پاکستان کا آبی بحران:ماضی، حال اور مستقبل
دنیا کا تقریبا تین چوتھائی حصہ پانی اور ایک چوتھائی حصہ خشکی پر مشتمل ہے- لیکن اس کے باوجود یہ ایک چوتھائی حصہ آبی قلت کا شکار ہے- اس آبی قلت کاتعلق قابلِ استعمال پانی سے ہے-تخلیقِ حیات کے اجزائے ترکیبی میں سے پانی ایک اہم جز ہے جِس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کائنات کے کسی بھی کونے میں پانی کے بغیر تصورِ زندگی محا ل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے سہارا صحرا، تھر، افریقہ کے صحرائی علاقے اسی بات کا واضح ثبوت ہیں-
دور جدید میں بھی پانی کی اہمیت کا ندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تجزیہ نگاروں کے بقول اب پانی کے بحران پر جنگ کے خدشات، علاقائی اور بین الاقوامی تناظر میں بڑھتے جا رہے ہیں-جن اقوام نے پانی جیسی عظیم نعمت کی قدر کی، دریاؤں کا رخ موڑا، پانی کو ضائع ہونے سے بچایا، ڈیم بنائے، ان کی معیشیت مضبوط ہوئی جس کی بدولت ان ممالک کا دفاع، معیشت، معیارِ زندگی و دیگر امورِ دنیا بہتر ہوئے-دنیا کی پھیلتی انسانی و صنعتی آبادی نے ایک طرف تو نہ صرف قدرتی ماحول کو گلوبل وارمنگ جیسے خطرے سے دوچار کیا وہیں انسانی حیات کو صاف پانی جیسی عظیم نعمت کی کمی سے دوچار کیا ہے- پاکستان جو کبھی اِس نعمتِ لازوال سے سرشار تھا آج شدید آبی مشکلات کا شکار ہے- ملک کی تقریباً 80 فیصد آبادی صاف پانی سے محروم ہے- ’’پاکستان کونسل آف ریسرچ آن واٹر ریسورسز ‘‘کے مطابق تقریباً 80 فیصد دیہی آبادی اور 85 فیصد شہری آبادی صاف پانی پینے سے قاصر ہے جِس کی وجہ سے ہسپتال میں آنے والے مریضوں کی 50 فیصد تعداد گندے پانی کا شکار ہوتی ہے-
پانی کی قلت کے شکار ممالک میں پاکستان آئے دن کسی نہ کسی ملک کو پیچھے چھوڑ رہا ہے جِس بات کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1950ء میں فردِ واحد کے لیے تقریباً 5000 کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا جو کہ 2015ء میں تقریباً 1000 کیوبک میٹر ہو گیا ہے- اگرہمارے حکمران ’’واٹر پولیٹکس‘‘ سے نہ باز آئے تو وہ دن دور نہیں جب 2025ء میں فردِ واحد کے لیے پانی کا ذخیرہ فی کس 500 سے 800 کیوبک میٹر رہ جائے گا- پاکستان تو 1990ء میں ہی ایسی فہرست میں شامل کر دیا گیا تھا جہاں پانی کی طلب رسد سے زائد ہو گئی تھی مگر ہم نے عمر کے تقریباً تا دم تحریر 28 سال صرف دنیا کے سامنے تماشا بننے پر گنوا دیے -اِس میں ایک طرف جہاں بھارتی آبی دہشتگردی ہے وہیں ہماری اپنی لاپرواہی بھی شامل ہے-آج ہمارے مقابلے میں بھارت کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 250 دن ہے جس میں سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزیاں بھی شامل ہیں جبکہ ہمارا ذخیرہ صرف 30 دن ہے-بڑھتی آبادی کی ضروریات، گلوبل وارمنگ کے تحت تیزی سے پگھلتے گلیشئرز اور بارشوں کے پانی کو محفوظ بنانے کے لیے ہمارے حکمران کوئی قومی پالیسی نہیں بنا پائے ہیں کیونکہ 60 ء کی دہائی کے بعد سے ہم نے پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی بھی بڑا منصوبہ شروع نہیں کیا- ہر سال ہم 70 بلین ڈالر کا پانی سمندر میں پھینک کر ملک دشمنوں کو ان کے مذموم عزائم کا بہانے فراہم کرتے ہیں جوپانی کو بطور اسلحہ استعمال کرنے سے کسی طور پر دریغ نہیں کر رہا-
پاکستان ایک ایسے خطہِ زمین پر واقع ہے جہاں زراعت معیشیت کا اہم ستون ہے-تقسیم ہند کے بعد پاکستانی معیشیت میں زراعت کا 52 فیصد حصہ تھا جو کم ہو کر اب تقریباً 25 فیصد رہ گیا ہے جِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم پاکستان کے دریائی پانی کے کل بہاؤ تقریباً 142 ملین ایکٹر فٹ میں سے تقریباً 104 ملین ایکٹر فٹ نہری نظام میں لاتے ہیں اور تقریباً 34 ملین ایکٹر فٹ بحیرہ ارب میں شامل ہو جاتا ہے- بڑے آبی ذخائر اپنی عمر پوری کر رہے ہیں جبکہ بوسیدہ و تَہ جمے نہری نظام کی وجہ سے 104 ملین ایکٹر فٹ پانی بھی کھیتوں تک پہنچتے پہنچتے آدھا رہ جاتا ہے جِس کی وجہ سے ہماری زرعی پیدوار آئے دن زوال کا شکار ہے-پاکستان میں قابلِ کاشت رقبہ تقریباً 31 ملین ہیکٹر جب کہ نہری و بارانی ذرائع سے کل قابل کاشت رقبہ تقریباً 22 ملین ہیکٹر ہے- ایک محتاط اندازے کے مطابق مشرقی سندھ و جنوبی پنجاب کے چولستان کا ایک بڑا حصہ جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان سمیت خیبر پختونخو اہ کا 10لاکھ ایکٹر رقبہ کالا باغ ڈیم کے بننے سے سر سبز و شاداب ہو سکتا ہے مگرہائے رے نادانی ،ایک طرف تو ہمارے دشمن ہمیں تباہ کرنے پر تلے ہیں تو دوسری طرف ہمارے حکمران بھی آپس میں پانی کی تقسیم پر گتھم گتھا ہیں جس کی وجہ سے آبی ذخائر کے منصوبوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے- پوری قوم کو اَنا پرستی، نااہلی، نالائقی اور لاپرواہی کی حدوں کو چھوتے ہوئے یا تو سیلاب کے پانی کی بے رحم موجوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے یا بوند بوند کو ترسایا جاتا ہے- انسانی و صنعتی فضلے کے ساتھ ساتھ گھریلو کوڑا کرکٹ اور بالخصوص پلاسٹک کو دریاؤں، جھیلوں اور ندی نالوں کی نذر کرتے ہیں جِس سے نہ صرف انسانی زندگی بلکہ آبی حیات کو شدید خطرات لاحق ہیں -یونیسف (UNICEF) کے مطابق آلودہ پانی تقریباً 53000 بچوں کی زندگی نگل جاتی ہے اور تقریباً 40 سے 50 فیصد اموات کی وجہ آلودہ پانی ہے- وقت کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے اگر ہوش کے ناخن نہ لیے گئے تو خدانخواستہ ہمارے شہر بھی جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن کا سا نقشہ پیش کرسکتے ہیں جو بری طر ح پانی کے بحران کا شکار ہے اور وہاں کے باشندے پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں -
حکمرانانِ وقت کو دہشتگردی جیسے ناسور کے خاتمے کی طرح شائد آبی مسئلہ کے نمٹنے کے لیے ایک نیشنل ایکشن پلان کی ضرورت ہے-جِس کے مشہور نکات ڈیمز کی تعمیر،انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کی قابلِ تحسین کاردکردگی، آلودگی کا خاتمہ، بھل صفائی، نہری نظام کی بہتری جن میں نہروں کو پختہ کرنا، صاف پانی کی ترسیل، مذہبی و تعلیمی اداروں کی مدد سے پانی بچاؤ مہم کا آغاز اور تسلسل، عالمی عدالتوں میں پاکستان کے آبی حقوق کی بھرپور قانونی جنگ، زراعت کے نئے سائنسی طریقوں جیسے لیزر لیول پر تحقیق اور آزمودہ طریقے جیسے فوارے وغیرہ کا استعمال جس سے پانی کم استعمال ہو، جنگلات کا اگاؤ، بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے منصوبے، زرعی، صنعتی و میونسپل باقیات کی مناسب تلفی کی قانون سازی و طریقہ کار کو نافذ کرنا شامل ہوں-آج کی احتیاط ہمارے محفوظ مستقبل اور اگلی نسلوں کی بقا کی ضمانت ہے-
پاکستان کا آبی بحران:ماضی، حال اور مستقبل
دنیا کا تقریبا تین چوتھائی حصہ پانی اور ایک چوتھائی حصہ خشکی پر مشتمل ہے- لیکن اس کے باوجود یہ ایک چوتھائی حصہ آبی قلت کا شکار ہے- اس آبی قلت کاتعلق قابلِ استعمال پانی سے ہے-تخلیقِ حیات کے اجزائے ترکیبی میں سے پانی ایک اہم جز ہے جِس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کائنات کے کسی بھی کونے میں پانی کے بغیر تصورِ زندگی محا ل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے سہارا صحرا، تھر، افریقہ کے صحرائی علاقے اسی بات کا واضح ثبوت ہیں-
دور جدید میں بھی پانی کی اہمیت کا ندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تجزیہ نگاروں کے بقول اب پانی کے بحران پر جنگ کے خدشات، علاقائی اور بین الاقوامی تناظر میں بڑھتے جا رہے ہیں-جن اقوام نے پانی جیسی عظیم نعمت کی قدر کی، دریاؤں کا رخ موڑا، پانی کو ضائع ہونے سے بچایا، ڈیم بنائے، ان کی معیشیت مضبوط ہوئی جس کی بدولت ان ممالک کا دفاع، معیشت، معیارِ زندگی و دیگر امورِ دنیا بہتر ہوئے-دنیا کی پھیلتی انسانی و صنعتی آبادی نے ایک طرف تو نہ صرف قدرتی ماحول کو گلوبل وارمنگ جیسے خطرے سے دوچار کیا وہیں انسانی حیات کو صاف پانی جیسی عظیم نعمت کی کمی سے دوچار کیا ہے- پاکستان جو کبھی اِس نعمتِ لازوال سے سرشار تھا آج شدید آبی مشکلات کا شکار ہے- ملک کی تقریباً 80 فیصد آبادی صاف پانی سے محروم ہے- ’’پاکستان کونسل آف ریسرچ آن واٹر ریسورسز ‘‘کے مطابق تقریباً 80 فیصد دیہی آبادی اور 85 فیصد شہری آبادی صاف پانی پینے سے قاصر ہے جِس کی وجہ سے ہسپتال میں آنے والے مریضوں کی 50 فیصد تعداد گندے پانی کا شکار ہوتی ہے-
پانی کی قلت کے شکار ممالک میں پاکستان آئے دن کسی نہ کسی ملک کو پیچھے چھوڑ رہا ہے جِس بات کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1950ء میں فردِ واحد کے لیے تقریباً 5000 کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا جو کہ 2015ء میں تقریباً 1000 کیوبک میٹر ہو گیا ہے- اگرہمارے حکمران ’’واٹر پولیٹکس‘‘ سے نہ باز آئے تو وہ دن دور نہیں جب 2025ء میں فردِ واحد کے لیے پانی کا ذخیرہ فی کس 500 سے 800 کیوبک میٹر رہ جائے گا- پاکستان تو 1990ء میں ہی ایسی فہرست میں شامل کر دیا گیا تھا جہاں پانی کی طلب رسد سے زائد ہو گئی تھی مگر ہم نے عمر کے تقریباً تا دم تحریر 28 سال صرف دنیا کے سامنے تماشا بننے پر گنوا دیے -اِس میں ایک طرف جہاں بھارتی آبی دہشتگردی ہے وہیں ہماری اپنی لاپرواہی بھی شامل ہے-آج ہمارے مقابلے میں بھارت کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 250 دن ہے جس میں سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزیاں بھی شامل ہیں جبکہ ہمارا ذخیرہ صرف 30 دن ہے-بڑھتی آبادی کی ضروریات، گلوبل وارمنگ کے تحت تیزی سے پگھلتے گلیشئرز اور بارشوں کے پانی کو محفوظ بنانے کے لیے ہمارے حکمران کوئی قومی پالیسی نہیں بنا پائے ہیں کیونکہ 60 ء کی دہائی کے بعد سے ہم نے پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی بھی بڑا منصوبہ شروع نہیں کیا- ہر سال ہم 70 بلین ڈالر کا پانی سمندر میں پھینک کر ملک دشمنوں کو ان کے مذموم عزائم کا بہانے فراہم کرتے ہیں جوپانی کو بطور اسلحہ استعمال کرنے سے کسی طور پر دریغ نہیں کر رہا-
پاکستان ایک ایسے خطہِ زمین پر واقع ہے جہاں زراعت معیشیت کا اہم ستون ہے-تقسیم ہند کے بعد پاکستانی معیشیت میں زراعت کا 52 فیصد حصہ تھا جو کم ہو کر اب تقریباً 25 فیصد رہ گیا ہے جِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم پاکستان کے دریائی پانی کے کل بہاؤ تقریباً 142 ملین ایکٹر فٹ میں سے تقریباً 104 ملین ایکٹر فٹ نہری نظام میں لاتے ہیں اور تقریباً 34 ملین ایکٹر فٹ بحیرہ ارب میں شامل ہو جاتا ہے- بڑے آبی ذخائر اپنی عمر پوری کر رہے ہیں جبکہ بوسیدہ و تَہ جمے نہری نظام کی وجہ سے 104 ملین ایکٹر فٹ پانی بھی کھیتوں تک پہنچتے پہنچتے آدھا رہ جاتا ہے جِس کی وجہ سے ہماری زرعی پیدوار آئے دن زوال کا شکار ہے-پاکستان میں قابلِ کاشت رقبہ تقریباً 31 ملین ہیکٹر جب کہ نہری و بارانی ذرائع سے کل قابل کاشت رقبہ تقریباً 22 ملین ہیکٹر ہے- ایک محتاط اندازے کے مطابق مشرقی سندھ و جنوبی پنجاب کے چولستان کا ایک بڑا حصہ جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان سمیت خیبر پختونخو اہ کا 10لاکھ ایکٹر رقبہ کالا باغ ڈیم کے بننے سے سر سبز و شاداب ہو سکتا ہے مگرہائے رے نادانی ،ایک طرف تو ہمارے دشمن ہمیں تباہ کرنے پر تلے ہیں تو دوسری طرف ہمارے حکمران بھی آپس میں پانی کی تقسیم پر گتھم گتھا ہیں جس کی وجہ سے آبی ذخائر کے منصوبوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے- پوری قوم کو اَنا پرستی، نااہلی، نالائقی اور لاپرواہی کی حدوں کو چھوتے ہوئے یا تو سیلاب کے پانی کی بے رحم موجوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے یا بوند بوند کو ترسایا جاتا ہے- انسانی و صنعتی فضلے کے ساتھ ساتھ گھریلو کوڑا کرکٹ اور بالخصوص پلاسٹک کو دریاؤں، جھیلوں اور ندی نالوں کی نذر کرتے ہیں جِس سے نہ صرف انسانی زندگی بلکہ آبی حیات کو شدید خطرات لاحق ہیں -یونیسف (UNICEF) کے مطابق آلودہ پانی تقریباً 53000 بچوں کی زندگی نگل جاتی ہے اور تقریباً 40 سے 50 فیصد اموات کی وجہ آلودہ پانی ہے- وقت کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے اگر ہوش کے ناخن نہ لیے گئے تو خدانخواستہ ہمارے شہر بھی جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن کا سا نقشہ پیش کرسکتے ہیں جو بری طر ح پانی کے بحران کا شکار ہے اور وہاں کے باشندے پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں -
حکمرانانِ وقت کو دہشتگردی جیسے ناسور کے خاتمے کی طرح شائد آبی مسئلہ کے نمٹنے کے لیے ایک نیشنل ایکشن پلان کی ضرورت ہے-جِس کے مشہور نکات ڈیمز کی تعمیر،انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کی قابلِ تحسین کاردکردگی، آلودگی کا خاتمہ، بھل صفائی، نہری نظام کی بہتری جن میں نہروں کو پختہ کرنا، صاف پانی کی ترسیل، مذہبی و تعلیمی اداروں کی مدد سے پانی بچاؤ مہم کا آغاز اور تسلسل، عالمی عدالتوں میں پاکستان کے آبی حقوق کی بھرپور قانونی جنگ، زراعت کے نئے سائنسی طریقوں جیسے لیزر لیول پر تحقیق اور آزمودہ طریقے جیسے فوارے وغیرہ کا استعمال جس سے پانی کم استعمال ہو، جنگلات کا اگاؤ، بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے منصوبے، زرعی، صنعتی و میونسپل باقیات کی مناسب تلفی کی قانون سازی و طریقہ کار کو نافذ کرنا شامل ہوں-آج کی احتیاط ہمارے محفوظ مستقبل اور اگلی نسلوں کی بقا کی ضمانت ہے-