ظُلم و وحشت کو آخر کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟
اِس وقت صرف پاکستان یا دُنیائے اِسلام ہی نہیں بلکہ پوری دُنیا سلگتے لوہے اور دہکتی آگ کی لپیٹ میں ہے اور نااُمیدی ، جنگ اور تباہی کے سائے ہر طرف منڈلا رہے ہیں ایک دم توڑتا ہوا عالمی نظام بھی ان تمام امیدوں کے چکنا چور ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے - یوں لگتا ہے کہ صوفیا و انسان دوست مفکرین نے جن تباہیوں کے آنے کا عندیہ دیا تھا اسے نظر انداز کیا گیا اور وہ ضروری لوازمات معاشرہ نے نہ اپنائے جو کہ اُن عظیم لوگوں نے قرآن و سُنّت کی روشنی میں تجویز کئے تھے - آئندہ بھی اگر اُنہیں اِسی طرح نظر انداز کیا جاتا رہا تو خوف ، یاس و قنوطیت اور تباہ کاریوں کے یہ بادل چھٹیں گے نہ ہی ظلم و نفرت کی یہ سیاہ رات ختم ہوگی جس کی ظُلمت کی لپیٹ میں مشرق و مغرب ڈوبے ہوئے ہیں - ہمیں قتل و غارت اور بازارِ وحشت کو گرم دیکھ کر یہ ضرور سوچناچاہئے کہ کیا یہ آج کے عہد ہی میں ہو رہا ہے یا ’’یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خَلق؟‘‘ ظلم و وحشت کی روایت نئی نہیں ہے ہزاروں برس سے انسانیت اِسے بھگت رہی ہے - وہ لوگ جنہوں نے نفرت کو قابلِ نفرت سمجھا اور اِس آسیب و بلا سے انسانیت کو محفوظ رکھنے کی تراکیب سوچیں انہوں نے ہمیشہ کلامِ اِلہامی یعنی وحی ئِ رحمانی سے رہنمائی حاصل کی اور یہ بتایا کہ کہ چونکہ اعمال کا دارو مدار نیت پہ ہے اور نیت کا تعلق عالمِ ظاہر سے نہیں بلکہ عالمِ باطن سے ہے - لہٰذا اِنسان کے شفیق و رحیم ہونے کا معاملہ اِس کے ظاہری اعضائے بدن کا نہیں بلکہ اِس کی باطنی و رُوحانی نشو و نما سے ہے جس فرد یا قوم کے اعضائے بدن سے وحشت و ظلم کا اِظہار ہو رہا ہو دراصل وہ ظلم و وحشت اُس فرد یا قوم کی باطن ، اُس کے اندر کے ظالم و وحشی کی ترجمانی ہوتی ہے کیونکہ اعضا وہی کرتے ہیں جس پہ خواہش اُکسائے اور خواہش انسان کے باطن سے پیدا ہوتی ہے - جب تک خواہش یعنی باطن میں ہی شفقت و رحم نہ پایا جائے تو اعضا سے کِس طرح شفقت و رحم کی توقُّع رکھّی جا سکتی ہے - فرد اپنی انفرادی زندگی اور قوم اپنی اجتماعی زندگی میں جب تربیّتِ باطن کو ترک کر دیتے ہیں تو گویا ظلم ووحشت کا تُخمِ ناپاک بدستِ خویش وہ اپنی زندگی کی کیاری میں بو دیتے ہیں جس کا ثمر وہ پائیں یا اُن کی آئندہ نسل ، بہر حال یہ فصل کاٹنی اور اس کی خاکِ زہر آلُود چاٹنی ضرور پڑتی ہے -
آج پوری دُنیا کو بالعموم اور اِسلامی دُنیا کو بالخصوص جن چیلنجز کا سامنا ہے یہ دو رویّوں سے پھوٹے ہیں : (۱) مذہب کے نہ ماننے والوں کی مادیت پرستی (۲) مذہب کے ماننے والوں کی رسم پرستی -
اِن دونوں رویّوں نے انسان کو انسانی احساسات و حساسیّت کے اصل پہلو یعنی روح یا روحانیت سے سینکڑوں میل دور جا پھینکا جس وجہ سے مادیت پرستی و رسم پرستی کے مابین ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز ہوا - اگر مادہ یا رسم اِن دونوں سے ایک ارفع و اعلیٰ انسانی مقصدِ حیات خارج کر دیا جائے تو یہ دونوں شُترِ بے مہار کی طرح شدّت و انتہا پسند ہوجاتے ہیں اور دامنِ اعتدال اِن کے ہاتھوں سے چھوٹ جاتا ہے - مادی ترقّی اِسی صورت میں نتیجۂ خیر پہ منتج ہو سکتی ہے جب اس کا مقصد انسان کی ضرورتِ حقیقی کو سہولت فراہم کرنا ہو اور رسوم و روایاتِ دینی بھی اس وقت انسان کے اندر شفقت و رحم پیدا کرتی ہیں جب ان کا مقصد اپنے من کی کائنات میں اُترنے کا ہُنر جاننا ہو اور معبودِ حقیقی خُدائے وحدہٗ لاشریک سے اپنے تعلُّق کو اس نفاست و مضبوطی کے امتزاج سے قائم کرنا ہو کہ معاملات میں نفاست سرایت کر جائے اور اعمال میں پختگی واقع ہو جائے اور بندہ اُس کے منصبِ نیابت کا حقیقی ترجمان بن جائے - یہ اسی صورت ممکن ہے جب انسان ہتھیار اور تعداد کو اپنی اصل طاقت سمجھنے کی بجائے اللہ جل شانہٗ سے تعلُّقِ روحانی کو اپنی اصل طاقت سمجھے - حکیم الاُمَّت حضرت علّامہ اِقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بامقصد حکیمانہ شاعری میں دُنیا بھر کو بالعموم اور اِسلامی دُنیا کو بالخصوص یہی پیغام دیا کہ جب تک بندہ اپنی قُوّتِ روحانیّہ کو زندہ و بیدار نہیں کرتا ، جب تک اپنے من کی کائنات میں اُترنے کا ہُنر نہیں سیکھتا ، جب تک اپنے وجودِ باطن میں پوشیدہ اسرار و رموز کو نہیں پاتا ، جب تک قلبِ انسانی کی وسعتوں میں پاک و نوری پردوں میں چھپے خزانۂ نُورِ پروردگار تک رسائی حاصل نہیں کرتا اور جب تک اللہ تعالیٰ کی ذات سے اپنا روحانی تعلُّق قائم نہیں کرتا اُس وقت تک یہ خلافت و نیابتِ ظاہری و باطنی کا حقدار و مستحق نہیں ٹھہرتا - یوں تو اقبال کا سارے کا سارا کلام و نثر اِسی پیغام یعنی تجدیدِ روحانیت کی صدائے بازگشت ہے لیکن اگر اقبال کی ایک نظم ’’شمع اور شاعر‘‘ کی ترتیب کو غور سے دیکھا جائے تو اس میں بطورِ خاص حضرت علامہ اقبال نے اُمتِ اِسلامی کا شیرازہ مُنتشر ہونے اور زوالِ اُمت کی وجہ روحانی زوال کو قرار دیا ہے اور اس کا حل بھی یہی تجویز کیا ہے کہ پہلے اپنے آپ پہ غور کرو ، اپنے آپ کو پہچانو اور اپنے من کی کائنات میں ’’چنبے کی بوٹی‘‘ کی خوشبو کو تلاشو - اس کے بعد تُم اِس قابل ہو گے کہ تمہیں چمن کو نغمۂ توحید سے معمور کرنے کی ذِمّہ داری سونپی جائے -
مثلاً شاعر جب شمع سے یہ کہتا ہے کہ
مُدّتے مانندِ تو ، من ہم نفس می سوختم
در طوافِ شُعلہ اَم بالے نہ زَد پروانۂ
می تَپَد صَد جلوہ در جانِ اَمَل فرسودِ من
بر نمی خیزد ازیں محفل دلِ دیوانۂ
’’اے شمع ! اگرچہ میں بھی تیری طرح ایک مُدّت سے اپنے آپ کو جلا رہا ہوں ، مگر میرے شُعلہ کے طواف میں تو ایک پروانے نے بھی پر نہیں جلائے - اُمیدوں اور آرزوؤں میں مُبتلا میری جان میں سینکڑوں جلوے تڑپ رہے ہیں ، مگر میری محفل سے تو ایک بھی دِلِ دیوانہ نہیں اُٹھّا - ‘‘
حضرت علامہ اقبال نے جس شاعر کو بطورِ استعارہ و تمثیل شمع کے مقابل پیش کیا ہے یہ اقبال کی نگاہ میں خود شاعر کا المیّہ بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ اُمّتِ مُسلمہ کے اُن تینوں طبقات کی نمائندگی بھی کرتا ہے جنہیں اقبال نے ’’اے کُشتۂ سُلطانی و مُلّائی و پیری‘‘ کہہ کر زوالِ اُمت کا مُوجب بتایا ہے یعنی مسلمانوں کا حکمران طبقہ (Ruling Elite) ، تفرقہ پرست و رسم پرست مُلاں اور بے عمل و بے نُور مشائخ - کیونکہ یہ تینوں اسلام کی حقیقی روحِ انقلاب یعنی طرزِ حیات کی نمائندگی کے دعویٰ دار ہیں مگر ان کے طوافِ شعلہ پر کسی پروانے نے پر جلائے ہیں اور نہ ہی ان کی محفل سے آج کوئی دِلِ دیوانہ اُٹھتا ہے جو آئینِ نو کی جد و جہد کر سکے -
جبکہ شمع سے مُراد تعلیماتِ اَسلاف ہیں جن کی روشنی و تابندگی اور سوز و گداز آج تک اور آئندہ نسلوں تک ’’مشعلِ راہ‘‘ ہے - شمع شاعر کو تفصیلی جواب دیتی ہے جو کہ نظم کے دس بند ہیں یعنی ایک طویل جواب ہے - دوسرے بند میں شمع نے اپنا اور شاعرکا تقابلی جائزہ کرتے ہوئے سوالاتِ شاعر کا جواب دیا اور کہا کہ تجھ میں اور مجھ فرق یہ ہے کہ میں تو اِس لئے رات بھر جلتی اور پگھلتی رہتی ہوں کہ جلنا اور پگھلنا میرے خالق نے میری فطرت میں ڈال دیا ہے میرے شُعلۂ جاں کو اِس بات کی پروا نہیں کہ پروانے آئیں یا نہ آئیں ، کوئی جلے یا نہ جلے میں نے بہر صُورت ظُلمتِ شب کی تاریکی کو زائل کرنے کیلئے جلتے رہنا ہے جبکہ تیرا شعلۂ تن تو بھڑکتا ہی اِس لئے ہے کہ پروانے تیرے گرد اکٹھے ہوں اور تیری حرارت و تپش کا چرچا ہو تجھے اس سے غرض نہیں کہ ظلمتِ شب کی تاریکی زائل ہو یا نہ ہو - میں تو اِس لئے روتی ہوں کہ میرے دِل میں میرے اختیار سے باہر ایک اشکوں کا ایسا طوفان ہے جو روکنے سے تھم نہیں سکتا جبکہ تیرے مصنوعی اور زبردستی کے آنسو اس لئے رواں ہیں کہ بزمِ گُل میں تیری شبنم افشانی کا چرچا ہوجائے - تیری آغوشِ تربیّت سے عُشّاقِ ذات کیسے پیدا ہوں تیرے اپنے صحرائے قلب میں وُسعت نہیں نہ طلبِ نُورِ ایمن تیرے وجود میں ہے -
میں تو جلتی ہوں کہ ہے مضمر مری فطرت میں سوز
تو فروزاں ہے کہ پروانوں کو ہو سودا ترا
گریہ ساماں میں ، کہ میرے دِل میں ہے طوفانِ اَشک
شبنم اَفشاں تو کہ بزمِ گُل میں ہو چرچا ترا
قیس پیدا ہوں تری آغوش میں ، ممکن نہیں
تنگ ہے صحرا ترا ، محمل ہے بے لیلا ترا
تیسرے بند میں بھی حضرت علّامہ نے بزبانِ شمع یہی شکوہ کیا کہ جو ذوقِ جلوہ رکھتے تھے وہ چل بسے اب مغرب کے مادہ پرستانہ نظامِ تعلیم میں پرورش پانے والوں کو تُو وعدۂ دیدارِ عام کیا دے گا ؟ چوتھے بند میں شمع نے بالفاظِ دِگر اِسی بات کو دُہرایا کہ دولتِ سوز و رِشتۂ اُلفت کے ہونے کے باوجود نہ تو تُو شمعِ محفل کا فریضہ نبھا سکا نہ ہی تسبیح ِ مِلّت میں بکھرے دانوں کو پرو سکا -نہ تو تجھ سے شوقِ جُنید و بایزید سنبھالے جا سکے اور نہ ہی ابنِ سینا و رازی کی حکمت اور سائنس- بند کے آخر میں یہ پیغام دیا کہ یادکر جنون کی پرورش کرنے والے وہ دشت و صحرا ، جہاں عُشّاق کو معشوقین پہ اور معشوقین کو عُشّاق پہ ناز تھا (یعنی صُحبتِ شمسِ تبریزیؒ جس پہ رومیؒ کو ناز تھا اور سوز و سازِ رومیؒ جس پہ شمسِ تبریزیؒ نازاں تھے ، آغوشِ راستیؒ جس کی تربیّت پہ سُلطان باھُوؒ کو ناز تھا اور وہ آدابِ فرزندی سے معمور سُلطانِ باھُوؒ جن پہ مادرِ باھُوؒ کو ناز تھا ) ، شمع شاعر کو مخاطب کرکے کہتی ہے افسوس کہ تجھے دشتِ جنون پرور کے بے جنون ہونے کی فکر ہی نہ رہی ، یہ سرمایۂ رُوحانی لُٹ جانے کا افسوس بھی نہ رہا اور نہ ہی احساس -
شمعِ محفل ہو کے جب تو سوز سے خالی رہاتیرے پروانے بھی اس لذّت سے بیگانے رہے
رِشتۂ اُلفت میں جب ان کو پرو سکتا تھا تُو
پھر پریشاں کیوں تری تسبیح کے دانے رہے
شوقِ بے پروا گیا ، فکرِ فلک پیما گیا
تیری محفل میں نہ دیوانے نہ فرزانے رہے
آج ہیں خاموش وہ دشتِ جُنوں پرور ، جہاں
رَقْص میں لیلیٰ رہی ، لیلیٰ کے دیوانے رہے
وائے ناکامی ! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دِل سے اِحساسِ زیاں جاتا رہا
پانچویں بند میں پھر اقبال نے جتنے استعارات و تشبیہات کا استعمال کیا ہے اُن میں سے بھی بیشتر کا اشارہ مومن کی میراثِ رُوحانی کی طرف ہے کہ کس قدر مسلمان اپنی دولتِ روحانی سے دور جا چکا کہ وہ اہل اللہ جن کے ہنگامہ ہائے باطن نے ویرانوں کو آبادیاں عطا کیں اُن کی وہ رُوحانی آبادیاں آج بربادی کا سا سماں پیش کرتی ہیں کہ ’’خانقاہوں میں مُجاور رِہ گئے یا گور کن‘‘ اور اِسی طرح ’’قُم بأذن اللہ کہہ سکتے تھے جو رُخصت ہوئے‘‘ ایک اور مقام پہ کہا کہ ’’زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن‘‘ - وہ نمازیں جو شان و شوکتِ مومنانہ کی علامت اور سطوتِ توحید کے قائم ہونے کی دلیل تھیں وہ ایک اللہ کی اطاعت کی بجائے برہمنی کے کئی بُت مسلمانوں نے تراش کے ان نمازوں کی سطوت و شوکت کو پامال کیا کیونکہ اہلِ ایمان کے نزدیک بادشاہ ، نواب یا جاگیر دار و سرمایہ دار کی بجائے مسلمان اپنا رازق و مالک صرف و صرف اپنے معبُودِ حقیقی کو سمجھتا ہے - وہ طالبانِ مولیٰ جن کے صادق جذبوں کے پیشِ نظر خود خُداوند تعالیٰ اُن سے محبت فرماتے اور انہیں اپنی بارگاہِ خاص کے قُرب ِ خاص سے نوازتے اور یہ نوید دیتے کہ تو ایک بالشت میری طرف آتا ہے میں ایک قدم تیری طرف آتا ہوں تو ایک قدم چلتا ہے میں دس قدم تیری طرف توجہ فرماتا ہوں ، شمع کہتی ہے حیف! کہ وہ نگاہیں اس طلب کی حامل ہی نہ رہیں دلوں میں وہ جذبۂ صادق و طلبِ مولیٰ ہی نہ رہی -
جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ویرانے کبھی
شہر اُن کے مِٹ گئے ، آبادیاں بَن ہو گئیں
سَطْوَتِ تَوْحِیْد قائم جِن نَمازوں سے ہوئی
وہ نمازیں ہِند میں نظرِ برہمن ہو گئیں
خود تجلّی کو تمنّا جن کے نَظّاروں کی تھی
وہ نگاہیں نا اُمّیدِ نُورِ ایمَن ہو گئیں
شاعر کے اِمراض گنوا چکنے اور تشخیص مکمل کر چکنے کے بعد اِک دَم شمع کا مزاجِ شِکوہ بدلتا ہے تو اب دوا تجویز کرنا شُروع کرتی ہے اور اُمّیدِ شِفا بندھواتی ہے کہ پریشان نہ ہو:
شامِ غم لیکن خبر دیتی ہے صُبحِ عید کی
ظُلمتِ شب میں نظر آئی کِرَن اُمّید کی
نظم کے چھٹے بند میں شمع نے عالَمِ پوشیدہ کے اسرار و رموز سے پردہ اُٹھایا ہے کہ وقت بدلنے کو ہے خُمستانِ حجاز کے پیمانہ برداروں کے رِند ایک بار پھر خوابِ غفلت سے بیدار ہو رہے ہیں کہ تیرے وہ رند جو باطن کی شرابِ طہورا کو چھوڑ کر بادۂ اغیار کے خریدار تھے آج پھر وہ تیرے میکدۂ عشق و فقر کی جانب مائل ہیں اور مستیٔ ظاہر کی بجائے مستیٔ باطن کے متلاشی ہیں - تیرے وہ رند یہ شور و غوغا بپا کئے ہوئے ہیں کہ ہمیں باطن کے خزانۂ لاریبی میں اشک ہائے سحر گاہی سے بننے والی شراب چاہئے کیونکہ مادہ پرستی ، ہوس پرستی و مغرب پرستی کی شراب نے ’’دِل کے ہنگامے کر ڈالے خموش‘‘-
مژدہ اے پیمانِ بردارِ خُمستانِ حجاز!
بعد مُدّت کے ترے رِندوں کو پھر آیا ہے ہوش
نقدِ خودداری بہائے بادۂ اَغیار تھی
پھر دُکاں تیری ہے لبریزِ صدائے ناؤ نوش
پھر یہ غوغا ہے کہ لا ساقی شرابِ خانہ ساز
دِل کے ہنگامے مئے مغرب نے کر ڈالے خموش
بند کے آخر میں شمع کہتی ہے کہ ’’کہہ گئے شاعری جزویست از پیغمبری‘‘ - کہ بزرگ کہہ گئے ہیں کہ ارفع شاعری بھی پیغمبرانہ جد جہد کا ایک حصہ ہے کہ پیغمر پر تو وحی وارد ہوتی ہے اور صوفی وِجدان کے ذریعے حقیقت و مشاہدات تک رسائی حاصل کرتا ہے جبکہ شاعر اپنی ارفع شاعری کے ذریعے مخاطب ہوتا ہے اِس لئے شاعر کا الہامی کلام بھی ایک طرح سے ’’پیغامِ سروش‘‘ یا بقولِ غالب ’’نوائے سروش‘‘ یعنی فرشتے کی صدا ہے - اور فرشتہ بزبانِ شمع ، شاعر کی طرف بھی اور اُن تین طبقات جن کا ذکر شروع میں ہوا ’’حکمران طبقہ ، صاحبانِ خانقاہ و علما‘‘ کی طرف بھی پیغام بھیجتا ہے -
آنکھ کو بیدار کردے وعدۂ دیدار سے
زِندہ کردے دِل کو سوزِ جوہرِ کِردار سے
فرشتے کا پیغام ساتویں بند سے شروع ہوتا ہے :
رہزنِ ہِمّت ہوا ذوقِ تن آسانی ترا
بحر تھا صحرا میں تُو ، گُلشن میں مثلِ جُو ہوا
یعنی تیرا ذوقِ تن آسانی ہی تیری متاعِ ہِمّت کا ڈاکو بنا جب تک تُو وُسعتِ بیابان میں تھا تو لا متناہی سمندر رہا مگر محدودیّتِ گُلشن نے تجھے ایک چھوٹی سی ندّی بنا کے رکھ دیا - متاعِ ہمت اُن چاروں جہات میں پھیلی ہوئی ہے جِسے اقبال نے ’’(۱) شاعر ، (۲) حکمران طبقہ ، (۳) صاحبانِ خانقاہ اور (۴) علما‘‘ کے حوالے سے ذکر کیا ہے -
(۱) تن آسانی ئِ شاعر یہ تھی کہ زندگی کی عملی گہرائی میں اُترے بغیر فقط ’’جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری‘‘ سے متاثر ہوکر ایسی شاعری تخلیق کی جو تربیّتی نصاب بننے کی بجائے انٹرٹینمنٹ بنی اور اقبال کے نزدیک شعرا ٔ یہ بھول گئے کہ ہر قوم کو ہر وقت اپنی نسلِ نو کیلئے ایک نصابِ تربیّت کی ضرورت ہے جسے پورا کرتے رہنا شاعر کے قومی فرائض میں سے ایک ہے - مگر ان کے ہاں صورتِ حال یہ واقعہ ہوئی کہ ’’آہ بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار‘‘- شعرأ کی بے مقصد ، بے ہودہ و شہوت انگیز شاعری اُن کی راہزنِ ہِمّت بنی اور انہوں نے معانی و مفاہیم اور پیغام کا بحرِ بیکراں بننے کی بجائے خود کو حسن پرستی کی ایک چھوٹی سے ندی بننے پہ ترجیح دی -
(۲) حکمرانوں میں جب دولتِ دُنیا کی ہوس محبتِ دین پہ غالب آگئی تو اُن میں آرام طلبی و تعیُّش کا رُجحان بڑھا جو کہ اسپین سے لیکر ہندوستان تک اور اسلام کے ابتدائی چار عشروں کو چھوڑ کے بعد کی بہت سی حکومتوں میں اِن آثار کو تلاشا جا سکتا ہے - جب تک سادگی و درویشی مسلمان حکمرانوں کا ’’لائف سٹائل‘‘ تھی اُن کی سلطنتیں مسلسل وسعت پذیر رہیں مگر کم نظری و تعیش پرستی نے انہیں قبائلی و لسانی ندیاں بنا کر رکھ دیا -
(۳) صاحبانِ خانقاہ کی اولاد میں سے اکثر نے خودجہد و ریاضت ترک کردی اور اَسلاف نے جو ملازمت کی تھی اُسی پنشن پہ گزارا کرنے لگے - بزرگانِ دین نے حصولِ فقر و عرفان کیلئے کیا کیا مشقّتیں اختیار فرمائیں ، کن کن امتحانات سے گزرے ، اور طلبِ اِلٰہی میں کس طرح جذبۂ کامل اور استقامت کو اِختیار کیا تبھی تو وہ مقربینِ و محبوبینِ ذاتِ الٰہی کہلائے - اُن کی استقامت و ہمت ِ طلب ہی اُن کی رفیق تھی جس نے اُنہیں منزلِ مقصود کی جانب گامزن رکھّا اُن کا پیغام معرفت و فقر کا ایک بحرِ بیکراں ہے جس میں غوّاصی کرتے ہوئے تشنگانِ فیضان کو کئی صدیاں بیت چلیں مگر ’’ابھی اِس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لؤ لوئے لالا‘‘ - لیکن طلبِ الٰہی کی راہ میں چلے بغیر صاحبِ مسند بننا ایک ایسی روایت بنا جس نے خانقاہی نظام کو ناقابلِ تلافی نُقصان پہنچایا جس کا نتیجہ زندگی سے بھرپور مشاہدات اور راہِ استقامت کی بلندیوں سے دم تعویذ اور دھاگہ گنڈھا کی پستیوں تک پھیلا ہوا مِلتا ہے - اس معاشرے کی اس سے بڑی کوئی بد قسمتی نہیں کہ افرادِ مِلّت کے تزکیّہ و تصفیّہ کا عظیم فریضہ سرانجام دینے والے اس عظیم انسٹی ٹیوشن کو ایک راہبانہ نوعیّت کا ادارہ بنا دیا گیا - یہی تو بدقسمتی ہے کہ آج ہمہ جہت شخصیّات پیدا نہیں ہو رہیں شخصیّت کے عالمگیر ہونے کا پہلا زینہ ہمہ جہت ہونا ہے اور ہمہ جہت انسان کو اُس کا رُوحانی پہلو بناتا ہے جس کی زِندہ مثال صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ہے کہ بظاہر تو اُن کی تربیت صرف ایک دینی نظام کے اندر ہوئی تھی مگر جب وہ میدانِ عمل میں آئے زندگی کا کوئی ایسا شُعبہ نہیں جس پہ اُن کا بظاہر ایک معمولی عمل ہی کیوں نہ ہو مگر آج تک نقشِ تابندہ کی حیثیت رکھتا ہے - نظم میں یہاں پہ فرشتہ قطرے کی مثال دیتا ہے کہ قطرہ تو وہی ہے مگر زندگی کی تابندگی نے اُسے ایسا باکمال و ہمہ جہت بنا دیا ہے کسی بھی مقام پر وہ جذبۂ خدمت سے محروم نہیں:
زندگی قطرے کی سِکھلاتی ہے اسرارِ حیات
یہ کبھی گوہر ، کبھی شبنم ، کبھی آنسو ہوا
فرشتہ کہتا ہے کہ زندگی کا راز قطرے سے سیکھو - کیونکہ جب اُسے سیپی کی صُحبت میسّر آتی تو ہے تو یہ موتی بن کر تاجِ شاہانہ کی زینت بنتا ہے ، جب اُسے صُحبتِ صُبح میسّر آتی ہے تو یہ شبنم بن کر حُسنِ گُل و لالہ میں اضافہ کرتا ہے اور جب اُسے دلِ درد مند کی صحبت میسر آتی ہے تو یہی قطرہ اشکِ محبت بن کر آنکھوں سے رواں ہوتا ہے - شاید اِسی لئے حضرت علامہ اقبال فرشتے کی زبانی یہ بتلاتے ہیں کہ جب تک کسی کامل کی صحبت سے دِل زندہ و بیدار نہیں ہوتا تب تک زندگی بے مقصد و بے معنی ہے :
پھر کہیں سے اِس کو پیدا کر بڑی دولت ہے یہ
زندگی کیسی جو دِل بیگانۂ پہلو ہوا
تصفیّۂ قلب سے کنارہ کشی بھی راہزنِ ہمت کے زُمرہ میں آتی ہے اور صحبتِ اہلِ دل کی تلاش کو ترک کرنا بھی راہزنِ ہمت ہے - حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے بالِ جبریل میں ’’پیر و مرید‘‘ کے عُنوان سے معنون نظم میں حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ سے مکالمہ کیا ہے اس میں بطورِ مُرید مولانا رومی سے یہ سوال کرتے ہیں :
تو یہ کہتا ہے کہ دِل کی کر تلاش
’’طالبِ دِل باش و در پیکار باش‘‘
جو مرا دِل ہے ، مرے سینے میں ہے
میرا جوہر میرے آئینے میں ہے
مُریدِ ہندی (حضرت علامہ اقبال) کے اِس سوال کا جواب دیتے ہوئے پیرِ رومی فرماتے ہیں:
تُو ہمیں گوئی مُرا دِل نیز ہست
دِل فرازِ عرش باشد نے بہ پست
تُو دِلِ خُود را دِلے پنداشتی
جستجوئے اہلِ دِل بگذاشتی
ترجمہ:’’ تُو یہ کہتا ہے کہ میرے پاس بھی دِل ہے ، دِل تو عرش کی بلندیوں پہ ہونا چاہئے نہ کہ (اسفل السافلین کی) پستیوں میں- تُو نے دِل سے مُراد اپنے (خون کے لوتھڑے ) دل کو لیا اور اہلِ دِل کی تلاش کو ترک کردیا ‘‘-
(۴) مسندِ علم جو اِسلام کا بہت عظیم اور سب سے حساس ادارہ تھا جس کے ذِمّہ کتاب و سُنّت کی عملی تفسیر و تشریح تھی اور رسولِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی علم سے متعلق متعدد دعاؤں کا عملی ثمر ڈھونڈنا تھا جس نے مشرق و مغرب کے اندھیرے مٹائے اور علم و ہُنر کے نور سے تہذیبوں کے دامن بھر دیئے اور دُنیا کو ترقی و ایجادات کے ایسے ایسے تحائف بخشے انسانیت کو فضیلت کی ایسی ایسی خلعتیں بخشیں کہ تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے - تفسیر ، حدیث اورفقہ سمیت علم کی ہر اُس شاخ ہر اُس برانچ میں ایسی ایسی تخلیقات پیش کیں کہ جو براہِ راست یا بالواسطہ انسانی زندگی پہ ایک اثر رکھتی تھی - مگر بد قسمتی سے یہ اہم ترین ادارہ فرقہ واریّت و فروعی اختلافات کی ایسی بھینٹ چڑھا کہ لامتناہیّت کے سمندر سے فرقوں اور فرقیوں کی چھوٹی چھوٹی ندیوں میں تقسیم ہو کر رِہ گیا -
اپنی اصلیَّت پہ قائم تھا تو جمعیَّت بھی تھی
چھوڑ کر گُل کو ، پریشاں کاروانِ بُو ہوا
آبرُو باقی تری مِلّت کی جمعیّت سے تھی
جب یہ جمعیَّت گئی ، دُنیا میں رُسوا تُو ہوا
فرد قائم ربطِ مِلّت سے ہے ، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرُونِ دریا کچھ نہیں
آٹھواں بند شروع ہوتے ہوئے ’’نوائے سروش‘‘ یہ ہے کہ تیری بساطِ طلبِ الٰہی کے مطابق تجھ پہ رموزِ محبتِ الٰہی آشکار ہوں گے جنہیں درونِ سینہ محفوظ رکھنا اور انہیں کھلم کھلا نہ کہنا تیری ذِمہ داری ہے ابھی اپنے آپ کو راہِ محبت میں پختہ سے مزید پختہ بلکہ پختہ تر کر دے - تلاشِ ذاتِ حق تعالیٰ میں گرد و پیش اور مال و اسباب کی پرواہ کی بغیر آگے بڑھتا جا اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ (ں) کی طرح وادیٔ سینا میں خیمہ زن ہوجا کہ جب کوہِ سینا سے نور کا نظارہ دیکھا تو اس کی تلاش میں چل پڑے اور کوہِ طور پہ منصبِ نبُوَّت پہ سرفراز ہوئے - طالبِ مولیٰ پہ لازم ہے کہ مقصد کی تکمیل تک راہِ استقامت پہ چلتا جائے اور راز و رموز کو سینہ میں مستور رکھے -جس طرح کہ عہدِ حاضر کی عظیم روحانی ہستی سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ’’فقر لینا بھی اُس طرح مشکل نہیں ہے اور فقر دینا بھی اُس طرح مشکل نہیں ہے جس طرح کہ فقر کو سنبھالنا مشکل ہے‘‘-
پردۂ دِل میں محبت کو ابھی مستور رکھ
یعنی اپنی مئے کو رُسوا صُورتِ مینا نہ کر
خیمہ زن ہو وادیٔ سینا میں مانندِ کلیم
شعلۂ تحقیق کو غارت گرِ کاشانہ کر
فقر و درویشی چونکہ آدمی کے وجود میں بے نیازی و خود داری کو پیدا کرتی ہیں اِس لئے تمام صُوفیا و انسان دوست مفکرین نے ’’نشۂ درویشی میں پختہ ہونے‘‘ کو اوّلیّت دی ہے اور ’’اس میں پختہ ہو جانے کے بعد تختِ دارا و جم‘‘ کا سبق دیا ہے - کہ جب تیرا سینہ امینِ رازِ ممکناتِ زندگی بن جائے تو پھر ’’قومِ رسولِ ہاشمی کے اجزائے ترکیبی‘‘ پہ غور کر تو تجھے یہ سمجھ آجائے گی کہ ایک معبودِ حقیقی اللہ جل شانہٗ کی ذات پہ یقین رکھنے والے در بدر کی گدائی نہیں کرتے - جب تجھ میں یہ خودداری و خود نگہداری پیدا ہو جائے گی تو ’’منّت کشِ ساقی‘‘ نہیں ہوگا بلکہ بُلبلے کی طرح عین وسطِ سمندر میں بھی اپنا پیالہ اُلٹا رکھّے گا کہ بُلبلہ اِس مقام پہ اقبال کے نزدیک غیرت کا استعارہ ہے جو منت کشِ سمندر نہیں - اِس لئے عالمی نظام کا اِحسان کیش ہونا اور عالمی اداروں کی اِمداد پہ اپنی قومی زندگی کا اِنحصار سمجھنا ’’مِنَّت کشِ ساقی‘‘ ہونے کے مُترادف ہے اور خود داری و خود نگہداری کے اصولوں کے خلاف ہے -
تُو اگر خود دار ہے ، مِنّت کشِ ساقی نہ ہو
عین دریا میں حُباب آسا نگوں پیمانہ کر
اس کے بعد بتاتے ہیں کہ
کیفیّت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہیں
ہے جُنوں تیرا نیا ، پیدا نیا ویرانہ کر
یعنی پُرانے نظام نئی دُنیا کو کچھ نہیں دے سکتے یہ ناکام ہو چکے ، ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ، انسانیت کی بھلائی اور فلاح کیلئے کچھ بھی مثبت کرنے میں ناکام ہو چکے ، اِن عالمی نظاموں کی موجودگی (بلکہ سرپرستی) میں دُنیا کو جنگوں کی کوکھ میں دھکیلا گیا ، طاقتوروں کو کمزور قوموں کا استحصال کرنے کی اجازت دی گئی ، کمزور ممالک کے قدرتی وسائل کو طاقتوروں نے جتنا چاہا لُوٹا مگر عالمی نظام اس پہ خاموش رہے ، اپنی مرضی کی مذہبی و غیر مذہبی کمیونٹیوں کو تو اُن کی مرضی و منشا کے عین مطابق نوازا گیا مگر عالمی نظام کی ناپسندیدہ کمیونیٹیز آج بھی کاسۂ انصاف لئے کھڑی ہیں لاکھوں قربانیوں کے باوجود اُن کی حیثیت ایک پرِ کاہ کی سی ہے جِسے عالمی نظام یہ سمجھتا ہے کہ جب جی چاہا پھونک مار کے اڑا دیں گے - اقبال بزبانِ شمع فرشتے کا پیغام دیتے ہیں کہ اس فرسودہ سامراجی روایت میں کچھ نہیں رکھا ، تیرا جنون نیا ہے ، تیرا خون تازہ ہے ، تیری کتاب پرانی نہیں ہوئی ، تیرا دستورِ زندگی پرانا نہیں ہوا ، تیرا دین پرانا نہیں ہوا اگر تجھے ان سب کے زندہ و تابندہ ہونے کا یقین نصیب ہے اور تو سمجھتا ہے کہ اس سب کی طرح یقیناً یقیناً یقیناً تیرا جنون نیا ہے تو اپنے جنون کی تشفّی کیلئے نیا ویرانہ پیدا کر - سامراجی کوہ و صحرا کی طرف مت دیکھ وہاں سے خوبصورت شکلوں کے بھیانک درندوں کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوگا - ہِمّت باندھ ، یقین پیدا کر اور جد و جہد کا آغاز کر -
اگر دُنیا تجھے ذِلّت و زوال کا طعنہ دیتی ہے تو گھبراتا کیوں ہے ؟
خاک میں تجھ کو مُقدّر نے مِلایا ہے اگر
تو عصا، افتاد سے، پیدا مثالِ دانہ کر
گھبرا مت ! کیا تو نے دیکھا نہیں کہ دانہ منوں مٹّی تلے دب کر بھی اُٹھ کھڑا ہوتا ہے تو بھی اِس دانہ کی طرح ہمت کر ، یقین کی قُوّت سے زمین کا سینہ چیر کے باہر نکل تیری ہریالی کائنات کو ایک نئی آبادی و شادابی عطا کرے گی - اِس سے آگے فرماتے ہیں کہ وہ پُرانی شاخ یعنی تیرے اَسلاف کی فقر و درویشی اور اُن کی چھوڑی ہو ئی رُوحانی میراث اور عدلِ اجتماعی کا نظام ، ہاں ! اُسی شاخ پہ اپنا آشیانہ بنا اور نغمۂ مستانہ سے اہل چمن کو اپنا ہمنوا و گواہ بنا لے - مگر سوال یہ ہے کہ نغمۂ مستانہ کی شرائط کیا ہوں گی ؟ نغمۂ مستانہ کیلئے اوّلین شرط ایک ایسا پُر امن طریقہ کار جو لوگوں کے جان ، مال اور آبرو کو متاثر کئے بغیر اس پیغام کو عوام و خواص کیلئے آسان فہم انداز میں پیش کرنے کی ضمانت دے - جس میں گفتار و رفتار اور اقوال و افعال کی ہم آہنگی ہو یعنی کردار کی پختگی پوری مومنانہ شان سے موجود ہو - اپنی ابتدا سے انتہا تک، لٹریچر سے ایڈمنسٹریشن تک ، تعلیم سے تربیّت تک حتّیٰ کہ اپنی تمام جزئیات سے لیکر کُلیّت تک ایک ایک چیز میں لازمی طور پہ پُر امن ہو اور طریقِ اعتدال پہ مبنی ہو -
ہاں! اِسی شاخِ کُہن پہ پھر بنالے آشیاں
اہلِ گُلشن کو شھیدِ نغمۂ مستانہ کر
پھر اقبال فرماتے ہیں کہ جینے کے دو راستے ہیں ایک ہے بُلبُل کی پیروی کہ تیرا وجود سراپہ نالہ و فریاد بن جائے اور دوسرا یہ کہ تو تلمیذِ گُل (پھول کی شاگردی) میں چُپ رِہ زبان کو تالا لگا دے - یعنی یا اِس جھوٹے عالمی سیاسی و اقتصادی نظام سے سمجھوتہ کر لے یا اِس کے دوہرے معیارات کے خلاف بھرپور آواز اُٹھا کیونکہ تو فرزندِ اسلام ہونے ناطے سازِ عالَم کا نغمہ ہے اگر تجھ سے بھی نغمۂ اِنقلاب نہیں پھوٹتا تو پھر یہ عظیم فریضہ کون نبھانے آئے گا ؟ کیا مخلوق کو اِسی طرح خوش شکل درندوں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا جائے ؟ کہ جس حیوانیّت کو مرضی ’’جمہوریت ‘‘ یا جمہور کا فیصلہ‘‘ کہہ کر قانونی حیثیت دے دیں ، جس حلال کو جمہور کے نام پہ حرام اور جس حرام کو جمہور کے نام پہ حلال قرار دے دیں - اقبال کہتے ہیں ، نہیں ! تو ایک زندہ ملت کا فرد اور زندہ کتاب کا ماننے والا اور زندہ نبی کا کلمہ پڑھنے والا ہے اِس لئے تجھ پہ لازم ہے کہ ظُلمت کو ظُلمت کہہ ! ظُلم کو ظُلم کہہ ! حلال کو حلال اور حرام کو حرام کہہ!
اِس چمن میں پیروِ بُلبُل ہو یا تلمیذِ گُل
یا سراپہ نالہ بن جا ، یا نوا پیدا نہ کر
کیوں چمن میں بے صدا مثلِ رمِ شبنم ہے تُو
لَب کُشا ہو جا! سرُودِ بربطِ عالَم ہے تُو
جہاں سے نویں بند کا آغاز ہورہا ہے یہاں سے فرشتہ پیغام دیتا ہے کہ تیرے امراض کی دوا اور تیرے اوپر جو ذِمّہ داریاں عائد ہیں اُنہیں پورا کرنے کیلئے جو زادِ سفر مطلوب ہے وہ تجھے اپنے پلے سے باندھنا پڑے گا - اور وہ ہے تیری تربیَّتِ رُوحانی کا اہتمام ! یہ پورا بند روحانیّت کے اُن تصوّرات پہ مبنی ہے جنہیں کھُل کر بیان نہ کیا جا سکے لیکن اِس میں دعوت بُنیادی یہی دی گئی ہے کہ انسان کو اپنی ذات اور اپنی ہستی میں غور کرنا چاہئے کہ مجھے پروردگارِ عالَم نے کیا کیا شرف اور کیا کیا عظمتیں عطا کی ہیں - کیونکہ قلبِ انسانی کو جتنی وُسعت نصیب ہے اُس کے بارے آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا جیسا کہ حضرت سُلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’دِل چیست ؟ وسیع از چہار دہ طبقات-‘‘
ترجمہ : ’’ دِل کیا ہے؟ دِل چودہ طبقات سے بھی زیادہ وسیع ہے‘‘-
دِل دریا سمندروں ڈوگھے کون دِلاں دیاں جانے ھُو
وچے بیڑے وچے جھیڑے وچے ونجھ مہانے ھُو
چودہ طبق دلے دے اندر تمبو وانگن تانے ھُو
جو دِل دا محرم ہووے باھُوؔ سوہی رب پچھانے ھُو
صُوفیائے کرام نے بھی اور اکثر فقہا و مفسّرین نے بھی ایک حدیثِ قُدسی نقل فرمائی ہے - جس میں اِرشاد ہوتا ہے:
{لایسعنی ارضی ولا سمائی ولٰکن یسعنی فی قلب عبد المؤمن}
’’میں نہیں سماتا زمین میں اور نہ ہی آسمانوں میں ، بلکہ میری سمائی ہے اپنے مومن بندے کے دِل میں ‘‘-
من میں اُترنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ آدمی اپنے باطن میں جھانکے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے انوار کا جو خزانہ مومن کے قلب میں رکھا ہے اُس سے مُستفید ہو اور اپنے آپ کو اُس کے قُرب میں لیکر جائے اِسی کو اسلاف نے ، بزرگانِ دین نے قرآن و سُنّت سے عملی تحقیق کر کے من کا راز کہا ہے -اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کا منصب جسے عطا کیا اور اپنی نیابت و خِلافت جسے عطا فرمائی اُس کے قلب کو یہ شرف بخشا کہ اپنے نُور سے مُنَوَّر فرمایا - وہ تمام بڑی شخصیّات جنہوں نے زندگی بھر کی مُشقَّت و ریاضت سے مالکِ حقیقی کی محبت کا راز پایا ہے وہ سب تو یہی بتا کر گئے ہیں کہ جس نے بھی پایا ہے اپنے اندر سے پایا ہے - اور جس انسان کو بھی اپنے اندر جھناکنے کی توفیق اُس نے عطا کی وہی عظیم اِنسان کہلایا ہے - حضرت علّامہ اِقبال نے مسلمان نوجوانوں کو بالخصوص اس جانب متوجہ کیا کہ وہ اپنی حقیقت سے آگاہ ہوں اور اِس دُنیا کی گہما گہمی میں اپنا مقام پہچانیں - درج ذیل میں ’’شمع و شاعر‘‘ کا جو بند ہے وہ اِسی پیغام کو بآوازِ بُلند سُناتا ہے کہ اگر یہ دِہقان (انسان ) اپنی حقیقت کو پرکھے تو اِسے معلوم ہوگا وہ دانہ و کھیتی و باران و حاصل سب کچھ اِسی کے اپنے اندر ہے - دانہ انسان کی طلب ہے جسے یہ اپنے دل کی کھیتی میں کاشت کرتا ہے اور ذِکرِ الٰہی سے معطّر اِس کی سانسیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک بارانِ رحمت کی طرح ہے جو اِس کھیتی کو سرسبز رکھتا ہے اور وہ حاصل جو اِسے نصیب ہوتا ہے وہ اِس کے اپنے اندر موجود ہے اِس فرمان کے تحت کہ {من عرف نفسہٗ فقد عرف ربّہٗ} کہ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا تحقیق اُس نے اپنے رب کو پہچان لیا -
پھر اقبال فرماتے ہیں کہ کیا چیز ہے جو انسان کو اس کی اپنی ذات سے دور کئے رکھتی ہے ؟ یہ اپنے آپ میں اُترنے کی کوشش کیوں نہیں کرتا ؟ دُنیا کی بھول بھلیّوں میں آوارہ کیوں پھرتا رہتا ہے ؟ فرماتے ہیں کہ اگر تو اپنے اندر اُتر تو تجھے معلوم ہوگا کہ وہ راستہ جس پہ چلنا ہے وہ بھی تو ہے ، اس راہ کا مسافر (راہ رَوْ) بھی تو ہے اور ظُلمتِ نفسانی میں اپنے نفس کا احتساب کرکے اس کی رہبری کرنے والا بھی تو ہے اور وہ مقام جہاں تجھے پہنچنا ہے وہ بھی تو تجھ ہی میں پوشیدہ و پنہاں ہے - ایک مقام پہ علامہ فرماتے ہیں :
از من بروں نیست منزل گہِ من
من بے نصیبم ، راہے نیابم
ترجمہ : ’’میری منزل مجھ سے باہر نہیں ہے (البتّہ) میری بد نصیبی یہ ہے کہ اپنے اندر جانے کا راستہ مجھے نہیں مِل رہا ‘‘-
پھر کہتے ہیں کہ تُو اِس راستے کی طرف آتے ہوئے اِس بات سے خائف ہے کہ تجھے اپنے سے خارج کسی طوفان کا سامنا کرنا پڑے گا ؟ تو اپنی ہستی کی مادی پستی کو دیکھ کے پریشان ہوتا ہے کہ اس کا مقابلہ کیسے کرے گا ؟ تو اس خوف کو ذہن سے نکال کر یہ یقین کر لے کہ طوفان تجھ سے خارج میں نہیں بلکہ تیرے داخل یعنی باطن میں ہوگا - اِسی نظم میں آگے چل کے اقبال نے فرمایا بھی ہے کہ ’’دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکتِ طوفاں بھی ہے‘‘ - اقبال کے الفاظ کو اگر حقیقی قالب میں ڈھال کر دیکھا جائے تو انسانی وجود کشتی کی مثل ہے ، ضمیر ملاح کی مثل ہے ، قلب سمندر کی مثل ہے اور خزانۂ قلب تک رسائی ساحل پہ باحفاظت اُترنے کی مثل ہے - یعنی تیرا وجود کشتی ہے اُس کا ملّاح بھی تو ہے یعنی {لیبلوکم ایکم احسن عملا} کہ عمل انسان کے اختیار میں ہے صحیح سمت میں لے جائے یا اپنے نفس پہ قابو نہ رکھ سکے - اِس لئے اِس طوفان سے ڈر مت بلکہ مردانہ وار بازی گاہِ عشق میں اُتر اور سفینے کو طوفانِ ظُلمتِ نفسانی سے نکال کر امانِ نُورِ روحانی میں لیکر جا -
رسمِ عاشقی میں چار چیزیں تو لازم ہیں عاشق ، معشوق ، جائے مُلاقات اور پردہ و حجاب - اقبال فرماتے ہیں کہ اگر تو اپنے من میں اُتر اور ’’کوچۂ چاکِ گریبان‘‘ میں جھانکنے کی سعی و کوشش کر تو تجھے یہ مشاہدہ ہوگا کہ عاشق تو تو ہے ، تیرا معشوق بھی تیرے اندر جلوہ فرما ہے اور جائے مُلاقات بھی تیرا دِل ہے جہاں تجھے اُس کا قرب و وصال نصیب ہوگا - اگر آج تک تو اس لذّتِ وصال سے محروم ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے اور اُس کے درمیان وہ حجاب بھی تو خود ہے - جب تیری نفسانیت کا حجاب اُٹھ جائے گا تو اُس کا تو یہ فرمان ہے کہ ’’تو ہی اپنی جان کو روکے بیٹھا ہے جبکہ تیرارب تو تیری راہ دیکھ رہا ہے ‘‘-
آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دِہقاں ذرا
دانہ تُو، کھیتی بھی تُو، باراں بھی تُو، حاصل بھی تُو
آہ! کِس کی آرزُو آوارہ رکھتی ہے تُجھے
راہ تُو، راہ رَوْ بھی تُو، رہبر بھی تُو، منزِل بھی تُو
کانپتا ہے دِل تِرا اندیشۂ طُوفاں سے کیا
ناخُدا تُو، بحر تُو، کشتی بھی تُو، ساحل بھی تُو
دیکھ آکر کُوچۂ چاکِ گریباں میں کبھی
قیس تُو، لیلا بھی تُو، صحرا بھی تُو، محمل بھی تُو
پھر فرماتے ہیں کہ تو غیر اللہ کا خوف دِل میں ہرگز ہرگز نہ رکھ ، بلکہ اُس کی ذات کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ ہوس ہے کیونکہ ’’اللہ بس ما سویٰ اللہ ہوس‘‘ - اس لئے تجھے جو آتشِ باطن نصیب ہے اس سے خس و خاشاکِ نفسانی کو جلا ڈال - بے خبر ! زمانے کا شیشہ تیرے ہی جوہر سے تو رشن ہے - اوبے خبر ! تُو ہی تو زمانے میں اُس کی ذات کا آخری پیغام ہے -
شُعلہ بن کے پھونک دے خاشاکِ غیر اللہ کو
خوفِ باطل کیا؟ کہ خود غارت گرِ باطل ہے تُو
بے خبر! تو جوہرِ آئینۂ ایّام ہے
تُو زمانے میں خُدا کا آخری پیغام ہے
دسویں بند میں پھر مسلمان کو اُس کے مقامِ روحانی سے آگاہ کیا گیا ہے کہ اگر تجھے اپنی اصلیّت کا علم ہو اور غفلت کے پردے تیرے سامنے سے ہٹ جائیں تو تجھے معلوم ہوگا کہ تو ایک قطرۂ ہیچ مایہ نہیں بلکہ ایک بحرِ بے پایاں ہے - انسان جب تک اپنے مٹ جانے والے بشری وجود کو ہی اپنا سب سمجھے رکھتا ہے تب تک اِسے اپنی قیمت کا اندازہ ہی نہیں ہو پاتا لیکن جب یہ اپنے باطن میں اُترتا ہے تو اس وسیع کائنات سے اس کا واسطہ پڑتا ہے جس کی دوسری انتہا تلاشنا اِس کیلئے ممکن نہیں ہے - اور یہی قلبی قُوّت اس کی اصل طاقت ہے کہ جب روحانی قوت اس کے پاس ہوتی ہے تو یہ بسا اوقات اُسی سے سات اقلیمیں فتح کر لیتا ہے جس طرح صُوفیائے کرام نے جنوبی ایشیا اور مشرقِ بعید میں اِسلام کی ترویج و اشاعت فرمائی ہے کہ بغیر جنگ وجدال کے ان خطوں کے لوگ حلقہ بگوشِ اِسلام ہوئے ہیں –
آں فقر کہ بے تیغے صد کِشورِ دل گیرد
از فرِّ فریدُوں بہ ، از شوکتِ دارا بہ
ترجمہ : ’’وہ فقر جو بغیر تلوار کے دِل کی ہزاروں مملکتیں فتح کر لیتا ہے ، (ایسا فقر) فریدون کے جلالِ بادشاہی سے بھی بہتر ہے اور دارا کی شان و شوکت سے بھی بہتر ہے‘‘-
اقبال نے خزانۂ قلبی کو کئی جگہ آشکار کیا اور نوجوانوں کی تربیت کیلئے اِسے مختلف مثالوں سے سمجھانے کی کوشش کی - مثلاً ایک مقام پہ فرہاد کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ تونے شیریں کو پانے کیلئے پہاڑ کھود کے نہر نکال دی مگر شیریں کو نہ پا سکا ، افسوس کہ تو پتھروں کے پہاڑ کھودنے پر اپنی زندگی و توانائی ضائع کرنے کی بجائے اپنے دل کے خزانے کو کھود لیتا تو لازمی تجھے وصلِ یار نصیب ہو جاتا :
حسن کا گنجِ گراں مایہ تجھے مل جاتا
تو نے فرہاد نہ کھودا کبھی ویرانۂ دِل
علامہ اقبال مسلمان کی توجہ فاران کی چوٹیوں کی طرف دِلاتے ہیں کہ تیری عظمت اور تیرے پاس آنے والے عظیم پیغام کی امین ہیں جہاں رسول پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے شب و روز سربلندیٔ دین کی جد و جہد فرمائی -
اپنی اَصلِیَّت سے ہو آگاہ اے غافل ! کہ تُو
قطرہ ہے ، لیکن مثالِ بحر بے پایاں بھی ہے
سینہ ہے تیرا امیں اُس کے پیامِ ناز کا
جو نظامِ دہر میں پیدا بھی ہے‘ پنہاں بھی ہے
ہفت کِشوَر جس سے ہوں تسخیر بے تیغ و تفنگ
تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے
اب تلک شاہد ہے جس پہ کوہِ فاراں کا سکُوت
اے تغافُل پیشہ! تجھ کو یاد وہ پیماں بھی ہے
اِنحطاط و زوال کی ایک بڑی علامت یہ بھی ہے کہ ذوقِ طلب بھی کم پڑ جاتا ہے اور زندگی کے تمام مُعاملات میں لوگ ارفع و اعلیٰ ترین مقاصد کو ترک کر دیتے ہیں - مثلاً جُملہ عبادات کا مقصد در اصل خالقِ حقیقی کے ساتھ اپنے تعلُّق کو استوار کرنا اور دُنیا و مافیھا کی بجائے صرف و صرف اُس پاک ذات کی رضا و خوشنودی حاصل کرنا ہے - اہل اللہ یہ فرماتے ہیں کہ جو عبادت میں طلبِ دُنیا کرتا ہے وہ نامرد/ ہیجڑہ ہے اور جو عبادات میں عُقبیٰ کا طالب ہے وہ مؤنث ہے اور جو اپنی تمام عبادات و بندگی صرف و صرف رضائے الٰہی اور اس کے قرب و وصال کے حصول کیلئے کرتا ہے وہ مردِ مُذکّر ہے - اہل اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن پاک کے مطابق کسی بھی طرح کی مخلوق کی عبادات میں طلب کرنا در اصل خالق کی عبادت میں کسی اور کو حائل کرنے کے مترادف ہے - چاہے کوئی دُنیوی نعمت یا اُخروی ، وہ فرماتے ہیں کہ عبادت کا مقصد بہر حال رضائے الٰہی کا حصول ہی ہوگا جیسا کہ قرآن مجید میں بھی ارشاد ہوتا ہے :
{ان صلاتی و نُسکی و محیای و مماتی للّٰہ رب العٰلمین}
’’بے شک میری نماز ، میری قُربانیاں ، میرا جینا اور میرا مرنا (سب کچھ صرف و صرف) اللہ کیلئے ہے‘‘-
اِس لئے مقاصد کو بلند تر رکھنا چاہئے اور ذوقِ طلب کا سمجھوتا اعلیٰ ترین مقاصد سے کم تر پہ نہیں کرنا چاہئے - ’’رِفعت میں مقاصد کو ہمدوشِ ثُریّا کر‘‘ - اِس لئے علامہ بتاتے ہیں کہ تیری تنگی ئِ دامان کا عِلاج موجود ہے سب پہلے تجھے اپنا دامن وسیع کرنا ہوگا تاکہ تو ان خزانوں کو سمیٹ بھی سکے اور راز و رموزِ باطنی کی نگہداری کر سکے –
تُو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گُلشن میں عِلاجِ تنگیئِ داماں بھی ہے
بند کے آخر میں علامہ بتاتے ہیں کہ میرے سینے میں عالمِ اسلام کے روشن مستقبل کو اللہ جل شانہٗ نے آشکار فرما دیا ہے اور اسی راز کی برکت ہے کہ میری نوا میں آتشِ عشق پھونک دی گئی ہے اور میری نوا میں اس روشن مستقبل کو ظاہر کر دیا گیا ہے :
راز اس آتش نوائی کا مرے سینے میں دیکھ
جلوۂ تقدیر میرے دِل کے آئینے میں دیکھ
عالمِ اِسلام کا روشن مستقبل اقبال کو کیا دِکھایا گیا؟ یہ خود اقبال کے اپنے اَلفاظ سے عیّاں ہوتا ہے جہاں سے نظم کا آخری و گیارہواں بند شروع ہوتاکہ زوال و انحطاط کی اور ذِلّت و رسوائی کی سیاہ رات چھٹنے والی ہے نور کی ایسی سپیدہ سحر طلوع ہونے والی ہے کہ آسمان آئینہ کی طرح جگمگا اُٹھے گا - اس بادِ بہاری میں امن و سلامتی اور ایمان و یقین کے ایسے نغمے پھوٹیں گے کہ دِل کے غنچوں میں پوشیدہ خوشبو نوائے سحر بن کے پھیل جائے گی کیونکہ جب نفی اثبات کے پانی سے من کی بوٹی پنگرتی ہے تو اُس کی خوشبو ماحول کو عطر بیز کر دیتی ہے - باغ کے وہ سینہ چاک جِن پہ اڑھائی سو برس سے استعمار و سامراج حاکم ہے جو اِن اڑھائی سو برسوں میں کم و بیش اڑھائی کروڑ لوگوں کی قُربانی دے چُکے ہیں یہ مظلوم ایک دوسرے سے آملیں گے ، اپنی اور اُمّت کی بقأ و محافظت کیلئے ’’نیل کے ساحل سے لیکر تا بخاکِ کاشغر‘‘ پاسبانیئِ حرم کا فریضہ نبھانے کیلئے اِسلامیانِ عالَم ایک وحدت پہ متحد ہو جائیں گے اور بادِ صبا اِن سینہ چاکانِ چمن کی ہمنوا ہو جائے گی کہ زمانے کی تند و تیز ہوا ہی اِن کے چراغ کی محافظ بن جائے گی اور ’’بادِ صبا‘‘ سے مُراد رائے عامہ(Public Perception) بھی ہے جو اِسلامیانِ عالم کی مظلومیّت کا ساتھ دے گی - میری شبنم اَفشانی مُردہ و خوابیدہ دِلوں میں ایسا سوز و سازِ زندگی پھونکے گی کی مِلّت کے نوجوان ترانہ ہائے اقبال لبوں پہ سجائے میدانِ عمل میں اُتریں گے اور اِس چمن کے تمام غُنچے اور کلیاں میرے پیامِ درد سے آشنا ہو جائیں گی اور اپنے قومی و مِلّی فریضے کو سرانجام دینے کیلئے سر بکف ہوں گے - دریائے مغرب کی طُغیانی کا عروج دیکھ چکو گے اِس کی تند و تیز موجوں کی شان و شوکت جو بظاہر تمہارے اعصاب پہ سوار ہے یہی بے قرار موجیں (جو ہر وقت مظلوم و محکوم قوموں کے استحصال پہ مائل و آمادہ و مضطرب رہتی ہیں) اِسی دریا کے پاؤں کی زنجیر بن جائیں گی، ان کی تہذیب ان کے اپنے خنجر سے خودکشی کرے گی کیونکہ انہوں نے اپنا آشیانہ شاخِ نازُک کی ناپائداری پہ بنایا ہے - مسلمانوں کے دِلوں کو پیغامِ سجُود یاد آئے گا اور ان کے دِل اللہ جل شانہٗ کے حضور اِس شانِ عاجزی و انکساری سے جھُک جائیں گے کہ جسم ، عقل اور رُوح یہ تینوں اطاعتِ الٰہی اور اتباع و اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم میں کامل ہو جائیں گے ، مسلمانوں کی پیشانیاں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائیں - کیونکہ دِل کے زندہ و بیدار اور پُر تاثیر ہوئے بغیر اقبال سمجھتے ہیں کہ نہ ہی لذّتِ سجدہ نصیب ہو سکتی ہے نہ ہی داغِ سجدہ میں نُور سما سکتا ہے ، اقبال نے اکابرینِ اِسلام کی تعلیمات کا خُلاصہ ایک مقام پہ اِن اَلفاظ میں پیش کیا :
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا اِمام
میرا قیام بھی حجاب ، میرا سجود بھی حجاب
اِس لئے شوق یعنی طلبِ مولیٰ کا دِیا دِل میں روشن کرنا شرطِ اوّل ہے جس ک?