حجاب، مغرب اور بین الثقافتی ہم آہنگی
حال ہی میں فرانس کے علاقے ’’نائس‘‘ میں ساحل پر موجود مسلمان خاتون سے مسلح پولیس افسران کی جانب سے باپردہ لباس پہننے کے خلاف کارروائی کا واقعہ پیش آیا- یہ بھی رپورٹ کیا گیا ہے کہ اردگرد موجود کئی افراد پولیس کو سراہ رہے تھے اور خاتون کو گھر جانے کا کہہ رہے تھے- 2010ئ میں فرانس میں خواتین کے عوامی مقامات پر چہرہ ڈھانپنے کے خلاف قانون سازی کی گئی تھی جس پر یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ حجاب خواتین پر جبر کی علامت ہے اور سیکولر ازم کے خلاف ہے- گزشتہ ماہ میں ہی امریکی مسلم خاتون ابتہاج محمد نے ریو اولمپکس میں حجاب پہن کر کھیل میں حصہ لیا جس سے اس تاثر کی یکسر نفی ہوئی ہے- جولائی میں فرانس کے قومی دن کے موقع پر نائس میں ہونے والے ٹرک حملے میں 84 افراد ہلاک ہوئے تھے جس کو بنیاد بنا کر وہاں مسلمان خواتین کے برکنی ﴿نہانے کے لئے استعمال ہونے والا لباس﴾ پہننے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے- یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ہلاک ہونے والے 84 افراد میں 30 مسلمان تھے جن میں ایسی خواتین بھی شامل تھیں جو اپنا ثقافتی لباس اور سکارف اوڑھے ہوئے تھیں- فرانس میں لباس پر لگائی جانے والی پابندیوں سے وہاں بسنے والے پانچ ملین مسلمان تو متاثر ہوئے ہی ہیں لیکن اس کے ساتھ معاشرے میں موجود دیگر بہت سے لوگوں نے بھی ان اقدامات کی مخالفت کی ہے جو انسانی حقوق کی پاسداری اور خواتین کے لئے اپنی مرضی کا لباس پہننے کے حق پر یقین رکھتے ہیں- پیرس کی یونیورسٹی میں طالبات کی جانب سے اپریل میں حجاب ڈے منایا گیا جس میں غیر مسلم طالبات نے سکارف پہن کر مسلم خواتین کے لئے لباس کی آزادی پر اظہارِ یکجہتی کیا- ان کا کہنا تھا کہ سر ڈھانپنے کا فیصلہ کرنا ہر طالبہ کا اپنا حق ہے- 26 اگست کو فرانس کی اعلیٰ عدلیہ نے Villeneuve-Loubet کے علاقہ میں پورا جسم ڈھانپنے والی بُرکنی پر عائد پابندی کو عقیدہ کی آزادی کے خلاف قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا ہے اور اس فیصلے کو مسلمانوں اور دیگر حلقوں کے علاوہ ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے بھی سراہا ہے- یاد رہے کہ فرانس کے علاوہ بھی کئی دیگر ممالک میں حجاب کے خلاف مختلف انداز کی قانون سازی کی گئی ہے تاہم یہ معاملہ یورپ کے مختلف ممالک میں زیرِ بحث ہے-مغرب میں بحیثیت مجموعی گزشتہ صدی میں لسانی امتیاز نے شدت اختیار کی- علامہ اقبال نے ایک صدی قبل انسانیت کو آگاہ کیا تھا کہ نسلی و لسانی قومیت کے تصورات اور ان کے سبب جنم لینے والا تفاخر اور نفرت تباہی کا پیش خیمہ ہیں مگر اس دور اندیشی سے سبق نہ سیکھنے کے باعث انسان نے پہلی کے بعد دوسری جنگِ عظیم کا سامنا کیا جن میں بالخصوص مغرب میں جنگوں کے باعث بے پناہ تباہی ہوئی اور کروڑوں افراد لقمہ اجل بن گئے- اس کے بعد یورپی اقوام نے کچھ سبق حاصل کیا اور یورپی یونین بنا کر آپس میں نسلی و لسانی اختلافات کو کم کرنے کی کوشش کی- سیاسی سطح پر ان کاوشوں کے نتیجے میں لوگوں کے مابین فاصلے بھی نسبتاً کم ہوئے- اگرچہ وہاں آج سے سو سال قبل پائے جانے والے نسلی و لسانی تفاخر کو کافی حد تک کم کیا گیا ہے لیکن اس کے مقابل مذہبی و ثقافتی تفاخر پروان چڑھا ہے- یقیناً اس میں میڈیا کا ایک بڑا کردار ہے جس نے مغرب اور مسلمانوں کے درمیان فاصلے بڑھانے میں خاطر خواہ کردار ادا کیا ہے اور مسلمانوں کو شدت پسند کے طور پر ظاہر کیا ہے تاہم اس میں سیاسی مفادات بھی شامل ہیں- کئی مغربی ممالک میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں اور گروہوں کے سامنے آنے سے ان مسائل نے شدت اختیار کی ہے جو کسی طور بھی اخوت اور برداشت کے لئے سود مند نہیں- تاریخ گواہ ہے کہ انہی قوموں نے طویل مدتی ترقی پائی جہاں معاشرے سے نفرتوں کے بیج اکھاڑ دیئے گئے- قرونِ وسطیٰ میں مسلمان حکومتیں اقلیتوں کا خاص خیال رکھتی تھیں- وہاں بھی مختلف نظریات، مذاہب اور ثقافتوں کے لوگ آباد تھے، لیکن ایک دوسرے کے عقائد، نظریات اور جذبات و احساسات کے احترام اور مذہبی و ثقافتی آزادی کے سبب مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان معاشرتی و سماجی ہنگامہ آرائی، خانہ جنگی یا کسی اقلیت کو اپنی ثقافت کی بقا کے خطرات پیش نہیں آئے اور یہی برداشت برصغیر میں قریباً ہزار سالہ مسلمان حکومت کی بھی بنیاد تھی- آج دنیا گلوبل ویلیج ﴿عالمی گاؤں﴾ کی حیثیت اختیار کر رہی ہے تاہم یہ امر افسوس ناک ہے کہ اس جدید اور مہذب دنیا میں مختلف مکاتب فکر کے درمیان خلیج کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے- اس میں تمام لوگوں بالخصوص ترقی یافتہ ممالک پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ تاریخ سے سبق سیکھیں اور عدمِ برداشت کے پیچھے کار فرما عوامل کا استدراک وقت پر کریں- ایسے ممالک جو مذہبی و انسانی آزادی کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، انہیں حقیقی معنوں میں اپنے شہریوں کو مذہبی و ثقافتی آزادی دینی چاہئے اور ثقافت یا مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک روا رکھنا نہیں چاہئے بالخصوص جب اس سے دوسرے افراد متاثر نہ ہوں بلکہ معاشرے میں عزت و وقار میں اضافہ ہو-حکومتی سطح پر کوئی بھی ایسا قدم جس سے کوئی خاص اقلیت متاثر ہو، اس کا اثر اکثریتی عوام پر بھی پڑتا ہے اور نتیجتاً اکثریت و اقلیت کے آپس میں برتاؤ اور ملن جلن میں بھی مسائل ابھرتے ہیں- خاص طور پر جب ایسے اقدامات کے پیچھے سیاسی مفادات کار فرما ہوں- اس سے اقلیتوں کی بھی حوصلہ شکنی ہوتی ہے کہ وہ کھل کر معاشرے میں سامنے آئیں اور ملکی ترقی میں کردار ادا کریں- ایسی نفرتیں اور فاصلے پیدا تو چند سالوں میں ہوتے ہیں مگر انہیں ختم کرنے میں بسا اوقات نسلیں لگ جاتی ہیں- اس کے برعکس جن ممالک میں اقلیتوں کو آزادی دی جاتی ہے اور انہیں اپنی ثقافت اور مذہبی اُمور میں کسی سختی کا سامنا نہیں ہوتا وہاں اقلیتیں اپنے ملک کی ترقی اور معاشرے میں خاطر خواہ کردار ادا کرتی ہیں- مسلمانوں کے کئی مغربی ممالک میں سیاست، کاروبار، تجارت، معیشت اور دیگر شعبہ جات میں مثبت اور اہم کردار سے واضح ہے کہ وہ معاشرے میں اپنے مَثبت کردار کے لئے کوشاں ہیں- حال ہی میں سکاٹ لینڈ میں حجاب کو باقاعدہ خواتین پولیس کے یونیفارم کا حصہ بنانے کی منظوری دی گئی ہے جس کا مقصد متنوع پولیس فورس کا قیام ہے- اس عمل کو مختلف حلقوں کی جانب سے سراہا گیا ہے کہ اس طرح اقلیتوں کو نہ صرف اپنی ثقافت کے ساتھ ملک میں رہنے کا موقع ملے گا بلکہ بین المذاہب اور بین الثقافت ہم آہنگی کو فروغ ملے گا اور لوگوں میں برداشت پیدا ہوگی- ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کے گلوبل ویلیج میں دوسرے مذاہب اور عقائد کا احترام کیا جائے اور لوگوں کو اپنی ثقافت اور مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دی جائے بالخصوص انفرادی سطح پر خواتین اور ان کے لباس کے تقدس کا خیال رکھا جائے تاکہ بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ ملے اور اقلیتوں کے معاشرے میں کردار کی حوصلہ افزائی ہو-