ولادت با سعادت و سیرت رسول عربی(ﷺ)
اک عشقِ مصطفٰےؐ ہے اگر ہو سکے نصیب |
|
ورنہ دھرا ہی کیا ہے جہانِ خراب میں |
تاجدارِ انبیاء،شافع روزِ جزاء سیدنا ابو القاسم حضرت محمد مصطفٰے (ﷺ) کے تشریف لانے سے نبوت و رسالت کا دروازہ تا قیامت بند ہو گیا اور فرمان مبارک ہوا ’’اِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ انْقَطعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِيْ وَلَا نَبِيَ‘‘[1] ’’اب نبوت اور رسالت کا انقطاع عمل میں آ چکا ہے لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی‘‘-تاجدارِ کائنات (ﷺ) کی آمد مبارک (12ربیع الاول،بوقت سحر،بروز سوموار کو) اس شان سے ہوئی کہ سیدہ فاطمہ بنت عبداللہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں کہ’’ حضور نبی کریم(ﷺ) کی ولادت باسعادت کے وقت میں نے گھر کو دیکھا کہ وہ نور سے بھر گیا اور میں نے ستاروں کو دیکھا کہ وہ جھکے ہوئے ہیں اورمجھے یوں لگتاہے کہ وہ مجھ پر گر پڑیں گے‘‘-[2] سیدنا رسول اللہ (ﷺ) کی جلوہ گری سے محض سید ہ آمنہ (رضی اللہ عنہا)کا آنگن ہی نہیں جگمگایا بلکہ پوری کائنات بقعہ نور بن گئی ، ولادت باسعادت سے نہ صرف عزیز و اقرباء میں خوشی کی لہر دوڑ گئی بلکہ ہر درد مندکو اس کے درد کی دوا مل گئی،حضور پر نور (ﷺ) کی تشریف آوری سے صدیوں سے دیکھے جانے والے خواب کو اپنی تعبیر مل گئی، آپ (ﷺ) کی بعثت سے صرف خطہ ِ عرب نہیں جگمگایا بلکہ پوری انسانیت (جو صدیوں سے ظلمت و بربریت اور ہوا و ہوس کی چکی میں پس رہی تھی) کو جسمانی و روحانی آزادی نصیب ہوئی، میکدہ علم وعرفان سے صرف صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے ہی جام ِ معرفت و عشق نوش فرما کر اپنے قلوب و اذہان کو معطر نہیں کیا بلکہ آپ (ﷺ) نے قیامت تک کی نوعِ انسانی کے لیے خدا آگاہی و خود آگاہی کا دروازہ کھول دیا،آپ (ﷺ) کے قدم رنجہ فرمانے سے انسان مقامِ انسانیت سے روشناس ہوا اور اس کومعلوم ہوا کہ میری ذات راز الٰہی ہے، ا س پہ یہ راز فاش ہوا کہ میں سورج،چاند،ستاروں اور دوسرے مظاہر ِ قدرت کے آگے جھکنے نہیں بلکہ ان کو تسخیر کرنے آیا ہوں،یہ آپ (ﷺ) کی نگاہ مبارک کا فیض ہی تھا جس نے غلام و آقا کو ایک صف میں کھڑا کر دیا اور عرب و عجم کی بناء پہ تفریق کو ختم فرما کے تقویٰ کو معیار فضیلت قرار دیا یہی وجہ ہے سیدنا فاروقِ اعظم (رضی اللہ عنہ) حضرت بلال (رضی اللہ عنہ) کو ’’سَیِّدُنَا بِلَالٌ‘‘ (ہمارے سردار بلال (رضی اللہ عنہ)کَہ کر مخاطب فرماتے،آپ (ﷺ)نے اسلامی آئین و قانون کو سپرمیسی عطا فرمائی لوگوں کو نظم و ضبط سکھایا، حضور نبی کریم (ﷺ)نے جہاں پوری انسانیت کو رہنما اصول عطا فرمائے جیسا کہ فرمان مبارک ہے ’’اپنے تیسرے ساتھی کوچھوڑ کر دو شخص آپس میں سرگوشی نہ کریں کیونکہ یہ بات اسے رنج پہنچائے گی‘‘-[3]
(ہر ذی شعور اس چیز کو سمجھتا ہے کہ اس کا تعلق پوری انسانیت سے ہے )وہاں نہ صرف اپنی اُمت کو قرآن و سنت کی صورت میں بیش بہا خزانہ عطا فرمایا بلکہ قبل از وقت اس کی کمزوریوں سے بھی آگاہ فرمایا جیسا کہ حضور نبی کریم(ﷺ)نے ارشاد فرمایا:قریب ہے کہ دیگر اقوام تم پر یوں ٹوٹ پڑیں گی جیسے بھوکا کھانے سے بھرے ہوئے پیالے پہ ٹوٹ پڑتا ہے ایک شخص نے بارگاہِ اقدس میں عرض کیا:یار سول اللہ (ﷺ):کیا ان دنوں ہماری تعداد کم ہوگی؟ حضور رسالت مآب (ﷺ) نے ارشادفرمایا : بلکہ ان دنوں تم اکثر یت میں ہوگے لیکن ایسے بیکارہو گے جیسے سمندر کی جھاگ،اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارے رعب کو نکال دے گا اورتمہارے دلوں میں ’’وَھن ‘‘ کی مرض پیدا فرما دے گا-سائل نے عرض کی:یا رسول اللہ (ﷺ)!وَھن کیاہوتا ہے؟ تو حضور رسالت مآب (ﷺ)نے ارشادفرمایا:’’حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ‘‘[4]، ’’دنیا سے محبت اور موت سے نفرت‘‘ دراصل وہن کی مرض تب لگتی ہے جب سیرت ِ مصطفٰے (ﷺ) قلب و نظر کا مرکز و محور نہ ہو اور دل عشق ِ مصطفٰے (ﷺ)و نورِ ایمان سے خالی ہو جائیں-آج امت ِ مسلمہ کی موجودہ صورت ِ حال اس حدیث مبارک کی عکاس نظر آتی ہے،اس لیے اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ اسوہ رسول (ﷺ) پہ مکمل طور پہ اپنایا جائے نہ کہ جزوی طور پہ محض لباس اور وضع قطع کا بدلنا مطلوب نہیں،بلکہ ہمیں چاہیے کہ ہم جہاں اپنے پیارے آقا سرور کائنات (ﷺ) کے ظاہری سنتوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں وہاں سیدی رسول اللہ (ﷺ) کے باطنی اعمال صالحہ (توکل،استغنا، اللہ عزوجل سے قلبی لَو و قلبی ذکر،عزم و استقلال وغیرہ کو بھی) اپنائیں،کیونکہ یہ (باطنی اعمال)حضورنبی کریم (ﷺ) کی وہ سنتیں ہے جو ایک لمحہ کے لیے بھی آپ (ﷺ) سےجدا نہیں ہوئیں، اس لیے ان کو سنن دائمیہ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے ہمارے اکابرین اولیاء کرام نے جہاں ہمیشہ ظاہری اعمال پہ عمل کا حکم فرمایا وہاں اعمال باطنیہ کی بھی تعلیم وتلقین فرمائی اورمکمل سیرتِ رسول عربی (ﷺ) کو اپنانے کاحکم فرمایا ہے –
[1]( الجامع الترمذی ، کتاب الرويا)
[2]( الروض الانف،وِلَادَةَ رَسُولِ اللهِ، (ﷺ)و خصائص الکبرٰی باختلاف الفاظ الروایۃ)
[3](سنن ابی داؤد، کتاب الادب)
[4](سنن ابی داؤد، کتاب الملاحم)