پاکستان: تخلیق سے تکمیل کا سفر
پاکستان کی نظریاتی اساس اسلام کے عالمگیر قواعد و ضوابط پر کھڑی ہے جن کا بہترین نمونہ ریاست ِ مدینہ سے اخذ کیا جاتا ہے -اسی لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ’’مدینہ ثانی‘‘ اور ’’پاک سر زمین‘‘ جیسے عظیم القابات سے نوازا جاتا ہے-پاکستان کی تخلیق کے مقاصد وہی ہیں جن پر اسلام کی پہلی ریاست تخلیق کی گئی-اسلام کی ترویج و اشاعت، دینِ حق کا غلبہ ، اسلام کی عملی تجربہ گاہ کے ساتھ ساتھ فلاحی ریاست، سماجی انصاف، معاشی انصاف، سیاسی انصاف، مذہبی ہم آہنگی، محبت، بھائی چارہ اور عالمی امن کے حصول جیسی عظیم اقدار جن کی بنیاد پر آج کا عالمی نظام بنیاد کرتا ہے، ریاست پاکستان کی نظریاتی اساس میں شامل ہے-
یہ ایک حقیقت ہے کہ برصغیر میں موجود تہذیبوں اور بیرونی یلغار نے اسلام کے تشخص کو مسخ و تباہ کرنے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ چھوڑی- اس تعصب میں کئی میر جعفر و صادق نے بھی اپنا کردار ادا کیا- لیکن زندہ و جاوید دین نے ان حالات میں عظیم صوفیائے کرام کی خدمات کے ساتھ نہ صرف اپنا تشخص برقرار رکھا بلکہ بڑی تعداد میں غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہوئے- حضرت داتا گنج بخش، بابا فرید الدین گنج شکر، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، حضرت سلطان باھُو، مجدد الف ثانی، امیر کبیر شاہِ ہمدان اور دیگر بہت سے اولیا اللہؒ نے اس ضمن میں اپنی خدمات پیش کیں-اشاعت اسلام کی یہی تحریک نو آبادیاتی نظام،ابھرتی ہوئی قومیت پسندی اور چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے عالمی نظام کے تناظر میں علامہ اقبال اور قائد اعظم ؒ کے افکار و جد و جہد کی بدولت برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ مسلم ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوئی-قیامِ پاکستان کے اغراض و مقاصد کا احساس آج ہمیں کشمیر، فلسطین، روہنگیا، سلگتے مشرقِ وسطیٰ، مغرب میں زور پکڑتی اسلاموفوبیا جیسی تحریکوں سے بخوبی ہوتا ہے- دنیا بھر میں بڑھتی شدت پسندی اور مادیت پسندی کے سبب تنہائی کا شکار انسان آج ان اقدار کی تلاش میں ہے جو اسلام نے آج سے 1400سال پہلے دے دی تھیں اور جن کی تجربہ گاہ کیلئے پاکستان حاصل کیا گیا تھا-
دورِ جدید میں پاکستان دنیا میں وہ واحد ریاست ہے جو اسلام کی عظیم اقدار کی بنیاد پر تخلیق کی گئی مگر تاریخ کی بے رخی نے نوزائیدہ ریاست کو عالمی شطرنج میں ایک ایسے مہرے کے طور پر ابھارا جس کا نہ صرف عالمی کردار اہمیت کا حامل تھا بلکہ علاقائی کردار کی اہمیت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی تھی-دشمنانِ پاکستان نے ہمارے درمیان نسلی، فرقہ وارانہ، سیاسی، معاشی و سماجی نظریات کی اُس تفریق کو ابھارا جن کے حل کیلئے اس ریاست کا قیام عمل میں آیا تھا-اسی سبب ہمیں بڑھتے سکیورٹی خدشات، معاشی بحران، پانی کا بحران، سیاسی بحران، سماجی بحران، تشدد پسندی اور علاقہ پرستی جیسےمسائل درپیش ہوئے- تاہم یہ اُس نظریاتی اساس کی مضبوطی ہے کہ تمام تر عالمی تناظراور علاقائی سازشوں کا شکار ہونے کے باوجود ریاستِ پاکستان نہ صرف ایک جوہری ریاست بنی بلکہ اپنے وجود کو بھی قائم رکھے ہوئے ہے- دشمن ہر روز نئے چہرے کے ساتھ ہمارے درمیان انتشار پھیلا رہا ہے مگر ہمیں ہر اس نعرہ اور سازش سے چوکنا رہنا ہو گا جس سے ہمارے درمیان تفریق پھیل رہی ہو اور نظریاتی میدان میں کنفیوژن پیدا ہو- تاریخ بتاتی ہے کہ کبھی سوشل ازم کا نعرہ لگایا گیا تو کبھی کیپٹل ازم کا نعرہ لگا کر اسلامی نظام کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے رہے ہیں-کبھی نسل پرستی تو کبھی فرقہ واریت کو بنیاد بنا کر ہمیں لڑوا دیا جاتا ہے-آئے دن مختلف نام، نسل و رنگ و تہذیب کو بنیاد بنا کر پاکستانیوں کو اپنے انتقام کا نشانہ بنا کر دشمن ہمیں ہی مار کر ہمارے درمیان انتشار پھیلا رہا ہے-یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہماری صفیں بھی ذاتی مفادات اور خود غرضی کا نشانہ بنی ہیں-
آج پاکستان کو کثیرالجہتی محاذ پر چیلنجز درپیش ہیں چاہے وہ ہماری نظریاتی، سماجی، معاشی، سیاسی، دفاعی، مذہبی، سرحدی، علاقائی و بین الاقوامی فرنٹ ہو- دشمنانِ پاکستان شر پسند عناصر کو ترویج دے رہے ہیں اور آئے دن ایک ایک کر کے ہمارے محب وطن/ بھائیو ں اور بہنوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے- بلوچستان میں نام نہاد بغاوت کی تحریکیوں کی بدترین ناکامی کے بعد اب نوابزادہ سراج رئیسانی جیسے محب وطن سپوتوں کو نشانہ بنایا جانے لگا ہے- ان کی شہادت پر ایک طرف میڈیا کی بے حسی نے پوری قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے تو دوسری طرف سوشل میڈیا پر اس شہادت پر بھی کنفیوژنز پیدا کرنے کی کوششیں کی گئیں- پہلے میڈیا کوریج نہ ہونے کو لسانی تقسیم کی صورت دی گئی اور بعد میں ان کی حب الوطنی تک کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی- یہ واقع پوری قوم کیلئے سمت کا تعین کرنے کیلئے کافی ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو ہمیں اس تقسیم اور نظریاتی کنفیوژن کا شکار کرتے ہیں اور ان کا مقصد کیا ہے؟ یہ کون لوگ ہیں جو کبھی تحریکِ پاکستان کے شہدا کی تحقیر کرتے ہیں تو کبھی افواجِ پاکستان کی قربانیوں کو رائیگاں بنانے کی کوشش کرتے ہیں؟ یہ کون لوگ ہیں جو ملکی سالمیّت کے محافظوں کو حیلے بہانوں سے اپنی زبانوں کی تیزیوں کا نشانہ بناتے رہتے ہیں؟ ایسے میں ہر پاکستانی کی ذمہ داری ہے کہ اب محض حالات و واقعات کا خاموش تماشائی بننے کی بجائے اپنا بھر پور کردار ادا کریں - نوجوان نسل کو تعلیم کے ساتھ ساتھ نظریاتی محاذ پر باشعور بنانا چاہیے تاکہ باہمی اتحاد و یگانگت سے قیامِ پاکستان کے اغراض و مقاصد کا اصل حصول ممکن ہو اور حالات کیسے ہی مشکل کیوں نہ ہوں یہ نصیحت ہمہ وقت ہماری ذہنوں میں ہونی چاہیے کہ یہ تندی بادِ مخالف پرواز بلند کرنے کیلئے ہی ہے اسی لیے تو اقبال فرماتے ہیں -
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے |
|
ذرہ نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی |
پاکستان: تخلیق سے تکمیل کا سفر
پاکستان کی نظریاتی اساس اسلام کے عالمگیر قواعد و ضوابط پر کھڑی ہے جن کا بہترین نمونہ ریاست ِ مدینہ سے اخذ کیا جاتا ہے -اسی لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ’’مدینہ ثانی‘‘ اور ’’پاک سر زمین‘‘ جیسے عظیم القابات سے نوازا جاتا ہے-پاکستان کی تخلیق کے مقاصد وہی ہیں جن پر اسلام کی پہلی ریاست تخلیق کی گئی-اسلام کی ترویج و اشاعت، دینِ حق کا غلبہ ، اسلام کی عملی تجربہ گاہ کے ساتھ ساتھ فلاحی ریاست، سماجی انصاف، معاشی انصاف، سیاسی انصاف، مذہبی ہم آہنگی، محبت، بھائی چارہ اور عالمی امن کے حصول جیسی عظیم اقدار جن کی بنیاد پر آج کا عالمی نظام بنیاد کرتا ہے، ریاست پاکستان کی نظریاتی اساس میں شامل ہے-
یہ ایک حقیقت ہے کہ برصغیر میں موجود تہذیبوں اور بیرونی یلغار نے اسلام کے تشخص کو مسخ و تباہ کرنے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ چھوڑی- اس تعصب میں کئی میر جعفر و صادق نے بھی اپنا کردار ادا کیا- لیکن زندہ و جاوید دین نے ان حالات میں عظیم صوفیائے کرام کی خدمات کے ساتھ نہ صرف اپنا تشخص برقرار رکھا بلکہ بڑی تعداد میں غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہوئے- حضرت داتا گنج بخش، بابا فرید الدین گنج شکر، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، حضرت سلطان باھُو، مجدد الف ثانی، امیر کبیر شاہِ ہمدان اور دیگر بہت سے اولیا اللہ ()نے اس ضمن میں اپنی خدمات پیش کیں-اشاعت اسلام کی یہی تحریک نو آبادیاتی نظام،ابھرتی ہوئی قومیت پسندی اور چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے عالمی نظام کے تناظر میں علامہ اقبال اور قائد اعظم () کے افکار و جد و جہد کی بدولت برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ مسلم ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوئی-قیامِ پاکستان کے اغراض و مقاصد کا احساس آج ہمیں کشمیر، فلسطین، روہنگیا، سلگتے مشرقِ وسطیٰ، مغرب میں زور پکڑتی اسلاموفوبیا جیسی تحریکوں سے بخوبی ہوتا ہے- دنیا بھر میں بڑھتی شدت پسندی اور مادیت پسندی کے سبب تنہائی کا شکار انسان آج ان اقدار کی تلاش میں ہے جو اسلام نے آج سے 1400سال پہلے دے دی تھیں اور جن کی تجربہ گاہ کیلئے پاکستان حاصل کیا گیا تھا-
دورِ جدید میں پاکستان دنیا میں وہ واحد ریاست ہے جو اسلام کی عظیم اقدار کی بنیاد پر تخلیق کی گئی مگر تاریخ کی بے رخی نے نوزائیدہ ریاست کو عالمی شطرنج میں ایک ایسے مہرے کے طور پر ابھارا جس کا نہ صرف عالمی کردار اہمیت کا حامل تھا بلکہ علاقائی کردار کی اہمیت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی تھی-دشمنانِ پاکستان نے ہمارے درمیان نسلی، فرقہ وارانہ، سیاسی، معاشی و سماجی نظریات کی اُس تفریق کو ابھارا جن کے حل کیلئے اس ریاست کا قیام عمل میں آیا تھا-اسی سبب ہمیں بڑھتے سکیورٹی خدشات، معاشی بحران، پانی کا بحران، سیاسی بحران، سماجی بحران، تشدد پسندی اور علاقہ پرستی جیسےمسائل درپیش ہوئے- تاہم یہ اُس نظریاتی اساس کی مضبوطی ہے کہ تمام تر عالمی تناظراور علاقائی سازشوں کا شکار ہونے کے باوجود ریاستِ پاکستان نہ صرف ایک جوہری ریاست بنی بلکہ اپنے وجود کو بھی قائم رکھے ہوئے ہے- دشمن ہر روز نئے چہرے کے ساتھ ہمارے درمیان انتشار پھیلا رہا ہے مگر ہمیں ہر اس نعرہ اور سازش سے چوکنا رہنا ہو گا جس سے ہمارے درمیان تفریق پھیل رہی ہو اور نظریاتی میدان میں کنفیوژن پیدا ہو- تاریخ بتاتی ہے کہ کبھی سوشل ازم کا نعرہ لگایا گیا تو کبھی کیپٹل ازم کا نعرہ لگا کر اسلامی نظام کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے رہے ہیں-کبھی نسل پرستی تو کبھی فرقہ واریت کو بنیاد بنا کر ہمیں لڑوا دیا جاتا ہے-آئے دن مختلف نام، نسل و رنگ و تہذیب کو بنیاد بنا کر پاکستانیوں کو اپنے انتقام کا نشانہ بنا کر دشمن ہمیں ہی مار کر ہمارے درمیان انتشار پھیلا رہا ہے-یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہماری صفیں بھی ذاتی مفادات اور خود غرضی کا نشانہ بنی ہیں-
آج پاکستان کو کثیرالجہتی محاذ پر چیلنجز درپیش ہیں چاہے وہ ہماری نظریاتی، سماجی، معاشی، سیاسی، دفاعی، مذہبی، سرحدی، علاقائی و بین الاقوامی فرنٹ ہو- دشمنانِ پاکستان شر پسند عناصر کو ترویج دے رہے ہیں اور آئے دن ایک ایک کر کے ہمارے محب وطن/ بھائیو ں اور بہنوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے- بلوچستان میں نام نہاد بغاوت کی تحریکیوں کی بدترین ناکامی کے بعد اب نوابزادہ سراج رئیسانی جیسے محب وطن سپوتوں کو نشانہ بنایا جانے لگا ہے- ان کی شہادت پر ایک طرف میڈیا کی بے حسی نے پوری قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے تو دوسری طرف سوشل میڈیا پر اس شہادت پر بھی کنفیوژنز پیدا کرنے کی کوششیں کی گئیں- پہلے میڈیا کوریج نہ ہونے کو لسانی تقسیم کی صورت دی گئی اور بعد میں ان کی حب الوطنی تک کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی- یہ واقع پوری قوم کیلئے سمت کا تعین کرنے کیلئے کافی ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو ہمیں اس تقسیم اور نظریاتی کنفیوژن کا شکار کرتے ہیں اور ان کا مقصد کیا ہے؟ یہ کون لوگ ہیں جو کبھی تحریکِ پاکستان کے شہدا کی تحقیر کرتے ہیں تو کبھی افواجِ پاکستان کی قربانیوں کو رائیگاں بنانے کی کوشش کرتے ہیں؟ یہ کون لوگ ہیں جو ملکی سالمیّت کے محافظوں کو حیلے بہانوں سے اپنی زبانوں کی تیزیوں کا نشانہ بناتے رہتے ہیں؟ ایسے میں ہر پاکستانی کی ذمہ داری ہے کہ اب محض حالات و واقعات کا خاموش تماشائی بننے کی بجائے اپنا بھر پور کردار ادا کریں - نوجوان نسل کو تعلیم کے ساتھ ساتھ نظریاتی محاذ پر باشعور بنانا چاہیے تاکہ باہمی اتحاد و یگانگت سے قیامِ پاکستان کے اغراض و مقاصد کا اصل حصول ممکن ہو اور حالات کیسے ہی مشکل کیوں نہ ہوں یہ نصیحت ہمہ وقت ہماری ذہنوں میں ہونی چاہیے کہ یہ تندی بادِ مخالف پرواز بلند کرنے کیلئے ہی ہے اسی لیے تو اقبال فرماتے ہیں -
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے |
|
ذرہ نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی |