واثق، عظیم سیاسی فہم و فراست، آئین داری و قانون پسندی اور بے پناہ قربا نیوں کے ساتھ کون و مکاں کے اُفق پر 14 اگست 1947ء کو الگ ریاست کے حصول سے ایک لازوال داستان رقم کی-یہ قائدِاعظم کی اعلیٰ ظرفی اور امن پسندی تھی کہ آپ نے نہ تو کبھی مسلمانوں کو اشتعال انگیزی و فتنہ فساد پر آمادہ کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی ایسی کسی تحریک کی اجازت دی جس میں قتل و غارت کا معمولی خدشہ بھی ہو-
اس دن کی اہمیت و افادیت کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ 23 مارچ 1956ءکے دن پاکستان اپنا الگ آئین اپناتے ہوئے دنیا کا پہلا آئینی اسلامی ملک بن گیا -چونکہ تقسیم ہند کے وقت انگریزوں نے دونوں ممالک کو دولتِ مشترکہ کے اندر رہتے ہوئے خود مختاری دی تھی جس کے مطابق برصغیر پر انگریز حکومت کے خاتمہ کے باوجود ملکہ برطانیہ دونوں ممالک پرملکہ کی حیثیت رکھتی تھی جبکہ 23 مارچ1956ء کےآئین کی روشنی میں پاکستان ڈومینین کی حیثیت سے باہرنکل آیا اورمکمل طور پر ایک آزاد اور خود مختار ریاست بن گیا -
لہذا!آج پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے والوں کوکبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ یہ قوم اگر 71 سال قبل دنیا کی سپر پاور اور شاطر ہندؤبنئیے کو تمام تر سازشوں اور گٹھ جوڑ کے باوجود شکست دے کر اپنے جداگانہ تشخص کو برقرار رکھ سکتی ہے تو آج کا پاکستان اندرونی و بیرونی سازشوں اور دشمنانِ اسلام و پاکستان کی جانب سے مسلط کی گئی دہشت گردی و تخریب کاری پر مبنی جنگ کو ناکام بنانے اور معاشی و معاشرتی مسائل پیدا کرنے کیلئے بھیجے گئے ایجنٹوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے بعد پہلے سے زیادہ توانا،متحد، مستحکم اور ذمہ دار ایٹمی طاقت ہے جو کئی سپر طاقتوں کو ہر میدان میں شکست دے کر اپنا دفاع کر سکتی ہے-
اس میں کوئی شک نہیں کہ قوموں کے وقار اور ارتقاء کا انحصار ان کے مقاصد پر ہوتا ہے- عہدِ حاضر میں پاکستان دنیا کا وہ پہلا نظریاتی ملک ہے جس کے مقاصد ملک بننے سے قبل طے پا چکے تھے جسے تاریخ دو قومی نظریہ کےنام سےجانتی ہے- قیامِ پاکستان درحقیقت دو قومی نظریے کا عملی ثبوت تھا کہ برصغیر میں مسلمان اپنا جداگانہ تشخص، الگ تہذیب وتمدن ، ثقافت اور مذہبی اقدار رکھتے ہیں اسی لئے اسے محض تاریخی حادثہ یا سیاسی معرکہ تصور کرنا احمقانہ عمل ہو گا-موجودہ ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں اور 30 سے زائد علیحدگی پسند تحریکوں سے یہ بات عیاں ہے کہ اگر قائدِاعظم مسلمانوں کے الگ تشخص کو برقرار رکھنے کیلئے اپنا کلیدی کردار ادا نہ کرتے تو یقیناً ہندوستان میں مسلمانوں کی ساتھ سپین کی سی تاریخ دہرائی جا چکی ہوتی یا ایک بدترین اور مظلوم اقلیت کے روپ میں موجود ہوتے-
یومِ پاکستان کا منایا جانا فقط علامتی نہیں ہے بلکہ اس دن کی مناسبت سے ہمیں تجدیدِ عہد کرتے ہوئے بانیانِ پاکستان کے متعین کردہ راستہ پر گامزن ہونا ہوگا- گو کہ منزل کٹھن ضرور ہے اور بالخصوص دہشت گردی اور شدت پسندی کی فضا نے ہمارے سفر کو متاثر کیا ہے مگر الحمد للہ! ہم اس جدوجہد میں کامیابی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں- افواج پاکستان کی غیر متزلزل کمٹمنٹ نے مملکتِ خدادا کو نہ صرف مشکل و گمبھیر حالات سے نکالا ہے بلکہ اندرونی و بیرونی محاذوں پر کامیاب حکمت عملی سے ملکی دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنا دیا ہے- لیکن اگر کسی طور بھی ہم نے اپنے آباء و شہداء کی قربانیوں کو فراموش کیا یا مقاصدِ حصولِ پاکستان کو پسِ پشت ڈالا تو ہم انتشار کا شکار ہو کر اپنے وجود کو محفوظ نہیں رکھ پائیں گئے- چنانچہ اب تمام تر عالمی سازشوں کا ادراک کرتے ہوئے ہمیں ’’حدی را تیز ترمی خواں چوں محمل را گراں بینی‘‘ کی کیفیت کو سمجھ کر، بلند ارادے، جواں عزم اور خدا پر نظر رکھتے ہوئے ہر طلاطم خیز موج سے ٹکرا کرتجدیدِ عہد کرنا ہوگا کہ ہم پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کی خاطر اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گئے اور مملکتِ خداد کےاغراض و مقاصد کےحصول کوممکن بنانے میں اپنا ہر ممکن کردار ادا کریں گے-
یومِ پاکستان اور بانیانِ پاکستان کے مشن سے تجدیدِ عہد
تاریخِ اقوامِ عالم اس حقیقت سے روشناس کرتی ہےکہ قوموں کی زندگی میں بعض ایسے فیصلہ کن لمحات آتے ہیں جو نہ صرف ان کے مستقبل کو یکسر تبدیل کر دیتے ہیں بلکہ قوموں کی طرز ِزندگی کاتعین بھی کرتے ہیں-اسی اعتبار سے 23 مارچ 1940ء کےدن چند مبارک لمحات میں، لاہورمنٹو پارک (موجودہ اقبال پارک) میں لاکھوں مسلمانوں کی موجودگی میں بابائے قوم کے زیرِ صدارت ہونے والے تاریخی جلسہ میں شیرِ بنگال مولوی فضل الحق کی جانب سے پیش کی جانے والی قراد دادِ لاہور (قرار داد پاکستان )نے برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی تقدیر کو بدل کر رکھ دیا-
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ مسلمان نے اسلام کےدرسِ عدل و انصاف، محبت، امن ،بھائی چارے اورمعاشرتی ہم آہنگی کو اختیار کرتے ہوئے کم و بیش ایک ہزار سال حکومت کی-اس حقیقت سےبخوبی ادراک ہوتا ہے کہ مذکورہ طویل دورِ حکومت میں ہندو و دیگر غیر مسلموں کی کثیر تعداد موجود رہی مگرمنصبِ حکومت پرفائز مسلمانوں نے کبھی کسی کو زبردستی اپنا مذہب بدلنے پر مجبور نہیں کیا- مگر اس دورِ حکومت کے اختتام پر آزادی کی زندگی بسرکرنے اور ہزار سال حکمرانی کرنے والوں پر، برطانوی راج اور ہندو سامراج نے زمین تنگ کرنا شروع کر دی اور نو آبادیاتی دور میں برطانیہ میں ہونے والی قانون سازی کانگریس اور ہندؤں کی حمایت میں کی جاتی رہی- ان کٹھن حالات اور ہندو شدت پسندانہ ذہنیت کے باعث23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے چونتیسویں (34)سالانہ اجلاس میں مسلمانوں نے قائدِ اعظم جیسے مدبر قائد کے زیرِصدارت پہلی دفعہ اپنے مستقبل کے نصب العین کا تعین کرتے ہوئے آزادانہ ریاست یعنی پاکستان کا مطالبہ کیا- قائدمحمد علی جناح نے اپنے اختتامی خطبہ میں اس سیشن کو تاریخی قرار دیا جس میں مسلمانوں نے اپنے مقاصد طے کئے-
23 مارچ کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قائدِ اعظم نے اس کٹھن وقت اور گھمبیرلمحات میں قانونی سہولیات نہ ہونے کے باوجود اپنی خداداد صلاحیتوں، پختہ و مصمم عزم و جرات، یقین واثق، عظیم سیاسی فہم و فراست، آئین داری و قانون پسندی اور بے پناہ قربا نیوں کے ساتھ کون و مکاں کے اُفق پر 14 اگست 1947ء کو الگ ریاست کے حصول سے ایک لازوال داستان رقم کی-یہ قائدِاعظم کی اعلیٰ ظرفی اور امن پسندی تھی کہ آپ نے نہ تو کبھی مسلمانوں کو اشتعال انگیزی و فتنہ فساد پر آمادہ کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی ایسی کسی تحریک کی اجازت دی جس میں قتل و غارت کا معمولی خدشہ بھی ہو-
اس دن کی اہمیت و افادیت کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ 23 مارچ 1956ءکے دن پاکستان اپنا الگ آئین اپناتے ہوئے دنیا کا پہلا آئینی اسلامی ملک بن گیا -چونکہ تقسیم ہند کے وقت انگریزوں نے دونوں ممالک کو دولتِ مشترکہ کے اندر رہتے ہوئے خود مختاری دی تھی جس کے مطابق برصغیر پر انگریز حکومت کے خاتمہ کے باوجود ملکہ برطانیہ دونوں ممالک پرملکہ کی حیثیت رکھتی تھی جبکہ 23 مارچ1956ء کےآئین کی روشنی میں پاکستان ڈومینین کی حیثیت سے باہرنکل آیا اورمکمل طور پر ایک آزاد اور خود مختار ریاست بن گیا -
لہذا!آج پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے والوں کوکبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ یہ قوم اگر 71 سال قبل دنیا کی سپر پاور اور شاطر ہندؤبنئیے کو تمام تر سازشوں اور گٹھ جوڑ کے باوجود شکست دے کر اپنے جداگانہ تشخص کو برقرار رکھ سکتی ہے تو آج کا پاکستان اندرونی و بیرونی سازشوں اور دشمنانِ اسلام و پاکستان کی جانب سے مسلط کی گئی دہشت گردی و تخریب کاری پر مبنی جنگ کو ناکام بنانے اور معاشی و معاشرتی مسائل پیدا کرنے کیلئے بھیجے گئے ایجنٹوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے بعد پہلے سے زیادہ توانا،متحد، مستحکم اور ذمہ دار ایٹمی طاقت ہے جو کئی سپر طاقتوں کو ہر میدان میں شکست دے کر اپنا دفاع کر سکتی ہے-
اس میں کوئی شک نہیں کہ قوموں کے وقار اور ارتقاء کا انحصار ان کے مقاصد پر ہوتا ہے- عہدِ حاضر میں پاکستان دنیا کا وہ پہلا نظریاتی ملک ہے جس کے مقاصد ملک بننے سے قبل طے پا چکے تھے جسے تاریخ دو قومی نظریہ کےنام سےجانتی ہے- قیامِ پاکستان درحقیقت دو قومی نظریے کا عملی ثبوت تھا کہ برصغیر میں مسلمان اپنا جداگانہ تشخص، الگ تہذیب وتمدن ، ثقافت اور مذہبی اقدار رکھتے ہیں اسی لئے اسے محض تاریخی حادثہ یا سیاسی معرکہ تصور کرنا احمقانہ عمل ہو گا-موجودہ ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں اور 30 سے زائد علیحدگی پسند تحریکوں سے یہ بات عیاں ہے کہ اگر قائدِاعظم مسلمانوں کے الگ تشخص کو برقرار رکھنے کیلئے اپنا کلیدی کردار ادا نہ کرتے تو یقیناً ہندوستان میں مسلمانوں کی ساتھ سپین کی سی تاریخ دہرائی جا چکی ہوتی یا ایک بدترین اور مظلوم اقلیت کے روپ میں موجود ہوتے-
یومِ پاکستان کا منایا جانا فقط علامتی نہیں ہے بلکہ اس دن کی مناسبت سے ہمیں تجدیدِ عہد کرتے ہوئے بانیانِ پاکستان کے متعین کردہ راستہ پر گامزن ہونا ہوگا- گو کہ منزل کٹھن ضرور ہے اور بالخصوص دہشت گردی اور شدت پسندی کی فضا نے ہمارے سفر کو متاثر کیا ہے مگر الحمد للہ! ہم اس جدوجہد میں کامیابی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں- افواج پاکستان کی غیر متزلزل کمٹمنٹ نے مملکتِ خدادا کو نہ صرف مشکل و گمبھیر حالات سے نکالا ہے بلکہ اندرونی و بیرونی محاذوں پر کامیاب حکمت عملی سے ملکی دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنا دیا ہے- لیکن اگر کسی طور بھی ہم نے اپنے آباء و شہداء کی قربانیوں کو فراموش کیا یا مقاصدِ حصولِ پاکستان کو پسِ پشت ڈالا تو ہم انتشار کا شکار ہو کر اپنے وجود کو محفوظ نہیں رکھ پائیں گئے- چنانچہ اب تمام تر عالمی سازشوں کا ادراک کرتے ہوئے ہمیں ’’حدی را تیز ترمی خواں چوں محمل را گراں بینی‘‘ کی کیفیت کو سمجھ کر، بلند ارادے، جواں عزم اور خدا پر نظر رکھتے ہوئے ہر طلاطم خیز موج سے ٹکرا کرتجدیدِ عہد کرنا ہوگا کہ ہم پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کی خاطر اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گئے اور مملکتِ خداد کےاغراض و مقاصد کےحصول کوممکن بنانے میں اپنا ہر ممکن کردار ادا کریں گے-