’’مضبُوط کریں گے پاکستان ‘‘ !!!
آج وطنِ عزیز پاکستان کو بہت سے مسائل درپیش ہیں جن سے نکلنے کیلئے ہمیں قومی قیادت کی ضرورت ہے - مسائل کو کیٹاگرائز کرنا ممکن نہیں کہ سب سے بڑا مسئلہ کونسا ہے؟ لیکن جو نظر آتے ہیں اُن میں ایک بہت بڑا مسئلہ قومی قیادت ، قومی ویژن اور قومی یکجہتی کا فقدان ہے ، قیادت ویژن دیتی ہے جس سے یکجہتی پیدا ہوتی ہے - مگر بدقسمتی سے اِس وقت پاکستان میں سیاسی قیادتیں مُل سے زیادہ ذاتی مفادات کو ترجیح دیتی ہیں اور اُن کے گزشتہ چار عشروں پہ محیط کارکردگی قومی ویژن اور قومی یکجہتی کے حوالے سے انتہائی مایُوس کُن ہے جس کی وجہ شاید یہی ہے کہ مُلکی مفاد اُن کی ترجیحات میں شامل نہیں - اگر ہوتا تو پاکستان میں فرقہ واریّت ، صوبائیّت و لسانیّت کو سیاسی کارڈز کے طور پہ کیوں استعمال کیا جاتا رہا ؟ قومی قیادت ہر نقصان ، ہر خسارہ اور ہر آزمائش جھیل لیتی ہے مگر جس سے قومی وحدت پارہ پارہ ہونے کا اندیشہ ہو ایسے کام کی ہر جائز و قانونی ممکن طریقے سے حوصلہ شکنی کرتی ہے - جب پاکستان بنا تھا تو اُس وقت انہی ساری اِکائیوں نے مِل کر اِسے سنبھالا تھا اُس وقت نہ تو یہ لسانی ، صوبائی اور فرقہ وارانہ نفرت تھی نہ ہی قومی یکجہتی اِس طرح پارہ پارہ تھی ، بلکہ ۴۶-۱۹۴۵ء کے انتخابات میں پورے برِّصغیر کے مُسلمانوں نے قومی یکجہتی کا مُظاہرہ کرتے ہوئے یک آواز ہوکر آل انڈیا مسلم لیگ کو ووٹ دیئے وہ بھی ایسے قائد کو جو خطاب انگریزی میں کیا کرتے اور تھوڑی بہت گجراتی جانتے تھے مگر مسلمانانِ ہِند کے واحد محبوب لیڈر تھے - قائدِ اعظم کے کئی فرامین اِس بات پہ گواہ ہیں کہ وہ لسانی ، صوبائی اور فرقہ وارانہ آوازوں کو ناپسند کرتے ، آج ہماری قومی ذِمّہ داری ہے کہ ایسے تعصّبات میں لت پت جماعتوں سے اجتناب کریں اور اُن کی حوصلہ افزائی نہ کریں تاکہ پاکستان میں قومی وحدت کی فضا پیدا کی جا سکے - ہمیںاپنے تاریخی نظریات کو پھر سے زندہ کرنا ہوگا جو ہمارے روشن اور پائیدار مستقبل کیلئے کی جانے والی تمام کوششوں کو بنیاد فراہم کرتے ہیں - ہمیں ایمان ،اتحاداور تنظیم کے نعرہ کو عملی جامہ پہنانا چاہئے اور متحد ہو کر آگے بڑھنا چاہئے- ہمیں ہر پلیٹ فارم پر اپنے حقیقی نظریہ کے دفاع کے ساتھ ساتھ اسے فروغ دینا چاہئے اور عوام الناس بالخصوص نوجوانوں میں اس کے متعلق آگاہی پیدا کرنی چاہیے تاکہ ہم اپنی مخلص کوششوں سے اس ملک کو روشن اور خوشحال بناسکیں -
آج ہمارے نظریات میں بہت سے ابہام پیدا کردئیے گئے ہیں چنانچہ ہمیں نظریاتی پختگی کی ضرورت ہے اس سلسلے میں ہمیں ہر قسم کی غلط فہمیوں اور پراپیگنڈا سے نبرد آزما ہونا ہے جس کیلئے ہمیں اپنی بنیا د وں پر واپس لوٹنا ہو گا - آج مودی سرکار کی کارستانیاں اور پالیسیاں ہمیں قائداعظم کے چودہ نکات کا دوبارہ بغور مطالعہ کرنے پر مجبور کرتی ہیں جس میں مسلمانوں کے سیاسی،معاشی اور معاشرتی حقوق کا مطالبہ کیاگیا تھاکیونکہ قائداعظم آل انڈیا کانگریس اور ہندوئوں کی تنگ نظری اور مسلم مخالف ذہنیت سے بخوبی واقف تھے (یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ قائدِ اعظم کے نزدیک ہندو ذہنیت سے مُراد ایک خاص مذہبی عقیدہ نہیں بلکہ ہندوستان کی وہ رولنگ ایلیٹ ہے جو اپنے ہم مذہبوں کے بغیر کسی دوسرے مذہب کا وجود سیاست ، معیشت و معاشرت کے میدان میں قبول نہیں کرتے - جس کی زندہ مثالیں شُدھی تحریک ، آریہ سماج ، ہندو توا اور اس طرح کی کئی تحریکیں ہیں- ) ایسے خیالات کی وجہ سے ہی قائداعظم نے آل انڈیا کانگریس چھوڑ کر آل انڈیامسلم لیگ میں شمولیت اختیا ر کی تھی- یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ نوجوان نسل حصولِ پاکستا ن کے مقصد سے بے خبر ہوتی جارہی ہے اسی طرح صوفیاء کرام ، مسلمان تاجروں اور سالاروں کی تاریخ سے بھی نا آشنائی پائی جاتی ہے ہمیں اپنے آبائو اجداد کی قر بانیوں اور کاوشوں کو فراموش نہیں کرنا چاہئے - ہمارا نظریّہ ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہم جاگیردرانہ اور سرمایہ درانہ نظام کی بجائے عدل و مساوات پہ مبنی اسلامی نظام پر عمل کریں تا کہ لوگوں کو مساوات اور انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے - لوگوں کے پاس مکمل سماجی و معاشی آزادی ہونی چاہئے تاکہ وہ اپنی مرضی کے حکمران منتخب کرسکیں نہ کہ جاگیر داروں کی مرضی سے - افسوس کہ حکمران اشرافیّہ کے ساتھ ملکر تعلیم فروش تعلیمی نظام کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں جو بہت ہی قبیح رذالتوں اور غلاظتوں سے بھرا ہوا ہے جس میں سب سے بڑی کمی قومی پیغام کی ہے - ایسا تعلیمی نظام قومی یکجہتی میں سب سے بڑی رُکاوٹ ہے جو اخلاقیات سے اور اسلامی اقدار سے عاری ہو - قومی وِحدت اور تکمیلِ پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ پرائمری سے اعلیٰ تعلیم تک پاکستان کی نظریاتی اساس کو واضح کرتا یکساں نظامِ تعلیم تمام ہموَطنوں کو مُہیّا کیا جائے - پاکستان کی تکمیل ابھی ادھوری ہے جیسا کہ قائدِ اعظم نے بھی فرمایا تھا کہ پاکستان کا بن جانا منزل کا حصول نہیں بلکہ منزل کے حصول کی جانب ایک قدم ہے - مفکرِ پاکستان علامہ اقبال نے اسلامی جمہوریت کے جس تصور کی وضاحت کی ہے وہ اُس وقت تک قائم نہیں ہوسکتی جب تک کہ لوگوں کو مکمل سماجی و معاشی آزادی حاصل نہ ہو- پاکستان کی تکمیل اسی وقت ہوگی جب ہم قائد اور اقبال کی تعلیمات پر اس کی روح کے مطابق عمل کریںگے- اگر آج حقیقی معنوں میں اقبال اور قائد کا بتایا ہوا طرزِ حکومت قائم ہوجائے توکرپشن کی شرح میں بغیر کسی تاخیر کے خاطر خواہ کمی آ جائے گی - ہمارے پاس افرادی قوت اور قدرتی وسائل کی مد میں بہت صلاحیت ہے اورخطے میں ہماری ایک خاص سیاسی و جغرافیائی اہمیت ہے اور ہم دنیا کا تجارتی مرکز بن سکتے ہیں - پاکستان کے چین سے سدا بہار دوستانہ اور سٹریٹیجک تعلقات قائم ہیں : قراقرم ہائی وے اورزیرِ تعمیر معاشی راہداری سے پورے خطے میں سماجی و معاشی ترقی آئے گی لیکن اس کے حصول کیلئے پاکستان کا استحکام ضروری ہے جو کہ اس کے بنیادی نظریات پر مکمل یقین رکھنے اور اس پر عمل کرنے سے ہی ممکن ہے- ہمیں یہ اعتماد ہونا چاہئے کہ ہم ایک مضبوط قوم ہیں، ہمیں قومی ہم آہنگی ، قومی یکجہتی ، قومی وِحدت، مضبوط دفاع اور معاشی انقلاب کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے مسائل کو حل کر کے پائیدار ترقی اور کامیابی حاصل کر سکیں - سب سے بڑھ کر ہمیں دیانت دار اور دوراندیش قومی قیادت کی ضرورت ہے جو لوگوں کی مخفی صلاحیتوں کو اُبھار سکے جیسا کہ ہم نے قیامِ پاکستان کیلئے کامیابی سے ایسا کیا- ہمیں اس جذبے کو اُبھارنے کی ضرورت کہ ہم اپنے ملک کی حفاظت اور تعمیر اپنے حقیقی نظریے کے مطابق کریں گے-
آزادی کے وقت جذبات سے بھر پور ہمارانعرہ تھا"لیکر رہیں گے پاکستان - بن کے رہے گا پاکستان " - آج ہمیںاُسی جذبے کے ساتھ "مضبوط کریں گے پاکستان "کے نعرہ کی ضرورت ہے -