اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
’’وَمَا کَانَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ یُّفْتَرٰی مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلٰـکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَتَفْصِیْلَ الْکِتٰبِ لاَرَیْبَ فِیْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘o
’’یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اسے اللہ (کی وحی) کے بغیر گھڑ لیا گیا ہو لیکن (یہ) ان (کتابوں) کی تصدیق (کرنے والا) ہے جو اس سے پہلے (نازل ہوچکی) ہیں اور جو کچھ (اللہ نے لوح میں یا احکامِ شریعت میں) لکھا ہے اس کی تفصیل ہے،اس (کی حقانیت) میں ذرا بھی شک نہیں (یہ) تمام جہانوں کے رب کی طرف سے ہے‘‘- (یونس:37)
رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ (رضی اللہ عنہ) أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ (ﷺ)كَانَ يَجْمَعُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ مِنْ قَتْلَى أُحُدٍ فِيْ ثَوْبٍ وَّاحِدٍ ثُمَّ يَقُوْلُ أَيُّهُمْ أَكْثَرُ أَخْذًا لِّلْقُرْآنِ فَإِذَا أُشِيْرَ لَهٗ إِلَى أَحَدٍ قَدَّمَهٗ فِی اللَّحْدِ وَقَالَ أَنَا شَهِيْدٌ عَلَى هَؤُلَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘‘
’’حضرت جابر بن عبداللہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) شہداء احد (رضی اللہ عنھم) میں سے دو مردوں کو ایک کپڑے میں جمع فرماتے تھے پھر ارشادفرماتے تھے ان میں سے کس کو زیادہ قرآن یا د ہے ؟پس جب ان میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کیاجاتا تواس کو لحد میں پہلے رکھا جاتا اور آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :’’قیامت کے دن میں ان سب پر گواہ ہوں گا‘‘- (صحیح البخاری، کتاب الجنائز)
فرمان سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی (رحمتہ اللہ علیہ):
’’اور حکم کر ان کو کتاب اللہ عزوجل اور سنتِ رسول اللہ (ﷺ) کی اتباع کا-اے قوم! احترام کرو اللہ عزوجل کی کتاب کا اور باادب رہو اس کے ساتھ کیونکہ وہی تمہارے اور اللہ عزوجل کے درمیان ذریعہ اتصال ہے اس کو مخلوق مت کہو-اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہےکہ یہ میرا کلام ہے اور تم کہتے ہو کہ نہیں جس نے اللہ تعالیٰ کا قول رد کیااور قرآن کو مخلوق بنایا پس تحقیق اس نے اللہ عزوجل کاکفر کیااور یہ قرآن اس سے بیزار ہوگیا -یہی قرآن جو پڑھا جاتا ہے، یہی جس کی تلاوت ہوتی ہے، یہی جو سننے میں آتا ہے، یہی جس پرنظر پڑتی ہے، یہی جو مصحف میں لکھا ہوا ہے اللہ عزوجل کا کلام ہے-امام شافعی اور امام احمد ؒ فرمایا کرتے تھے کہ قلم مخلوق ہے مگر اس سے لکھا ہوا(قرآن) غیر مخلوق ہے-دل مخلوق ہے مگر(قرآن مجید) جو اس میں حفظ ہوتا ہے غیر مخلوق ہے-صاحبو! قرآن کے خیرخواہ بنو اس پر عمل کرکے نہ کہ اس میں جھگڑا کر کے-اعتقاد کے متعلق صرف چند باتیں ہیں البتہ اعمال بکثرت ہیں- قرآن پر ایمان لانا ضروری سمجھو اس کو سچا مانو اپنے دلوں سے اور عمل کرو اپنے اعضاء سے، اس میں مشغول ہو جو تم کومفید ہو اور مت توجہ کرو ناقص اورکمزور عقلوں کی طرف‘‘- (فتح الربانی)
فرمان سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ:
وحدت دا دریا الٰہی جتھے عاشق لیندے تاری ھو
مارن ٹبیاں کڈھن موتی آپو آپی واری ھو
درّ یتیم وچ لئے لشکارے جیوں چن لاٹاں ماری ھو
سو کیوں نہیں حاصل بھردے باھوؒ جہڑے نوکر نیں سرکاری ھو (ابیاتِ باھو)
فرمان قائداعظم محمد علی جناح ؒ :
ایمان ، اتحاد، تنطیم
جب رسول مقبول (ﷺ) نےاپنے دین کی تبلیغ شروع کی تو وہ دنیا بھر صرف ایک کی اقلیت میں تھے لیکن قرآن مجیدکی اعانت سے انہوں نے ساری دنیا کو چیلنج کیا اور مختصر ترین مدت میں دنیا میں عظیم انقلاب برپا کردیا-اگر مسلمان یقین کی وہ قوت، تنظیم، نظم و ضبط اور ایثار کی وہ طاقت حاصل کرلیں تو انہیں ساری دنیا کے معاندانہ قوتوں سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں- (دی اسٹار آف انڈیا، 07 جنوری1938،)
فرمان علامہ محمد اقبالؒ:
تڑپ رہا ہے فلاطوں میان غیب و حضور
ازل سے اہل خرد کا مقام ہے اعراف
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف (بالِ جبریل)