پاکستانی معیشیت کا کڑا امتحان (گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ تک کا سفر)
حال ہی میں منی لانڈرنگ اور ٹیررفنانسنگ کے عالمی مسئلے پر بڑی بیٹھک فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ہوئی-جس کادورانیہ 13اکتوبر سے 18 اکتوبر تک تھا، پاکستان کی طرف سے وفاقی وزیر حماد اظہر کی قیادت میں 5 رکنی اقتصادی وفد شریک ہوا، بات آگے بڑھانے سے پہلے یہ بات ذہن نشین رہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF )جو کہ جی سیون ممالک (امریکہ، برطانیہ،کینیڈا،فرانس،اٹلی ،جرمنی اورجاپان )کی ایماء پر 1989ء میں بنائی گئی، بعد میں اس کے ممبران کی تعداد میں اضافہ ہوتارہا، اب اس کی وسعت براہ راست یا بالواسطہ کم وبیش 180 ممالک تک ہے- پاکستان FATF سے وابستہ ایشیاءپیسفک گروپ کا حصہ ہے-اس ادارے کاقیام بین الاقوامی مالیاتی نظام کو دہشت گردی اور منی لانڈرنگ سے بچانے کیلیے عمل میں لایاگیا- بالخصو ص 11/9 کے بعد اس ادارے کو اور زیادہ فعال بنا دیا گیا حتی کہ اب FATF کواقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں یہ قانونی حیثیت حاصل ہے کہ وہ کسی ملک کو گرے لسٹ میں رکھے،خارج کردے،بلیک لسٹ میں ڈالے یاپھر کلین چٹ دے دے -یہ سب اس کے دائرہِ اختیارمیں ہے،بلیک لسٹ میں جانے کا کسی بھی ملک کوایک نقصان یہ ہوتاہے کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے (ورلڈبینک و دیگراین جی اووزوغیرہ ) اس ملک میں کام نہیں کرتے جس کی وجہ سے اس ملک کی معیشیت کو شدید دھچکا لگتا ہے؛ دوسرا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ا س ملک کی ساکھ تباہ ہوجاتی ہے جس کے اثرات اس کی معیشیت پہ بھی پڑتے ہیں کیونکہ کوئی سرمایہ دار آسانی سے اس ملک میں کام کرنے پہ راضی نہیں ہوتا، اس وقت بلیک لسٹ کی فہرست میں شامل ممالک (ایران اورشمالی کوریا) اور گرے لسٹ میں شامل ممالک پاکستان سمیت پاناما،منگولیا،گھانا،زمبابوے،یمن وغیر ہ ہیں-مزید یہ کہ پاکستان 2012 ء تا2015ء گرے لسٹ میں رہ چکا ہے -
انڈیا چونکہ ہر دفعہ پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کرتاہے، اس دفعہ بھی انڈیا کی بھر پور کوشش رہی کہ پاکستان کو کسی نہ کسی طرح بلیک لسٹ میں شامل کرکے اس کی معاشی ناکہ بندی کی جائے -جس کے لیے اس نے پاکستان کے اندرون اوربیرون کئی سازشوں کے جال بچھائے جوچشم ِ بصیرت رکھنے والوں سے پوشید ہ نہیں-انڈیا کو کافی حدتک یہ یقین تھاکہ پاکستان بلیک لسٹ میں چلاجائے گالیکن اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل وکرم اورکچھ دیرینہ دوستوں (ترکی، ملائشیاءاورچائینہ )کے بروقت اقدامات سے پاکستان وقتی طور پہ ان خطرات سے باہر نکل آیا -
پاکستان کی طرف سے وزیر اعظم پاکستان نے قبل از وقت اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا، اقوام متحدہ کے اجلاس میں ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں اس کا تذکرہ بھی کیااوراس کے علاوہ کئی ایسے اقدامات کئے تاکہ پاکستان کےسر سے کسی نہ کسی طرح یہ سیاہ بادل ٹل جائیں-حیران کن بات جودیکھنے میں آئی کہ جب پیرس میں یہ اہم اجلاس جاری تھا،ہر مخلص پاکستانی اچھی خبر کی امید میں اس اجلاس کو سنجیدگی سے دیکھ رہا تھا؛ دُشمنانِ وطن نے پاکستان کے بعض اندرونی سیاسی حالات کی ویڈیوز کی بنیاد پہ عالمی سطح پہ ایسا پروپیگنڈا کیا جس سے واضح تاثر یہ جاتاتھاکہ پاکستان بیرونی ممالک کے سرمایہ کاروں کے لیے محفوظ ملک نہیں لیکن ان کےتمام منصوبے وناپاک عزائم اس وقت خاک میں مل گئے جب FATF کے صدرژیانگ من لیو نے پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کی تعریف کی اور کہا کہ نئی حکومت کے آنے کے بعد منی لانڈرنگ اوردہشت گردوں کی مالی معاونت کے حوالے سےپیش رفت ہوئی ہے جس کا ہم خیرمقدم کرتے ہیں تاہم پاکستان کو مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے- اس لیے پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کی بجائے اگلے سال فروری تک مہلت دی گئی -ا س سے پہلے FATF نے 27 نکاتی ایکشن پلان پہ عمل درآمدبنانے کو کہاتھا،لیکن پاکستان سے مکمل عمل نہ ہوسکا لیکن کچھ پیش رفت ضرور ہوئی ، اس مرتبہ ڈی جی فنانشل مانیٹرنگ یونٹ منصور صدیقی نے کہا کہ ہمارا سفرمعیشیت کے اعتبارسے درست سمت گامزن ہےاور یہ یقین دلایاکہ انشاء اللہ اس دفعہ پاکستان گرے لسٹ سے نکل آئے گا-
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ غریب عوام کو مہنگائی کاسامناہے اوراس کااعتراف خود حکومت نے بھی کیا،لیکن اس کے باوجود انٹرنیشنل سطح پہ پاکستان کا امیج بہت بہترہوا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف بیرون ممالک کی ٹیموں نے آنا شروع کر دیا بلکہ دیگرکئی سیاحوں (برطانوی شاہی جوڑے وغیرہ )نے بھی پاکستان کا رخ کیا جوبطورِ معیشیت پاکستانیوں کے تازہ ہواکے جھونکے سے کم نہیں-
موجودہ حالات کے تناظرمیں جہاں حکومتی سطح پر ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی حوصلہ شکنی کریں وہاں ہر فرد کی انفرادی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ خود بھی مثبت کردار ادا کرے اور ایسے ملک دشمن عناصر پہ بھی کڑی نظر رکھےجو پاکستان کو نقصان پہنچانے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے –