قراردادِ پاکستان اور عزمِ نو
تاریخِ انسانی میں یہ بات مسلّم ہے کہ کچھ ایام قوموں کی شناخت سے جُڑے ہوتے ہیں جو عام ایام کی نسبت منفرد و اعزازی اہمیت کا تقاضا کرتے ہیں-یہ ایام قوموں کی تعمیر و ترقی میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں-مشرق تا مغرب اقوام اپنے یادگار ایام کو منفرد انداز میں مناتی ہیں جو نہ صرف قومی یکجہتی کا ذریعہ ہوتے ہیں بلکہ اپنی مناسبت سے ایک نیا ولولہ پیدا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں- یومِ پاکستان اُسی طرح مملکتِ پاکستان کی تاریخ میں ایک نہایت اہم دن ہے بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ دن مسلمانانِ ہند کیلئے سیاسی اجتہاد کی سی اہمیت بھی رکھتا ہے-
اُنیسویں اور بیسویں صدی مسلمانان ِ برصغیر کیلئے نہایت مشکل و کٹھن صدی تھی-مغربی نیشنلزم کی یلغار بھی مسلمانانِ ہند کے لیے سُمِ قاتل ثابت ہوئی- مغربی نیشنلزم نے اسلامی قومیت کے تصور کو مسخ کرنے کی کوشش کی اور یہ غلط تصور دیا کہ قوم کی بنیاد رنگ،نسل،زبان اور جغرافیہ ہے- اُس وقت درپیش تمام نازک حالات میں امت کے نبض شناس علامہ محمد اقبالؒ نے اسلامی قومیت کا حقیقی تصور، دانشورانہ اور فلسفیانہ انداز میں پیش کیا اور اس تصور کو شاعری و نثری صورت میں نہایت مضبوط دلائل کے ساتھ قوم کے سامنے پیش کیا- اس خدمت نے مسلمانانِ برِصغیر کیلئے آزادی کی صحیح سمت متعین کی- اقبالؒ کے اس تصور کو اپناتے ہوئے اسلامیانِ ہند نے انگریزوں کی غلامی سےنجات اور آزادی کے حصول کیلئے طویل جدو جہد کی-اس جدوجہد میں مسلمانوں نے ناقابلِ فراموش جانی و مالی قربانیاں پیش کیں- اس طویل سیاسی جدو جہد کا نتیجہ 23مارچ 1940ء کو قرادادِ پاکستان کی صورت میں سامنے آیا جس میں مسلمانوں کےلئے علیحدہ مملکت(پاکستان) کے مطالبے کو تسلیم کرلیا گیا-یہ تاریخ ساز دن ہمارے لئے ہر آنے والے دور میں نا قابل تردید اہمیت کا حامل ہے اور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اپنی نظریاتی اساس کا تحفظ کرتے ہوئے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہیے-
تاریخ ِعالم میں شاذ و نادر ایسے مفکرین گزرے ہیں جن کی فکر کواس قدر تیزی سے حمایت ملی اور اتنی سبک رفتاری سے اسے عملی طور پر اپنالیا گیا ہو- اسلامیانِ ہند نے فکر ِاقبال (تصورِ پاکستان) کوعملی طور پر اپناتے ہوئے صرف ڈیڑھ عشرے میں علیحدہ مملکت کا حصول ممکن بنالیا-با الفاظ دیگر یہ اس لئے بھی ممکن ہوا کیونکہ درحقیقت یہ فکر اور تحریک دینِ اسلام جیسی آفاقی و روحانی قوت اور عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) کے سائے میں پروان چڑھی تھی-مزید یہ کہ رحمتِ ایزدی نے سب سے بڑا احسان یہ فرمایا کہ اس تحریک کو قائد اعظمؒ محمد علی جناح جیسا صاحب ِبصیرت اور مخلص لیڈر عطا فرمایا جس نے اپنی بصیرت اور مومنانہ صلاحیت سےقوم کی صورت گری کرتے ہوئے اسے ایک پرچم تلے جمع کیا اور اپنی جہدِمسلسل اور عزمِ صمیم سے اقبالؒ کے خواب (پاکستان) کو شرمندہ تعبیر کیا-
قومی وحدت اور روشن مستقبل کیلئے ہم سب پر لازم ہے کہ قدرت کے اس عظیم تحفے(پاکستان) کی قدر اور حفاظت کریں اور پاکستانی شہری ہونے کے ناطے اس کی تعمیر و ترقی،قیامِ امن اور عالمی سطح پر اس کے اسلامی تشخص کو اجاگر کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں- اس وقت مملکت پاکستان کو جن اندرونی و بیرونی خطرات کا سامنا ہے اور آئے روز جس طرح اس کی روحانی ونظریا تی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کیلئے اندوہناک ہتھکنڈوں کا استعمال کیا جارہا ہے وہ قوم سے ڈھکا چھپا نہیں- تاہم گزشتہ چند برسوں میں جن مشکل حالات اور کنفیوژنز کا قوم نے کامیابی سے مقابلہ کیا ہے وہ قابلِ تحسین ہے- اس کا سہرا تمام پاکستانی عوام بالخصوص دفاعی اداروں کو جاتا ہے جنہوں نے یک آواز ہو کر ان کٹھن حالات کا سامنا کیا ہے- موجودہ صورتحال میں یہ ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کیونکہ نظریہ پاکستان کے دشمن (بھارت)نے کبھی پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا اور وقتاً فوقتاً سازشوں کے ذریعے ہماری قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اللہ کے فضل و کرم سے اُس کی ہر سازش ناکام ہوئی ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی ناکام ہو گی- پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہےجس کا وجود اسلامی نظریہ حیات اور اسلام کےآفاقی و روحانی اُصولوں پر قائم ہے اس لیے جغرافیائی سرحدوں کے دفاع کےساتھ سا تھ پاکستان کی نظریاتی و روحانی بنیادوں کا دفاع بھی اہم قومی فریضہ ہے- اس نظریہ کے دفاع کے لیے ہمیں ہر سطح پر اس کا پرچار کرنا چاہیے-
قراردادِ پاکستان اور عزمِ نو
تاریخِ انسانی میں یہ بات مسلّم ہے کہ کچھ ایام قوموں کی شناخت سے جُڑے ہوتے ہیں جو عام ایام کی نسبت منفرد و اعزازی اہمیت کا تقاضا کرتے ہیں-یہ ایام قوموں کی تعمیر و ترقی میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں-مشرق تا مغرب اقوام اپنے یادگار ایام کو منفرد انداز میں مناتی ہیں جو نہ صرف قومی یکجہتی کا ذریعہ ہوتے ہیں بلکہ اپنی مناسبت سے ایک نیا ولولہ پیدا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں- یومِ پاکستان اُسی طرح مملکتِ پاکستان کی تاریخ میں ایک نہایت اہم دن ہے بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ دن مسلمانانِ ہند کیلئے سیاسی اجتہاد کی سی اہمیت بھی رکھتا ہے-
اُنیسویں اور بیسویں صدی مسلمانان ِ برصغیر کیلئے نہایت مشکل و کٹھن صدی تھی-مغربی نیشنلزم کی یلغار بھی مسلمانانِ ہند کے لیے سُمِ قاتل ثابت ہوئی- مغربی نیشنلزم نے اسلامی قومیت کے تصور کو مسخ کرنے کی کوشش کی اور یہ غلط تصور دیا کہ قوم کی بنیاد رنگ،نسل،زبان اور جغرافیہ ہے- اُس وقت درپیش تمام نازک حالات میں امت کے نبض شناس علامہ محمد اقبالؒ نے اسلامی قومیت کا حقیقی تصور، دانشورانہ اور فلسفیانہ انداز میں پیش کیا اور اس تصور کو شاعری و نثری صورت میں نہایت مضبوط دلائل کے ساتھ قوم کے سامنے پیش کیا- اس خدمت نے مسلمانانِ برِصغیر کیلئے آزادی کی صحیح سمت متعین کی- اقبالؒ کے اس تصور کو اپناتے ہوئے اسلامیانِ ہند نے انگریزوں کی غلامی سےنجات اور آزادی کے حصول کیلئے طویل جدو جہد کی-اس جدوجہد میں مسلمانوں نے ناقابلِ فراموش جانی و مالی قربانیاں پیش کیں- اس طویل سیاسی جدو جہد کا نتیجہ 23مارچ 1940ء کو قرادادِ پاکستان کی صورت میں سامنے آیا جس میں مسلمانوں کےلئے علیحدہ مملکت(پاکستان) کے مطالبے کو تسلیم کرلیا گیا-یہ تاریخ ساز دن ہمارے لئے ہر آنے والے دور میں نا قابل تردید اہمیت کا حامل ہے اور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اپنی نظریاتی اساس کا تحفظ کرتے ہوئے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہیے-
تاریخ ِعالم میں شاذ و نادر ایسے مفکرین گزرے ہیں جن کی فکر کواس قدر تیزی سے حمایت ملی اور اتنی سبک رفتاری سے اسے عملی طور پر اپنالیا گیا ہو- اسلامیانِ ہند نے فکر ِاقبال (تصورِ پاکستان) کوعملی طور پر اپناتے ہوئے صرف ڈیڑھ عشرے میں علیحدہ مملکت کا حصول ممکن بنالیا-با الفاظ دیگر یہ اس لئے بھی ممکن ہوا کیونکہ درحقیقت یہ فکر اور تحریک دینِ اسلام جیسی آفاقی و روحانی قوت اور عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) کے سائے میں پروان چڑھی تھی-مزید یہ کہ رحمتِ ایزدی نے سب سے بڑا احسان یہ فرمایا کہ اس تحریک کو قائد اعظمؒ محمد علی جناح جیسا صاحب ِبصیرت اور مخلص لیڈر عطا فرمایا جس نے اپنی بصیرت اور مومنانہ صلاحیت سےقوم کی صورت گری کرتے ہوئے اسے ایک پرچم تلے جمع کیا اور اپنی جہدِمسلسل اور عزمِ صمیم سے اقبالؒ کے خواب (پاکستان) کو شرمندہ تعبیر کیا-
قومی وحدت اور روشن مستقبل کیلئے ہم سب پر لازم ہے کہ قدرت کے اس عظیم تحفے(پاکستان) کی قدر اور حفاظت کریں اور پاکستانی شہری ہونے کے ناطے اس کی تعمیر و ترقی،قیامِ امن اور عالمی سطح پر اس کے اسلامی تشخص کو اجاگر کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں- اس وقت مملکت پاکستان کو جن اندرونی و بیرونی خطرات کا سامنا ہے اور آئے روز جس طرح اس کی روحانی ونظریا تی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کیلئے اندوہناک ہتھکنڈوں کا استعمال کیا جارہا ہے وہ قوم سے ڈھکا چھپا نہیں- تاہم گزشتہ چند برسوں میں جن مشکل حالات اور کنفیوژنز کا قوم نے کامیابی سے مقابلہ کیا ہے وہ قابلِ تحسین ہے- اس کا سہرا تمام پاکستانی عوام بالخصوص دفاعی اداروں کو جاتا ہے جنہوں نے یک آواز ہو کر ان کٹھن حالات کا سامنا کیا ہے- موجودہ صورتحال میں یہ ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کیونکہ نظریہ پاکستان کے دشمن (بھارت)نے کبھی پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا اور وقتاً فوقتاً سازشوں کے ذریعے ہماری قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اللہ کے فضل و کرم سے اُس کی ہر سازش ناکام ہوئی ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی ناکام ہو گی- پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہےجس کا وجود اسلامی نظریہ حیات اور اسلام کےآفاقی و روحانی اُصولوں پر قائم ہے اس لیے جغرافیائی سرحدوں کے دفاع کےساتھ سا تھ پاکستان کی نظریاتی و روحانی بنیادوں کا دفاع بھی اہم قومی فریضہ ہے- اس نظریہ کے دفاع کے لیے ہمیں ہر سطح پر اس کا پرچار کرنا چاہیے-