تحریکِ پاکستان سےاسباق : وقت کی ضرورت
برِصغیر میں دوقومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہونے والی مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان نے اپنے قیام سے لے کرآج تک بے شمار مسائل اور چیلنجز کا سامنا کیا ہے جن میں سیاسی، سماجی، معاشی، آئینی، نظریاتی اورثقافتی چیلنجز شامل ہیں- موجودہ دور میں جس طرح دنیا میں اسلامو فوبیا کا فروغ اور اسلام (جو بذات ِخود امن و سلامتی پر دلیل ہے) کو بطور دہشت گرد ثابت کرنے کی گھناؤنی سازشیں کی جارہی ہیں یہ نہ صرف پاکستا ن بلکہ پوری امتِ مسلمہ کیلئے ایک اہم مذہبی و ثقافتی مسئلہ ہے- پاکستان کے حالیہ مسائل کے بہتر حل کیلئے ہمیں تحریکِ پاکستان کے وقت در پیش چیلنجز اور ان سے کامیابی سے نبرد آزما ہونے کی وجوہات سے بہت سے اسباق ملتے ہیں-
تحریک پاکستان کا آغاز محض اتفاق نہ تھا بلکہ اُس وقت مسلمانوں کو ان گنت مشکلات اور سنگین مسائل(سیاسی ، معاشی، ثقافتی و نظریاتی) کا سامنا تھا- ان میں ہندوستان کی نظریاتی تقسیم ایک اہم مسئلہ تھا کیونکہ برِصغیر میں ہندو اور مسلمان اپنےمختلف مذہبی فلسفوں،سماجی روایات اور تہذیبی و ثقافتی اقدار کے لحاظ سے دو مختلف بڑی قومیں تھیں- علامہ اقبال اور قائد کے افکار کی بنیاد اسلام کے آفاقی و روحانی اصولوں پر قائم تھی جبکہ کانگریسی قومیت مغربی نیشنلزم کی تقلید میں نسلی، لسانی و جغرافیائی بنیادوں پر کھڑی تھی جن کی کوشش تھی کہ وہ جلد از جلد اپنی اکثریت کے بل بوتے پر ہندوستان میں اپنا راج قائم کریں اور اس وقت برطانوی کاوشیں بھی اسی حق میں تھیں- چنانچہ مسلمان اپنی ملیّ بقاء اور اسلامی اقدار کے احیاء کیلئے فکر مند تھے - ان تمام تر مشکلات کے باوجود مسلمانوں نے اپنا اسلامی تشخص برقرار رکھا اور اسلامی قومیت کا احساس ہی مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن کا مؤجب بنا- اُس وقت کے عالمی تناظر میں بھی مسلمانوں کے حقوق کیلئے کہیں آواز بلند نہیں کی جارہی تھی اور مسلمان بحیثیت مجموعی سیاسی، معاشی اور دفاعی میدان میں مشکلات کا شکار تھے-
اُس وقت مخلص قیادت اور عوام کی محنت و لگن سے بہت جلد ان مسائل پر قابو پالیا گیا- 1935ء تک (جب تک قائد اعظم ؒ نے مسلم لیگ کی باگ ڈورنہ سنبھالی تھی ) مسلم لیگ کو حلقہ عوام تک بھر پور رسائی حاصل نہ تھی اور مسلمانوں کے ناگفتہ بہ حالات دیکھ کریہ قیاس کیا جا سکتا تھا کہ مسلمانوں کے حقوق کی جدوجہد کسی خاص سمت جاتی نظر نہیں آتی تھی- لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا -اسی اثنا میں قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اسلامیان ِ ہند کی قیادت اور حصولِ آزادی کیلئےاپنے منصب و دولت کو پسِ پشت ڈال کر انگلستان سے ہندوستان واپس تشریف لائے اور فکرِ اقبال کے تحت مسلم لیگ کی تشکیلِ نو کا کام کیا اور اب مسلم لیگ عملی سیاست میں ایک منظم عوامی تحریک کی شکل اختیار کر گئی- اگرچہ 37-1936ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ناکام رہی لیکن قائد اعظم ؒ کی شاندار حکمتِ عملی اور با صلاحیت قیادت نے بہت کم عرصے میں مسلم لیگ کو ایک زبر دست قوت بنادیا جسے دیکھ کر یہ احساس ہوتا تھا کہ کسی نے تنِ مردہ میں نئی روح پھونک دی ہو-
23 مارچ 1940ء کو قرار دادِ پاکستان سے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے باقاعدہ تحریکِ پاکستان کا آغاز ہوا ،جس کا مقصد نہ صرف ہندوستانی مسلمانوں کیلئے سیاسی آزادی اور سامراج سےنجات حاصل کرنا تھا بلکہ ایک ایسی خود مختار مملکت کا قیام تھا جس میں اسلامی اقدار پر مبنی معاشرہ تشکیل پا سکے-با الفاظ دیگر تحریک پاکستان کا اصل مقصد حکیم الاُمت علامہ اقبالؒ کے تصورِ ریاست کی صورت میں ایسی اسلامی نظریاتی ریاست کا قیام تھا جس میں مسلمان اپنے مذہبی، سماجی، تہذیبی و تمدنی اُصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں- مزید یہ کہ وہ اپنی علمی، دینی،تاریخی اورتہذیبی و ثقافتی روایات کا تحفظ کرسکیں- بلا شک وشبہ قائد اعظم ؒ تحریک پاکستان کی روح رواں تھے لیکن آپ کی زیرِ قیادت کام کرنے والی دیگر سیاسی قد آور شخصیات ایسی بھی تھیں جو اس کارِ خیر میں آپ کا دست وبازُو بنیں اور جہدُو تحرک کا فلسفہ اپناتے ہوئے شب و روز تحریک ِ پاکستان کی تقویت کیلئے انتھک محنت کی جن میں لیاقت علی خان،مولانا ظفر علی خان،نواب وقار الملک اور نواب محسن الملک،عبد الستار خان نیازی جیسے سیاسی زعماء کے نام نمایاں ہیں- اگرچہ مسلمان اس وقت بھی معاشی لحاظ سےاتنے زیادہ مضبوط نہیں تھے لیکن پھربھی سیاسی قائدین اور عوام نے اپنے غیر متزلزل عزم اور جذبہ ایمانی سے قائد اعظمؒ کی دور اندیش اور مخلص قیادت میں تحریکِ پاکستان کی خاطر بے شمار جانی و مالی قربانیاں پیش کیں- ان بے پناہ قربانیوں اور بہت سی صعوبتیں جھیلنے کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ جو اب تحریک پاکستان کی شکل اختیار کرچکی تھی-تحریک اس قدر مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی کہ اُس کی ہر آئے روز بڑ ھتی مقبولیت دیکھ کربرطانوی سامراج اور گاندھی سامراج میں یہ دم نہیں رہا کہ وہ مسلمانوں کو سیاسی و نظریاتی سطح پر شکست سے دو چار کرسکتے-
یہ حقیقت ہےکہ کسی بھی کامیاب تحریک کیلے کمٹمنٹ، تحرک اور جذبۂ ایمانی جیسے عناصر جزوِ لازم کی حیثیت رکھتے ہیں اوریہ تما م تحریکِ پاکستان کی صور ت میں ہمیں بدرجۂ اتم نطر آتے ہیں- آج ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریکِ پاکستان کی روح کو سمجھا جائے کہ کس طرح ناساز گار حالات میں بھی مسلم قائدین اور عوام نےیقین محکم کی دولت اپنے ہاتھ سے نہ جانے دی اور جہد وتحرک کا فلسفہ اپناتے ہوئے نہ صرف ان مسائل پر قابو پایا بلکہ پاکستان کا قیام بھی ممکن بنایا-
آج بھارت میں پسنے والے مسلمان اور بالخصوص کشمیری مسلمانوں کی حالت زار ہمارے سامنے ہے لیکن عالمی سطح پر ان کے حقوق کیلئے عملی طور پر شاید ہی کوئی آواز اٹھاتا ہو- اسلاموفوبیا اور درپیش سماجی، مذہبی، معاشی اور علمی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے تحریکِ پاکستان کا جذبہ اپنانا ہو گا- تحریکِ پاکستان کو سمجھتے اور اس سے سبق لیتے ہوئے بطور فردِملت اور پاکستانی شہری کےیہ ہمارا فرض بنتا ہے ملکی سلامتی و خوشحالی کیلئے اپنا کلیدی کردار اد کریں اور اسے درپیش مسائل (جیسےسیاسی،سماجی،معاشی ،نظریاتی و ثقافتی ) سے نجات اور پاکستان کے بہتر مستقبل کیلئے اپنے ذاتی مفاد کو نظر انداز کرتے ہوئےملک و ملت کی فلاح کیلئے کا م کریں-اگر ہم تحریک ِ پاکستان جیسے تحرک اور وفاداری کو اپنالیں تو ہم یقینا ً ان مسائل پر قابو پاتے ہوئے کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں- موجودہ دور میں سازشوں کے ذریعےاسلامی تشخص کو مسخ کرنے اور پاکستان کی نظریاتی و روحانی بنیادوں کو کھو کھلا کرنے کی ناپاک جسارت ہو رہی ہے تو ہمیں میدانِ عمل میں آکر اسلامی اقدار کے احیاء اور پاکستان کی نظریاتی و روحانی اساس کےتحفظ اور عوامی سطح پر اس کا شعور اجاگر کرنے کیلئے اپنا مثبت کردار اداکرنا ہو گا تاکہ ہم اپنی آئندہ نسل کو پاکستان کے روحانی و نظریاتی پہلؤوں کی نا قابلِ فراموش اہمیت سے روشناس کرا سکیں-