بانیٔ اصلاحی جماعت کی مساعی جمیلہ کی مختصر جھلک
امام شمس الدین سخاویؒ نقل فرماتے ہیں کہ :
’’إِنَّ اللهَ تَعَالَى يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا‘‘[1]
’’بے شک اللہ تعالیٰ اس امت کے لیے ہرصدی کے آخرمیں ایسے بندے پیدا فرمائے گا جو اس کے لیے اس کے دین کو تازہ کرتے رہیں گے‘‘-
سلطان العارفین سلطان باھوؒ کی نویں پشت میں سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحبؒ کی ولادت باسعادت 14 اگست 1947ء کو بمطابق 27 رمضان المبارک بروز جمعۃ المبارک کو ہوئی -
آپؒ نے جس وقت عملی میدان میں قدم رنجا فرمایا اس وقت لوگوں کی اکثریت حقیقت سے دور اور افراط و تفریط کا شکار تھی،غیر تو غیر اپنے بھی تصوف سے شاکی نظر آتے تھے،ہمیں سیدنا غوث اعظم اور اعلیٰ حضرت ؒ کے اسماء مبارکہ (غوثیہ و رضویہ) سے موسوم ادارے تو نظرآتے تھے لیکن ان مقدس ہستیوں کی کتب کی تدریس کاکوئی خاص اہتمام نظرنہیں آتاتھا،آپؒ کی مساعی جلیلہ سے تصوف کو نہ صرف پبلک محافل میں ڈسکس کیا جانے لگا،بلکہ آپؒ نے کئی مشہورتصوف کی کتب کوشامل ِ نصاب فرمایا،جن کو آج بھی آپؒ کے قائم کئے ہوئے مدارس میں سبقاً پڑھا جاتا ہے -آپؒ نے شاعرِمشرق کی اس فکر ’’نکل کر خانقاہوں سے اداکررسمِ شبیریؓ‘‘ کوعملی جامہ پہناتے ہوئے 1987ء میں اصلاحی جماعت کی بنیاد رکھی - اس وقت لوگوں کے ذہنوں میں یہ تصور راسخ تھاکہ شریعت کی بات تو ہرکوئی سمجھ سکتاہے لیکن طریقت صرف اولیاء اللہ کاکام ہے اورسلک سلوک کی منازل کے بارے میں عام بندہ صرف سوچ ہی سکتاہے - آپؒ نے بڑے احسن اورسہل انداز میں بیک وقت عام آدمی کو شریعت و طریقت سے جس طرح روشناس کروایاوہ اپنی مثال آپ ہے اور یہ سنت ِ مصطفٰے (ﷺ)بھی ہے کہ آپ (ﷺ)نے بیک وقت عام آدمی کو شریعت، طریقت، معرفت و حقیقت سے نہ صرف روشناس کروایا بلکہ ان راستوں میں نورِ ہدایت کے مینار کھڑے کر دیئے -
آپؒ نے نوعِ انسانی کو حضور رسالت مآب (ﷺ) کا دیاہو اپیغام یاد دلایا اور بالخصوص اپنی صحبت میں بیٹھنے کاشرف حاصل کرنے والوں پہ واضح کیا کہ:
1:تیری ذات امانتِ الہیہ کی حامل ہے تو اگر اپنی حقیقت کو جان کر اپنی مقام کو پالے تو تیری عظمت وحرمت کعبہ سے افضل ہے - تیری تخلیق ’’ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ‘‘[2]کے مرتبہ پر ہوئی ہے-باوجود اس کے کہ تواپنے وجودکے اعتبارسے محدود ہے لیکن اللہ پاک نے تیرے اندر صحراؤں کی وسعت رکھی ہے، بقو ل حکیم الامت:
اس ذرے کو رہتی ہے وسعت کی تڑپ ہر دم |
|
ذرہ یہ نہیں شاید سمٹا ہوا صحرا ہے |
2: انسان کی عظمت ا س میں ہے کہ وہ مریخ و زہرہ کو تسخیر کرنےکے ساتھ نفس امارہ اور دیگر خواہشات ِ نفسانیہ کو لگام دے اور اپنے قلوب کو اسم ذات سے منور کرے -
3:وہ آرائشِ بدن پہ زیبائش ِاخلاق کو ترجیح دے -
4:افراد کی سپر میسی اورشخصی حکومت کی بجائے اللہ عزوجل کے قوانین کو سب سے سپریم مانے -
5:حکومت یا اقتدار برائے حاکمیت نہ ہوبلکہ اللہ اور اس کے رسول مکرم (ﷺ) کی رضااورمخلوق کی خدمت کے جذبہ کے پیش نظر ہو -
6:دل میں حقوق چھیننے کی بجائے ادائیگی فرض کاجذبہ کار فرما ہو-
7:دل میں مکر،فریب،ریا کی بجائے اخلاص،عاجزی اور سادگی کا جذبہ کارفرما ہو-
8:دل میں ہوس،حرص،حسد اور انتقام کی بجائے قناعت،امانت اور رحم کاجذبہ موجزن ہو -
9:محض ہوا و خلا میں بلندپروازیوں کی بجائے اخلاق کی بلندی کو ترجیح دینے والا ہو -
10:وہ محض آنکھوں کو خیرہ کرنے والی چکا چوند روشنیوں پر دل میں نورِ ایمان کی شمع فروزاں کرنے کوزیادہ ترجیح دینے والاہو-
11:گفتار کا غازی بننے کی بجائے کردار کی پختگی اس کی اولین ترجیح ہو-
12:دولت و درم اور دنیا کی نمائش پر حصولِ فقرکی خواہش اس کی اولین ترجیح ہو-
بانی اصلاحی جماعت حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب ؒ نے جس وقت اصلاح ِ امت کے لیے عملی کاوش کا آغاز فرمایا ،اس وقت ملت ِاسلامیہ کو داخلی و خارجی طور پر مختلف چیلنجز کا سامناتھا-یہ ایک حقیقت ہے کہ اتنے بڑے چیلنجز کا مقابلہ نباض ِ عصر ہی کرسکتاہے جو وقت کی آندھیوں کے مزاج سے بھی شناساہو اوران کا تریاق بھی جانتاہو-
آپؒ نے اپنی صحبت میں بیٹھنے والوں کی اپنی نگاہِ فقر سے تربیت فرما کر ان کو دنیا کے کونے کونے میں بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو ’’ففروا الی اللہ‘‘کا درس دیں-آپؒ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے کہ اصلاح فرد سے شروع کی جائے اورہر انسان پہلے اپنےآپ پر قرآن وسنت کا نفاذ کرکے ’’اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً‘‘[3]کا عملی مظہر بنے، پھر دوسروں کو اس کی تبلیغ کرے-آپؒ عالمگیر امن کے داعی تھے اور ہمیشہ تفرقہ بازی سے گریز کا درس دیا کرتے تھے-آپ (قدس اللہ سرہ ) ملت کے افراد میں اتحاد و یگانگت پید افرماکر ان کو جسدِ واحدکی مانند دیکھنا چاہتے تھے-آپؒ کی زندگی مبارک کا لمحہ لمحہ ’’ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِين‘‘ [4]کا عملی مصداق تھا-آپؒ نے اولیاء اللہ کاپیغام قرآن وسنت کی روشنی میں عوام الناس تک پہنچایا اور اعلائے کلمۃ الحق کیلئے ’’عالمی تنظیم العارفین‘‘کا قیام عمل میں لایا-آپؒ نے طالبان مولی ٰکی اپنی نگاہ سے تربیت فرماکر خانقاہِ عالیہ کو رول ماڈل بنادیا-آپؒ مساجد کےقیام میں بہت دلچسپی لیتے اس کی واضح مثال دربارعالیہ حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیز صاحبؒ پر نہایت خوبصورت مسجد کا قیام ہے -
آپؒ نے جہاں طالبانِ مولیٰ کی تعلیم و تربیت کیلیے مراکز قائم فرمائے وہاں مدارس کے قیام کو بھی عملی جامہ پہنایا، دارالعلوم غوثیہ عزیزیہ انوارِ حق باھو اور اس کے زیر ِ اہتمام مختلف مدارس کا قیام اس کا عملی ثبوت ہے- آپؒ علماء کرام کو عزت وتکریم سے نوازتے ،ان سے فقہی مسائل پہ بحث فرماتے اور آپؒ اپنی حیات مبارکہ میں اپنی محافل میں جہاں علماء کرام کو بُلاکر اظہارِ مسرت فرماتے وہاں اپنے مدارس میں بھی جید علماء کی موجودگی کو پسند فرماتے- آپؒ دین میں سطحی باتوں پہ اکتفا نہ نہ فرماتے ،بلکہ تحقیق کو اہمیت دیتے-یہی وجہ ہے کہ آپؒ نے نہ صرف خانقاہِ عالیہ پہ درس وتدریس کا اہتمام فرمایا بلکہ خود اپنی زبان گوہرفشاں سے کئی طالب علموں کو ملک میں مشہور مدارس میں دینی تعلیم کے لیے روانہ فرمایا -
کشمیر سےآپؒ کو جذباتی لگاؤ تھایہی وجہ ہے کہ آپؒ کی محافل مبارکہ میں اکثر کشمیر پہ سیر حاصل بحث ہوتی اورآپؒ ہمہ وقت جہاد ِ کشمیر کے لیے تیار رہتے -لیکن آپؒ نے مملکت خداداد پاکستان کے آئین و قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی بجائے حکومتی قوانین کا احترام کرتے ہوئے افواج کے شانہ بشانہ چلنے کو ترجیح دی، اس چیز کاعملی مظاہر ہ آپؒ کی فیضان ِ نظر سے کام کرنے والے ادارے ’’مسلم انسٹیٹیوٹ‘‘ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے -
آپؒ نے جس منہج پہ عوام الناس کی تربیت فرمائی یہ وہی منہج تھا جس پہ غوث الاعظم پیران پیر دستگیر شیخ عبد القادر جیلانی (قدس اللہ سرّہٗ) اور سلطان العارفین سلطان باھوؒ نے تربیت فرمائی اورآج ملک وقوم کی بقا اسی میں ہے کہ وہ آپؒ کے منہج کو سمجھے اور اس پہ عمل پیرا ہو-آپؒ نے اپنی مجلس میں بیٹھنے والوں کو بھی ہمیشہ ملی یک جہتی کا درس دیاجس کا اثر اس وقت بھی آپؒ کے کارکنوں اورجماعت سے وابستہ لوگوں میں دیکھاجاسکتاہے -یہ آپؒ کی صحبت کا اعجاز تھا کہ آپؒ کے فیض سے مستفیض ہونے والاچاہے وہ جس مقام پہ بھی پہنچ گیا اس کے الفاظ یہی تھے :
مختصر سی میری کہانی ہے |
|
جو بھی ہے ان کی مہربانی ہے |
آپؒ کی شخصیت مبارکہ یقیناً اللہ پاک کےاس فرمان مبارک کی عملی مصداق تھی-’’صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّهِ صِبْغَةً‘‘[5] آپؒ کی مقد س بارگاہ میں بیٹھنے والے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والوں کو جہاں ہمہ قسم کے سوالات جوابات ملتے ،وہاں بزبانِ اقبال ہر آں یہ پیغام بھی ملتا کہ:
اگر یک قطرہ خوں داری، اگر مشتِ پرے داری |
|
بیامن با تو آموزم، طریقِ شاہبازی را[6] |
’’اگر تیرے اندر ایک قطرۂ خون ہے ، اگر تو مشت بھر پَر رکھتا ہے تو آتجھے شہبازی کا طریقہ سکھاؤں‘‘-
[1]( المقاصد الحسنۃ،ص:129)
[2]( التین:4)
[3]( البقرۃ:208)
[4]( الانعام:162)
[5]( البقرۃ:138)
[6](زبورِ عجم)