دستک

دستک

بانئ "اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین" کی فکری تحریک 

"انسان" ہمیشہ ہی سے فلاسفہ، مفکرین اور سکالرز کے درمیان موضوعِ بحث رہا ہے- یہ ایک پیچیدہ اور مشکل معما ہے جسے سمجھنے کیلئے صدیوں سے بحث و مباحثے چل رہے ہیں اور اب جدید دور میں ان مباحثوں میں سائنس کی تحقیق بھی شامل ہو گئی ہے -نفسیات سے لے کر دماغ کی ہئیت تک، ہر طرح سے انسانی سوچ اور اس کے افعال کو سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے- لیکن انسان کی حقیقت کو مکمل طور پر ڈی کوڈ (کشف) کرنے میں کوئی بھی ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکا ہے- یہ ایک امر حقیقت ہے کہ روحانی پہلو کو سمجھے بنا انسان کو سمجھنا ممکن نہیں-انسان اپنے آپ کو سمجھے بنا اپنی انفرادی و اجتماعی حیثیت، ضروریات و ذمہ داریوں سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہو سکتا- جب تک انفرادی سطح  پر انسان اپنے آپ سے متعلق کنفیوز ڈ (متحیر)  رہتا ہے اور بے اطمینانی کی کیفیت رہتی ہے اس وقت تک معاشرے میں بھی کنفیوژن اور بے اطمینانی ہی نظر آتی ہے- جدید دور میں انسان کو پیش آنے والے چیلنجز اور مشکلات کی بڑی وجہ یہی ہے کہ انسان اپنے آپ کو تمام پہلوؤں کے ساتھ پرکھنے کی بجائے فقط مادی پہلو سے پرکھنے اور سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے اور شاید یہ کوشش اس وقت تک جاری رہے جب تک سائنسی اعتبار سے بھی سائنسدان انسان کی روحانی جہت کے ثبوت حاصل نہ کر لیں(اور مستقبل میں ایسا ممکن بھی ہے)- مگر اس سطح تک پہنچنے میں نہ جانے کتنی دہائیاں یا صدیاں لگ جائیں - انسان اُس وقت تک تباہی در تباہی کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ پہلے ہی مادیت پرستی نے انسانی معاشرے کو اخلاقی، سماجی اور روحانی پستی سے ہمکنار کر دیا ہے اور باطنی و دنیاوی امن داؤ پر لگ گیا ہے- چنانچہ یہ ضروری ہے کہ مادی اُصولوں تک محدود سوچ کو وُسعت دی جائے اور انسان کو اس کے مکمل پیرائے میں سمجھا اور پرکھا جائے جس سے انسان اپنی حقیقت سے بھی روشناس ہو اور معاشرے میں بھی امن و فلاح کا دَور دَورہ ہو جیسا کہ ماضی میں اس کی درخشاں مثالیں ملتی ہیں جب اسلامی تہذیب نے مادی و روحانی ترقی سے رہتی دنیا کیلئے ہر میدان میں لازوال مثالیں قائم کیں-

انسانی تاریخ میں مختلف اَدوار اور علاقوں میں نافذ ہونے والے مختلف نظاموں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی قسم کا نظامِ زندگی انسانیت کو امن اور قلبی سکون سے آشنا نہیں کر سکتا جب تک اس کی بنیادیں رُوحانیت پر قائم نہ ہوں- یہ روحانی اِستخلاص ہی ہے جس نے چودہ سو سال قبل بھی بے سرو سامانی کے عالَم میں اٹھنے والے انقلاب نے امن و محبت اور انسانیت کی معراج کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ عقل ان پر آج بھی دنگ ہے اور جدید فلسفہ و سائنسی تحقیق سے بھی ان کی کوئی دلیل نہیں دی جا سکی- ویسے تو تاریخ کا باریک بینی سے مطالعہ بھی ہمیں اسی نتیجہ پر لے جاتا ہے مگر نفسانی خواہشات کو ترک نہ کرنے کیلئے حقیقت سے منہ موڑ کر اصل سبق حاصل کرنے کی بجائے غیر حقیقی مفروضے قائم کر لیے جاتے ہیں اور تاریخ کو دُھندلا کر پیش کیا  جاتا ہے جس کے سبب ایسی تاریخ پڑھنے والے اصل حقائق سے مکمل طور  پر نا آشنا  ہونے کے سبب کنفیوزڈ ہو جاتے ہیں-

یہ اللہ تعالیٰ کا انسان پر خاص فضل و کرم ہے کہ وہ ہر ایسے وقت میں انسان کی رہنمائی کیلئے اپنے خاص بندے بھیجتا ہے جب ہر جانب تباہی ہی تباہی نظر آتی ہے اور انسانیت پستی کی جانب چل پڑتی ہے- بیسویں صدی میں ایسی ہی ایک عظیم شخصیت بانئ "اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین" سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد اصغر علی قدس اللہ سرّہ کی ذات مبارک ہے جنہوں نے اس مادیت کے دور میں پستی میں گرتی اِنسانیت کو دوبارہ سے راہِ راست پر چلایا- حضرت سلطان محمد اصغر علی قدس اللہ سرّہ نے عوام الناس کو دینِ اسلام کو اس کی اصل روح یعنی مادیت اور روحانیت دونوں اعتبار سے اپنانے کی طرف دعوت دی-  آپ قدس اللہ سرّہ  نے اس عصرِ حاضر کی مادیت پرستانہ، شورش اور دُنیا کی ہنگامہ آرائی سے مقابلہ کرنے کیلئے تصوّرِ اسم اللہ ذات کو عام فرمایا اور اپنی نگاہِ کاملہ سے لوگوں کے قلوب کو منور فرمایا-  آپ قدس اللہ سرّہ نے انسانیت کی کھوئی ہوئی معراج حاصل کرنے کیلئے خانقاہی نظام سے ایک ایسی تحریک کی بُنیاد رکھی جو آج دنیا کے کونے کونے تک اپنا پیغامِ رُوحانیت لے کر پہنچ رہی ہے -یہ رُوحانی استخلاص ہی ہے کہ اس تحریک کے بے سروسامانی کے عالم میں نکلنے والے مبلغین نے آج دنیا کے مختلف علاقوں تک اس تحریک کے مشن اور پیغام کو پھیلا دیا ہے- آپ قدس اللہ سرّہ کی تحریک قرونِ اُولیٰ کی طرز پر فرد کی روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ معاشرتی، سماجی، اخلاقی، معاشی، اقتصادی، علمی اور دیگر تمام میدانوں میں اُمّتِ مُسلمہ کی سر بلندی کیلئے کام کر رہی ہے اور نوجوانانِ ملّت کو ایسا پلیٹ فارم مہیا ہوا ہے جو کسی بھی قسم کی مسلکی چھاپ سے پاک اور عدم تشدد پر مبنی پیغام کے ذریعے عالمگیر امن کے حصول کیلئے کوشاں ہے- اسی لئے ہر جانب سے مایوسی کا شکار نوجوان جوق در جوق اس تحریک میں شامل ہو رہے ہیں-  2003ء میں آپ  قدس اللہ سرّہ کے وِصال کے بعد یہ ہمہ جہت اور ہمہ گیر تحریک جانشینِ سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلہ الاقدس کی قیادت میں آگے بڑھ رہی ہے –آپ کی مشفقانہ قیادت میں اس  جماعت پاک کئی دیگر شعبہ جات کا  قیام عمل میں لایا جا چکا ہے جو دراصل بانئ اصلاحی جماعت ، سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد اصغر علی قدس اللہ سرّہ کے وژن (فکر و راہنمائی) کا ہی تسلسل ہے-"الفقر  فخری" کے فلسفہ کی عملی تفسیر اس تحریک کے تسلسل سے واضح ہوتی ہے جو کسی بھی دنیاوی رکاوٹ سے رُک نہیں سکی نہ ہی اس کی رفتار میں کوئی کمی آئی ہے بلکہ اس فلسفہ کے مطابق  کہ:-

تندی بادِ مخالف سے نہ گھبرا، اے عُقاب
 یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اڑانے کے لئے

بانئ اصلاحی جماعت کی یہ فکری تحریک اپنے رستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو عبور بھی کر رہی ہے بلکہ اسے اپنا تحرک بنا کر پہلے سے بھی زیادہ جوش و ولولہ سے کام کر رہی ہے-اللہ تعالیٰ اسے دن دُگنی رات چگنی ترقی عطا فرمائے-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر