مسئلہ یمن: او آئی سی کا ممکنہ کردار
پہلی جنگِ عظیم میں خلافتِ عثمانیہ کے ٹوٹنے کے بعد ملتِ اسلام کا شیراز ہ بکھرنا شروع ہو چکا ہے - ایک طرف جہاں اندرونی خلفشار و اختلافات اور کئی سالہ جنگ و جدل سے سبق سیکھنے والامغرب اپنے ظاہری مادی ارتقاء کی منازل طے کر رہا ہے وہیں بدقسمتی سے اندرونی خانہ جنگی، فرقہ واریت، قوم پرستی، وقتی و مادی و ملکی مفادات کو اجتماعی مفادِ ملتِ اسلامیہ پر ترجیح اور اغیار کی سازشیں ملت کے اتحاد و اکرام کے لیے ناسور بنتی چلی جا رہی ہیں- اکیسویں صدی جہاں دیگر دنیا کے لیے مادے کی تسخیر، سیاروں و ستاروں پر کمند ڈالنے اورسپیس ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنا لوہا منوانے کے عزم سے طلوع ہوئی وہیں عرب دنیا کے لیے خون، نعش، انسانی جسم کے بکھرے اعضاء، بم، بندوق، توپ، فضائی حملے اور بے یار و مددگاری کے سورج گرہن کا موجب بنی-
2011ء میں مشرقِ وسطی ٰ میں عرب بہار کی تحریک چلی-اس لہر نے جہاں شمالی افریقہ میں مثبت تبدیلیاں رونما کیں وہیں لیبیا، شام، مصر میں بد امنی کے بعد 2014ء میں یمن کا دروازہ کھٹکایا - عرب دنیا کے غریب ترین ملک یمن کی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کی تو ایرانی حمایت یافتہ حوثی گروپ نے مظاہرے شروع کر دیے جو جلد ہی خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئے- عالمی و علاقائی عربی و عجمی طاقتوں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس شطرنج میں اپنے اپنے مُہرے چلنے شروع کر دیے-جن میں آئے دن جہازوں سے بم اور زمین سے راکٹ داغے جاتے رہے ہیں- دہشتگردی کا ناسور خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انسانوں کو نگلنا شروع ہو گیا- دن بدن بگڑتی صورتحال میں یمن کے شہر تباہ کر دیے گئے، ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنا دیے گئے، لاکھوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا گیا جو رہ گئے ان کو بھوک و پیاس میں مرنے کے لیے رسد کے تمام راستے بند کر دیے گئے-اقوامِ متحدہ نے یمن مسئلے کو دنیا کو سب سے بُرا انسان کا خود تخلیق کردہ مسئلہ ( Man-made Humanitarian disaster ) قرار دیا-اقوام ِ متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق و دیگر اداروں کی تحقیقی رپورٹس کے مطابق کم و بیش10ہزار یمنیوں سمیت 40ہزار لوگ اس جنگ میں لقمہ اجل بن چکے ہیں-کم و بیش 3 ملین لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر دیگر ممالک میں نقل مکانی کر چکے ہیں، 22 ملین سے زائد لوگوں کو ہنگامی بنیادوں پر بنیادی انسانی ضروریات (پانی، کھانا، ادویات وغیرہ) درکار ہیں،2.5ملین سے زائد بچے سکول سے باہر ہیں اور ملک کے آدھی سے زائد آبادی اندرونی طور پر بے یار و مددگار ہے- المختصر! یہ کہ یمن آگ میں سلگنے کے ساتھ ساتھ شدید قحط سالی کا بھی شکار ہور ہا ہے -
بدقسمتی سے ابھی تک اس مسئلہ کے حل کیلئے مسلم ممالک کی سب سے بڑی اور دنیا کی دوسری بڑی بین الاقوامی تنظیم OICکی جانب سے کوئی فعال اقدامات نہیں کئے جا سکے-یاد رہے کہ 21 اگست 1969ء کو بیت المقدس پر حملے کے ردِ عمل میں 34 دن کے اندر25 ستمبر 1969ء کو رباط میں کم و بیش1.5ارب لوگوں کے نمائندہ اسلامی ممالک نے آپس میں سماجی، اقتصادی، ثقافتی، سائنسی اور سماجی تعاون کے ذریعے مسلمانوں کے اقتدار وحقوق کے تحفظ کا عزم کرتے ہوئے OICکی بنیاد رکھی تھی- لیکن اگر ہم OICکی گزشتہ چند دہائیوں کی کارکردگی کا عمیق نظری سے جائزہ لیں تو یہ تلخ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ رکن ممالک نے اپنے ہی طے کردہ مقاصد کے حصول کے لیے عملی اقدامات کرنے کی بجائے محض مذمتی قرار دادوں اور زبانی جمع خرچ سے کام لیا ہے-جہاں عراق، شام، لیبیا، فلسطین، کشمیر اور روہنگیا کے مسلمانوں کے حق میں جابر ریاستوں کے متعلق مذمتی قرار دادیں آئیں وہیں یمن کے لیے بھی OICمیں وقتا فوقتاً قرار دادیں و سفارشات پیش کی جاتی رہی ہیں لیکن باوجود اس کے کہ اس مسئلہ میں بیشتر مسلم ممالک شامل ہیں، کوئی خاطر خواہ عملی اقدام نہیں کیے گئے- المیہ تو یہ ہے کہ اسلامی ممالک آپس میں پنجہ آزمائی کر رہے ہیں جس کے بدلے میں وہ نہ صرف اپنے ملکی وسائل کے مقاصد کو زائل کر رہے ہیں بلکہ پوری امت ِ مسلمہ کے زوال و انحطاط کا باعث بن رہے ہیں -
پاکستان نے اس جنگ میں کسی بھی فریق کا ساتھ دینے کی بجائے اُمتِ مسلمہ کے اجتماعی مفاد کے پیشِ نظر ہمیشہ جنگ بندی کی کوشش کی ہے-حالیہ حکومت نے بھی سعودی عرب، یمن اور ایران کو اس مسئلہ پر اپنا بھر پور ثالثی کردار ادا کرنے کی پیش کش کی ہے- اقوام متحدہ کے خصوصی سفیر برائے یمن مارٹن گریتھس کی سربراہی میں سویڈن میں ہونے حالیہ مذاکرات خوش آئند ہیں جس میں بر سرِ پیکار حوثیوں اور یمن کی آئینی حکومت کے درمیان تین نکات صنعاء ایئرپورٹ کو عدن اور سیئون سے کنٹرول کرنے، قیدیوں کے باہمی تبادلے اور معیشت اور سینٹرل بینک کی صورتحال کو بہتر بنانے پر اتفاقِ رائے کیا گیا ہے-لیکن اگر مسلم ممالک کے مابین مسائل پر اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے یہ مذاکرات عمل میں لائے جا سکتے ہیں تو کیاOICکے وجود کی کوئی ضرورت رہ جاتی ہے؟اگر سویڈن میں ایک خدا، ایک رسول (ﷺ)اور ایک کتاب کو ماننے والے ایک میز پر بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں تو وہ ریاض، تہران،اسلام آباد، دوشنبہ یا استنبول میں کیوں نہیں بیٹھ سکتے؟آج ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ صورتحال میں اسلام کی اصل روح کو سنت ِ نبوی (ﷺ) کی روشنی میں سمجھا جائے جو کسی بھی قسم کے تشدد کو ترک کر کے پُر امن اور سیاسی مصلحت پر یقین رکھتی ہے- اس مقصد کے لیے اسلامی سربراہی کانفرنس بلائی جا سکتی ہے جس میں یمن کے ساتھ ساتھ کشمیر اور فلسطین میں مسلمانوں کے جان و مال اور حقوق کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات کی منصوبہ بندی کی جائے - ساتھ ہی ساتھ OIC کے کردار کو مزید مؤثر بنانے کیلئے ضروری اصلاحات کو بھی زیرِ غور لایا جا سکتا ہے تاکہ آئندہ شام یا یمن کی طرح کا کوئی مسئلہ سر نہ اٹھا سکے-
٭٭٭
مسئلہ یمن: او آئی سی کا ممکنہ کردار
پہلی جنگِ عظیم میں خلافتِ عثمانیہ کے ٹوٹنے کے بعد ملتِ اسلام کا شیراز ہ بکھرنا شروع ہو چکا ہے - ایک طرف جہاں اندرونی خلفشار و اختلافات اور کئی سالہ جنگ و جدل سے سبق سیکھنے والامغرب اپنے ظاہری مادی ارتقاء کی منازل طے کر رہا ہے وہیں بدقسمتی سے اندرونی خانہ جنگی، فرقہ واریت، قوم پرستی، وقتی و مادی و ملکی مفادات کو اجتماعی مفادِ ملتِ اسلامیہ پر ترجیح اور اغیار کی سازشیں ملت کے اتحاد و اکرام کے لیے ناسور بنتی چلی جا رہی ہیں- اکیسویں صدی جہاں دیگر دنیا کے لیے مادے کی تسخیر، سیاروں و ستاروں پر کمند ڈالنے اورسپیس ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنا لوہا منوانے کے عزم سے طلوع ہوئی وہیں عرب دنیا کے لیے خون، نعش، انسانی جسم کے بکھرے اعضاء، بم، بندوق، توپ، فضائی حملے اور بے یار و مددگاری کے سورج گرہن کا موجب بنی-
2011ء میں مشرقِ وسطی ٰ میں عرب بہار کی تحریک چلی-اس لہر نے جہاں شمالی افریقہ میں مثبت تبدیلیاں رونما کیں وہیں لیبیا، شام، مصر میں بد امنی کے بعد 2014ء میں یمن کا دروازہ کھٹکایا - عرب دنیا کے غریب ترین ملک یمن کی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کی تو ایرانی حمایت یافتہ حوثی گروپ نے مظاہرے شروع کر دیے جو جلد ہی خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئے- عالمی و علاقائی عربی و عجمی طاقتوں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس شطرنج میں اپنے اپنے مُہرے چلنے شروع کر دیے-جن میں آئے دن جہازوں سے بم اور زمین سے راکٹ داغے جاتے رہے ہیں- دہشتگردی کا ناسور خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انسانوں کو نگلنا شروع ہو گیا- دن بدن بگڑتی صورتحال میں یمن کے شہر تباہ کر دیے گئے، ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنا دیے گئے، لاکھوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا گیا جو رہ گئے ان کو بھوک و پیاس میں مرنے کے لیے رسد کے تمام راستے بند کر دیے گئے-اقوامِ متحدہ نے یمن مسئلے کو دنیا کو سب سے بُرا انسان کا خود تخلیق کردہ مسئلہ ( Man-made Humanitarian disaster) قرار دیا-اقوام ِ متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق و دیگر اداروں کی تحقیقی رپورٹس کے مطابق کم و بیش10ہزار یمنیوں سمیت 40ہزار لوگ اس جنگ میں لقمہ اجل بن چکے ہیں-کم و بیش 3 ملین لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر دیگر ممالک میں نقل مکانی کر چکے ہیں، 22 ملین سے زائد لوگوں کو ہنگامی بنیادوں پر بنیادی انسانی ضروریات (پانی، کھانا، ادویات وغیرہ) درکار ہیں،2.5ملین سے زائد بچے سکول سے باہر ہیں اور ملک کے آدھی سے زائد آبادی اندرونی طور پر بے یار و مددگار ہے- المختصر! یہ کہ یمن آگ میں سلگنے کے ساتھ ساتھ شدید قحط سالی کا بھی شکار ہور ہا ہے -
بدقسمتی سے ابھی تک اس مسئلہ کے حل کیلئے مسلم ممالک کی سب سے بڑی اور دنیا کی دوسری بڑی بین الاقوامی تنظیم OICکی جانب سے کوئی فعال اقدامات نہیں کئے جا سکے-یاد رہے کہ 21 اگست 1969ء کو بیت المقدس پر حملے کے ردِ عمل میں 34 دن کے اندر25 ستمبر 1969ء کو رباط میں کم و بیش1.5ارب لوگوں کے نمائندہ اسلامی ممالک نے آپس میں سماجی، اقتصادی، ثقافتی، سائنسی اور سماجی تعاون کے ذریعے مسلمانوں کے اقتدار وحقوق کے تحفظ کا عزم کرتے ہوئے OICکی بنیاد رکھی تھی- لیکن اگر ہم OICکی گزشتہ چند دہائیوں کی کارکردگی کا عمیق نظری سے جائزہ لیں تو یہ تلخ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ رکن ممالک نے اپنے ہی طے کردہ مقاصد کے حصول کے لیے عملی اقدامات کرنے کی بجائے محض مذمتی قرار دادوں اور زبانی جمع خرچ سے کام لیا ہے-جہاں عراق، شام، لیبیا، فلسطین، کشمیر اور روہنگیا کے مسلمانوں کے حق میں جابر ریاستوں کے متعلق مذمتی قرار دادیں آئیں وہیں یمن کے لیے بھی OICمیں وقتا فوقتاً قرار دادیں و سفارشات پیش کی جاتی رہی ہیں لیکن باوجود اس کے کہ اس مسئلہ میں بیشتر مسلم ممالک شامل ہیں، کوئی خاطر خواہ عملی اقدام نہیں کیے گئے- المیہ تو یہ ہے کہ اسلامی ممالک آپس میں پنجہ آزمائی کر رہے ہیں جس کے بدلے میں وہ نہ صرف اپنے ملکی وسائل کے مقاصد کو زائل کر رہے ہیں بلکہ پوری امت ِ مسلمہ کے زوال و انحطاط کا باعث بن رہے ہیں -
پاکستان نے اس جنگ میں کسی بھی فریق کا ساتھ دینے کی بجائے اُمتِ مسلمہ کے اجتماعی مفاد کے پیشِ نظر ہمیشہ جنگ بندی کی کوشش کی ہے-حالیہ حکومت نے بھی سعودی عرب، یمن اور ایران کو اس مسئلہ پر اپنا بھر پور ثالثی کردار ادا کرنے کی پیش کش کی ہے- اقوام متحدہ کے خصوصی سفیر برائے یمن مارٹن گریتھس کی سربراہی میں سویڈن میں ہونے حالیہ مذاکرات خوش آئند ہیں جس میں بر سرِ پیکار حوثیوں اور یمن کی آئینی حکومت کے درمیان تین نکات صنعاء ایئرپورٹ کو عدن اور سیئون سے کنٹرول کرنے، قیدیوں کے باہمی تبادلے اور معیشت اور سینٹرل بینک کی صورتحال کو بہتر بنانے پر اتفاقِ رائے کیا گیا ہے-لیکن اگر مسلم ممالک کے مابین مسائل پر اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے یہ مذاکرات عمل میں لائے جا سکتے ہیں تو کیاOICکے وجود کی کوئی ضرورت رہ جاتی ہے؟اگر سویڈن میں ایک خدا، ایک رسول (ﷺ)اور ایک کتاب کو ماننے والے ایک میز پر بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں تو وہ ریاض، تہران،اسلام آباد، دوشنبہ یا استنبول میں کیوں نہیں بیٹھ سکتے؟آج ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ صورتحال میں اسلام کی اصل روح کو سنت ِ نبوی (ﷺ) کی روشنی میں سمجھا جائے جو کسی بھی قسم کے تشدد کو ترک کر کے پُر امن اور سیاسی مصلحت پر یقین رکھتی ہے- اس مقصد کے لیے اسلامی سربراہی کانفرنس بلائی جا سکتی ہے جس میں یمن کے ساتھ ساتھ کشمیر اور فلسطین میں مسلمانوں کے جان و مال اور حقوق کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات کی منصوبہ بندی کی جائے - ساتھ ہی ساتھ OIC کے کردار کو مزید مؤثر بنانے کیلئے ضروری اصلاحات کو بھی زیرِ غور لایا جا سکتا ہے تاکہ آئندہ شام یا یمن کی طرح کا کوئی مسئلہ سر نہ اٹھا سکے-
٭٭٭