سوڈان کی حالیہ صورتحال
شمال مشرقی افریقہ میں واقع جمہوریہ سوڈان جو بحر احمر(Red Sea) تک رسائی اور قدرتی وسائل کے سبب دنیا کی توجہ کا مرکز ہے،گزشتہ چند ماہ سے بد ترین سیاسی بحران میں مبتلا ہے-خصوصاً جب سے سوڈان میں حکومت مخالف تحاریک نے زور پکڑنا شروع کیا تب سے ملک میں ہر آئے روز سیاسی مسائل بڑھتے چلے گئے اور ملکی سیاسی صورتحال گھمبیر ہوتی چلی گئی جس کا واضح ثبوت رواں سال اپریل میں عوام کے طویل احتجاج کے بعد سوڈان ملٹری کے ہاتھوں صدر عمر البشیر کی برطرفی اور فوج کا برسرِ اقتدار آنا ہے-
سوڈان میں موجودہ انتشار اور سیاسی بحران کی کڑیاں 2011ء میں سوڈان کی ہونے والی غیر منصفانہ تقسیم سے ملتی ہیں-بدقسمتی سے اپنوں کی غفلتوں اور غیروں کی سازشوں کی وجہ سے افریقہ کے سب سے بڑے ملک سوڈان کے جنوبی حصہ میں مذہبی انتشار کا بیج بویا گیا-مصنوعی آباد کاری سے اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کر کے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا- 2011ء میں جب افریقی یونین اور اقوامِ متحدہ کی زیرِ نگرانی سوڈان کی تقسیم (سوڈان سے جنوبی سوڈان کی علیحدگی) کا عمل ہوا جسے کئی عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل تھی-ریفرنڈم کے بعد جنوبی سوڈان کی صورتحال دنیا کے سامنے ہے جو امن معاہدہ کے باوجود بھی خطے میں امن لانے اور اندرونی و بیرونی تنازعات کو حل کرنے میں ناکام رہا بلکہ جنوبی سوڈان میں دن بدن بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی اور اندرونی کشیدگی بڑھتی چلی جا رہی ہے- ایسے بحران میں عوام امید کرتی ہے کہ انسانی حقوق کے داعی ان کی مدد کو آئیں گے اور انصاف قائم کریں گے جبکہ سوڈان سمیت مسلم دنیا کو سامراجی طاقتوں کی جانب سے گزشتہ صدیوں میں زیادہ تر نو آبادیاتی نظام، خونی جنگیں، قدرتی وسائل پر قبضہ اور این جی اوز ملی ہیں- ایک موقع پر لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل مرحوم نے سوڈان کے مسئلہ پر بات کرتے ہوئے انکشافات کئے تھے کہ کچھ این جی اوز انسانی حقوق اور سماجی انصاف کے نام پر مسلم ممالک میں تفرقہ بازی اور تقسیم در تقسیم کو فروغ دینے کے مضموم عزائم میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں اور سوڈان میں بھی یہی کچھ دیکھنے کو ملا جس کا خمیازہ سوڈانی قوم ابھی تک بھگت رہی ہے- یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سوڈان وہ اسلامی ملک ہے جہاں کے لوگوں کی اسلام سے گہری وابستگی ہے اور انہوں نے اسلام کے بیان کردہ بہت سے شرعی قوانین کا نفاذ کیا-
سوڈان کی حالیہ صورتحال کے بعد بھی ملکی حالات سنبھل نہیں پائے- عمر البشیر کی برطرفی کے بعد ملک میں بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں جن میں انسانی حقوق کی پامالی، شدت پسندی، دہشت گردی اورخانہ جنگی جیسے عناصر شامل ہیں- موجودہ ملکی حالات میں مظاہرین پر کریک ڈاؤن اسی تسلسل کی ایک کڑی ہے - اطلاعات کے مطابق حال ہی میں سوڈان کے دار الحکومت خرطوم میں سینکڑوں افراد کو گولی مارکر ہلاک کردیا گیا -اس کے علاوہ 3 سے 8 جون تک مظاہرین پر کریک ڈاؤن کے نتیجے میں کم از کم 113 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں- اس صورتحال کے پیش ِ نظر اقوم ِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اجلاس بھی طلب کیا جس میں سوڈان کی موجودہ صورتحال پر بحث ہوئی- اسی طرح اس مسئلے کے بعد او-آئی-سی نے سوڈان کی تمام پارٹیز کو مسئلے کے حل اور ملک میں امن، معاشرتی اتحاد برقرار رکھنے اور اقتدار کی پر امن منتقلی کیلئے مذاکرات کی دعوت بھی دی-
اس مسئلے کے حل کے لئےتمام سٹیک ہولڈرز کو مذاکرات کی میز پر آنا ہو گا- جہاں تک موجودہ سوڈانی لیڈر شپ کا تعلق ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اس خانہ جنگی کو ختم کرنے اور انسانی حقوق کی پامالی روکنے کیلئے اپنے شہریوں کو اعتماد میں لے اور حکمتِ عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سول اور ملٹری نمائندوں کے باہم اتفاق رائے سے مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دے- سوڈان اور دیگر اسلامی ممالک کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شام اور لیبیا کی تباہی کے بعد اب سوڈان خانہ جنگی کا شکار ہونے کے خطرے میں ہے- بہتر تو یہ تھاکہ لیبیا اور شام کے حالات کا بروقت ادراک کرتے ہوئے سوڈان میں نوبت آج کے حالات تک آنے ہی نہ دی جاتی لیکن ابھی بھی وقت ہے کہ اس مسئلے کو زہرِ قاتل بننے سے قبل قابو کر لیا جائے- اس مسئلے کے بہتر حل اور خطے میں قیامِ امن کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، او-آئی-سی اور دیگر جتنی بھی بڑی تنظیمیں اور بین الاقوامی قوتیں ہیں اس پر مثبت ردِ عمل دیں-
امتِ مسلمہ میں جب بھی کوئی ایسا مسئلہ در پیش آیا تو پاکستان اس کے بہتر حل اور انسانی حقوقِ کے تحفظ کیلئے ہمیشہ مسلم ممالک کے شانہ بشانہ کھڑا رہا پھر چاہے وہ کشمیر ،فلسطین،روہنگیا کا مسئلہ ہو یا سوڈان کی موجودہ صورتحال پاکستان ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کراتا ہے- مزید برآں اس مسئلے کے بہتر حل کیلئے تمام مسلم دنیا کو مل بیٹھنے اور متفقہ لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے-
پاکستان-روس تعلقات نئے ڈگرپر
گزشتہ ماہ کرغزستان میں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے سربراہی اجلاس میں وزیراعظم پاکستان اور روسی صدر کی غیر رسمی خوشگوار ملاقات عالمی میڈیا کی زینت بنی رہی- سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد سے گزشتہ ایک ڈیڑھ دہائی میں پاک روس تعلقات میں پیش رفت نظر آ رہی ہے جو کہ خطے اور خود دونوں ممالک کیلئے بہت اہمیت کی حامل ہے-
بعد از قیامِ مملکتِ خداداد پاکستان نےقومی سالمیت، خود مختاری اورحالات و واقعات کے پیشِ نظر مغربی بلاک کے ساتھ تعلقات استوار کئے- اس فیصلے سے پاکستان علاقائی طاقت سوویت یونین سے دور ہوگیا جبکہ دوسری طرف پاکستان کے امریکہ سے سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدات طے پائے- سرد جنگ میں پاک روس تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے- تاہم وقتاً فوقتاً ان میں اتار چڑھاؤ آتا رہا اور پاکستان میں سوویت یونین کے تعاون سے بہت سے پراجیکٹ بھی لگائے گئے جن میں پاکستان سٹیل مل کراچی ایک بہت بڑی مثال ہے-افغان جنگ کے خاتمہ اور سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد پاک روس تعلقات میں سرد مہری رہی تاہم اکیسویں صدی کے آغاز سے یہ تعلقات نئی بنیادوں پر استوار ہونا شروع ہو رہے ہیں- بعدازسرد جنگ، عالمی سیاست کا رجحان دو طاقتوں کی کشمکش سے نکل کرکثیر الجہتی ورلڈ آرڈر، علاقائی سیاست اور براعظموں کی سیاست میں بدلنا شروع ہوا ہے- بالفاظ دیگر عالمی سیاست سے زیادہ خطے کی سیاست اہمیت حاصل کر رہی ہے جس کا ثبوت خطے کی بنیاد پر مختلف تنظیموں کا قیام ہے مزید جبکہ بہت سےممالک اپنی خارجہ پالیسی میں علاقائی تنظیموں سے کی گئی کمٹمنٹ کو نمایاں مقام دیتے ہیں- دورانِ سرد جنگ ملکی سیاست بھی عالمی طاقتوں کے کافی زیرِ اثر تھی جبکہ علاقائی سیاست اور علاقائی تعاون بڑھنے سے نہ صرف عالمی طاقتوں کا اثر و رسوخ کم ہوا ہے بلکہ ممالک میں علاقائی تعاون کا رجحان بڑھا ہے اور اس تاثر نے جنم لیا ہے کہ کوئی ملک تنہاء ترقی نہیں کرتا جب تک مجموعی طور پر خطہ ترقی نہ کرے-
بدلتی جغرافیائی سیاست، دفاعی و معاشی حالات، عالمی و علاقائی سیاست کے بدلتے تناظرات میں پاکستان کے بدلتے تعلقات اور اُبھرتے علاقائی تناظر نے پاکستان اور روس کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی راہ دکھائی ہے- چند برسوں سے دونوں ممالک مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں-پاکستان کی اہمیت کو یوریشین تعلق اور ہم آہنگی میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن نہ صرف جنوبی ایشیاء، وسطی ایشیاء اور مشرق وسطیٰ کےسنگھم پر ہونے کے باعث ان سے رابطے کا ایک قدرتی راستہ ہے بلکہ سلک روڈ کے انتظامی امور کیلئے کار آمد ہے- دوسری طرف روس کےساتھ مضبوط تعلقات پاکستان کے لئے عالمی سیاست میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں جو یہ تقاضا کرتے ہیں کہ ایک متوازن خارجہ پالیسی پر کاربند ہوا جائے اور بالخصوص خطے کے اہم ممالک سے برابری کی بنیاد پر اچھے تعلقات قائم کئے جائیں-
گزشتہ چند سال سے پاکستان اور روس مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں جن میں 45 سال بعد جب روسی وزیر دفاع نے پاکستان کا دورہ کیا تو 2014ءمیں دفاعی معاہدہ طے پایا، ہتھیاروں کی فروخت پر عائد پابندی ختم کر دی گئی اور 2015ء میں2بلین ڈالر کی مالیت کا گیس معاہدہ ہوا، جبکہ ستمبر 2016ء میں روس کی سپیشل فورسز کے جوانوں نے پاک فورسز کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں ’’Friendship 2016‘‘ میں حصہ لیا- 2017ء میں روس اورچین کےتعاون سےپاکستان کو ایس-سی-او کی مستقل رکنیت ملی جبکہ 2005ء سے پاکستان اس تنظیم کامبصرملک تھا- ایس-سی-او کے کرغزستان میں منعقدہ حالیہ سربراہی اجلاس میں وزیر اعظم پاکستان اور روسی صدر کی خوشگوار ملاقات سے واضح ہو رہا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں وسعت کے واضح امکانات ہیں- ضرورت اس امر کی ہے کہ دوطرفہ تعلقات کو اب ادارہ جاتی شکل دی جائے-
پاکستان اور روس کےدرمیان تعلقات کی نئی راہیں ہموار کرنے اور باہمی تعاون بڑھانے میں ایس-سی-او نے اہم کردار ادا کیا ہے- دونوں ممالک کا باہمی تعاون افغانستان میں امن قائم کرنے میں بھی معاون ثابت ہو سکتا ہے جو ایشیاء میں امن اور خطے کے امن و استحکام اور ترقی کیلئے نہایت ضروری ہے- مذکورہ تنظیم کے موجودہ ممبرز کا اس پر اتفاق ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے یعنی اس پلیٹ فارم کے ذریعہ افغانستان کے مسئلہ پر پاکستان اپنے مؤقف کو واضح طور پر پیش کر سکتا ہے جو پاکستان کے لئے ہمسایہ اور اسلامی ملک ہونے کی بناء پر مزید اہمیت اختیار کر جاتا ہے- ایس-سی-او ایک ابھرتی ہوئی ایک یوریشائی سیاسی اور اقتصادی تنظیم ہے اس وقت دنیا کے سات ایٹمی ممالک میں سے چار جبکہ پانچ ویٹو پاورز میں سے 2ایس-سی-او کا حصہ ہیں- اسی پلیٹ فارم سے چین اور روس مسئلہ کشمیر کے پُر امن حل کیلئے بھارت کو مذکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں-
ایس-سی-او کے پلیٹ فارم کے ذریعہ گزشتہ سال دونوں ممالک کی مسلح افواج کے درمیان ایک مضبوط رشتہ قائم ہوا-ایس سی او نےدہشت گردی کے خلاف مشترکہ جنگی مشقیں ’’امن مشن 2018ء‘‘ کروائیں- جس کی میزبانی روس نے کی جس میں افواج پاکستان کو اور روسی افواج کو قریب آنے کا موقع ملا- گزشتہ برس آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دورہ روس پر کہا کہ پاکستان روس کے ساتھ باہمی فوجی تعاون بڑھانے کا خواہاں ہے- روس نےبھی پاکستان کے ساتھ فوجی تعاون بڑھانے میں دلچسپی کا اظہار کیا-پاکستان اور روس کی قربت سےنہ صرف دفاعی شعبہ میں تعاون بڑھےگا بلکہ بھارت امریکہ دفاعی تعاون کی فضا میں خطہ میں طاقت کا توازن بھی برقرار رہے گا- مزید یہ کہ دفاعی تعاون علاقائی عدم استحکام کو ختم کرنے میں کار آمد ہوگا- روس اپنی تیار کردہ مصنوعات پاکستان کو برآمد کرنے کی توقعات رکھتا ہے جبکہ پاکستان کو بھی اپنے موجودہ توانائی بحران میں روس کے توانائی کے شعبہ سے فائدہ اٹھانا چاہیے- مزید براں یہ کہ دونوں ممالک منظم طور پر دفاع، تجارت، سرمایہ کاری، معیشت، سائنس، ٹیکنالوجی، زراعت، تعلیم اور ثقافت جیسے شعبہ جات میں تعاون بڑھا سکتے ہیں- موجودہ عالمی تناظر میں پاک روس تعلقات ایک نئے موڑ پر کھڑے ہیں اور ایسے میں ہمیں دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طویل مدتی خارجہ پالیسی کے تحت تعلقات کو فروغ دینا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ یہ واضح کرنا چاہیے کہ یہ تعلقات کسی تیسرے ملک کی قیمت پر نہیں بلکہ دوطرفہ تعاون اس کی بنیاد ہو گا-